Skip to main content

Posts

Showing posts from 2011

جماعت اسلامی کی دو عملیاں

جماعت اسلامی کی دو عملیاں ہمارے ملک میں ایک طرف امر بالمعروف و نہی عن المنکر ﴿امر کم اور نہی زیادہ﴾ پر عمل کرتے ہوےٴ شباب ملی کے کارکنان سالِ نو کی سرد رات میں ہوٹلوں مراکز فواحشات کے باہر ڈنڈا بردار مظاہرے کرتے ہیں ﴿جہاں موقعہ ملے ڈنڈا مار بھی دیتے ہیں﴾ اور جوانوں کو منکرات اور فواحشات سے روکتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے اسی معاشرے میں پھیلی ہویٴ بے شمار برائیاں ان کی توجہ اس طرح مبذول نہیں کرا پاتیں۔ مثلاً سانحہٴ نواب پور سے لے کر حالیہ سانحہٴ ہزارہ تک ہزاروں واقعات میں بااثر افراد سرِبازار مظلوم عورتوں سے لرزہ خیز سلوک کرتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کے خلاف اس طرح کا احتجاج کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔   کبھی اتنے پیارے بن جاتے ہیں کہ خاتونِ پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں الیکشن مہم چلاتے ہیں اور اپنا سارا وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں اور کبھی اتنے ناراض ہو جاتے ہیں کہ عورت ہونے کی بناء پر بے نظیر بھٹو کو حقِ حکمرانی دینے کو تیار نہیں ہوتے۔   ایوب خان کے مارشل لاء کی مخالفت کرتے ہیں مگر ضیاءالحق کے مارشل لاء کو سہارا دیتے ہیں حالانکہ بعد میں پروفیسر غفور صاحب اقرار بھی کرتے ہ

اِب کے مار، اِب کے مار کے دکھا

  اِب کے مار، اِب کے مار کے دکھا   جب عوام کے پاس اپنی بات سنانے کا یا اپنے جذبات آگے پہنچانے کے کوئی ذریعہ نہ بچے تو وہ احتجاج کا سہارا لیتے ہیں۔ اگرچہ حکومتیں اور دوسرے ادرارے تو مختلف طرح کی سہولیات استعمال کرکے اپنی بات ہر جگہ پھیلا سکتے ہیں مگرعوام کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کا آخری ذریعہ جلسے، جلوس یا دھرنے ہی رہ جاتے ہیں۔ بیشتر حالات میں احتجاج چونکہ مقتدرہ کے خلاف ہوتا ہے لہٰذا یا تو عوام   اپوزیشن رہنماوں کی سرکردگی میں احتجاج کرتے ہیں یا پھر اپوزیشن رہنما کوشش کر کے احتجاج کی عنان اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ بہر حال یہ بات اتنی بری نہیں ہوتی کیونکہ بے سمت اور بے قابو احتجاج فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔   احتجاج سیاست کا اہم حربہ ہے مگر یہ تب ہی موثر ہوتا ہے جبکہ اسے سمجھداری سے، صحیح وقت، صحیح جگہ اور صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے۔ کثرت استعمال سے یہ غیر موثر ہوتا چلا جاتا ہے۔   سیاست کی دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار "اعتبار" ہوتا ہے۔ باقی تمام حربے مثلاْ   احتجاج، جلسے، جلوس، دھرنے، مارچ، بائیکاٹ، وغیرہ مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ گرچہ یہ

چلیں کفن کا کاروبار کریں

چلیں کفن کا کاروبار کریں   میری قوم کے نوجوان اپنی تقدیر سے مایوس، پیٹ میں فاقے اور ہاتھوں میں کشکول اٹھائے گھوم رہے ہیں۔ نوکری حاصل کرنا کارِدارد اور کاروبار شروع کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف۔ کچھ ہاتھ مانگنے کو اٹھ گئے ہیں تو کچھ چھیننے پر آمادہ۔ بھوک ایمان کو نگل رہی ہے۔ فاقے امان کو کھا رہے ہیں۔ بے کاری عیّاری کو جنم دے رہی ہے۔ اور جرائم کا ٹڈی دَل اقتصادیات کی فصل کو چاٹ چکا ہے۔   مگر پھر بھی ایک کاروبار ہے جو روزافزوں بڑھ رہا ہے، پھل پھول رہا ہے، آکاس بیل کی طرح ہمارے دیوار و در پر پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ میرے ملک کے سارے جوانوں کو خبر کر دو کہ جائیں اور کفن کا کاروبار کریں۔ اٹھیں اور دفن کی خدمات سر انجام دیں۔ چلیں اور قبر کے پلاٹ بیچیں۔   میرے وطن میں جب چاہے ڈرون طیّارے آتے ہیں اور میرے دسیوں ہم وطنوں کو خاک و خون میں نہلا جاتے ہیں۔   جس دن ڈرون حملہ نہ ہو سکے اس روز ڈرون حملوں کے مخالف میرے وطن کو بم حملے کا نشانہ بناتے ہیں، درجنوں پاکستانیوں کو زندگی کی قید سے آزاد کرا دیتے ہیں۔ ڈرون والوں کی طرح یہ بھی التزام رکھتے ہیں کہ صرف عام پاکستانی ہی مارے جائیں۔   کسی روز سیکیورٹی فو