جماعت اسلامی
کی دو عملیاں
ہمارے ملک میں
ایک طرف امر بالمعروف و نہی عن المنکر ﴿امر کم اور نہی زیادہ﴾ پر عمل کرتے ہوےٴ
شباب ملی کے کارکنان سالِ نو کی سرد رات میں ہوٹلوں مراکز فواحشات کے باہر ڈنڈا
بردار مظاہرے کرتے ہیں ﴿جہاں موقعہ ملے ڈنڈا مار بھی دیتے ہیں﴾ اور جوانوں کو
منکرات اور فواحشات سے روکتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے اسی معاشرے میں پھیلی ہویٴ بے
شمار برائیاں ان کی توجہ اس طرح مبذول نہیں کرا پاتیں۔ مثلاً سانحہٴ نواب پور سے
لے کر حالیہ سانحہٴ ہزارہ تک ہزاروں واقعات میں بااثر افراد سرِبازار مظلوم عورتوں
سے لرزہ خیز سلوک کرتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کے خلاف اس طرح کا احتجاج کبھی دیکھنے
میں نہیں آیا۔
کبھی اتنے
پیارے بن جاتے ہیں کہ خاتونِ پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں الیکشن مہم
چلاتے ہیں اور اپنا سارا وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں اور کبھی اتنے ناراض ہو
جاتے ہیں کہ عورت ہونے کی بناء پر بے نظیر بھٹو کو حقِ حکمرانی دینے کو تیار نہیں
ہوتے۔
ایوب خان کے
مارشل لاء کی مخالفت کرتے ہیں مگر ضیاءالحق کے مارشل لاء کو سہارا دیتے ہیں
حالانکہ بعد میں پروفیسر غفور صاحب اقرار بھی کرتے ہیں کہ بھٹو کو ساتھ معاہدہ طے
پا گیا تھا مگر جب اسی رات کو مارشل لاء لگتا ہے تو اس کو خوش آمدید بھی کہتے ہیں۔
ضیاءالحق صاحب
نے 3 ماہ میں انتخابات کرا کے اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا
تھا مگر وہ اس سے مکر گئے۔ اس کے باوجود بھی جماعت اسلامی 10 ماہ تک اقتدار کا حصہ
رہی حتیٰ کہ ضیاءالحق صاحب نے ہر آمر کی طرح ہر اس شخص اور جماعت سے چھٹکارا حاصل
کر لیا جس نے اسے اقتدار میں آنے یا رہنے میں مدد کی۔ ﴿ایوب، ضیا اور مشرف نے اپنے
اولین ساتھیوں کے ساتھ ایک جیسا ہی سلوک کیا تھا﴾۔ مگر دوسری طرف مارشل لاء کے
خلاف کھڑے ہونے کے دعوے بھی ہیں۔
اولین افغان
جہاد میں فتح کے دعوے دار تو ہیں مگر اس سے منسلک خرابیوں سے دامن چرا کر خراماں
پا گزر جاتے ہیں۔ روس کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کے قول کا ورد کرتے ہوئے روس
کی افغانستان میں شکست اور اس کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا سہرا تو اپنے سر پہ باندھنے
کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں امریکہ کو ملنے والی واحد عالمی
طاقت کے خطاب میں اپنا کردار نہیں دیکھ پاتے۔ کل تک یہ دونوں عالمی طاقتیں ایک
دوسرے سے لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو لہولہان کر رہی تھیں مگر جب امریکہ کے راستے سے
روس کا کانٹا نکل گیا تو اسی امریکہ نے جس کے ساتھ مل کر آپ نے روس کو زمین چٹا دی
تھی، پانچ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو صرف عراق اور افغانستان میں شہید کیا اور اس
کی سفاکی کے شکار ہمارا اپنا وطن بھی ہو رہا ہے۔
فراست کا یہ
عالم ہے کہ نعرے لگاتے ہیں کہ روس شکست کھا چکا اب امریکہ کی باری ہے۔ روس کے
ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے ہاتھوں مسلمانوں کا حشر تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں اب کیا یہ
بات سمجھنے کے لیے نیوٹن کا دماغ چاہیے کہ امریکہ کی شکست کے بعد اگلی عالمی
طاقتیں کون سی ہو سکتی ہیں۔ جناب عالی اگلی دونوں عالمی طاقتیں ہمارے پڑوس میں ہی
براجمان ہیں اور ہم ان دو ہاتھیوں کی جنگ میں کچلے جانے کے لیے پہلے ہی سے تیار
بلکہ سراپا انتظار بنے بیٹھے ہیں۔
Comments
Post a Comment