Skip to main content

Posts

Showing posts from 2014

سنتوں کے سوداگر

سنتوں کے سوداگر سحری کا با برکت وقت تھا۔ ٹی وی چینل پر شہرِ رمضان سجا ہوا تھا۔ میزبان اور علماء کرام سحری کی میز پر موجود تھے جہاں طعام کے ساتھ خوبصورت دینی گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ تمام افراد زمین پرتشریف فرما تھے اور ان کے سامنے تقریباً  ڈیڑھ فٹ اونچی اور آٹھ فٹ لمبی میز پر انواع و اقسام کی نعمتیں موجود تھیں۔ سحری کے اختتام پر ایک عالم نے اتنی عمدہ سحری پر میزبان  کی تعریف کی اور کہا کہ جناب اگر اس میز کے بجائے دسترخوان بچھا لیا جاتا تو سنت کا ثواب بھی حاصل ہو جاتا۔ اس پر دوسرے عالم نے ٹی وی سیٹ کی نزاکتیں سمجھتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس میز پر ہی دسترخوان بچھا لیا جائے تو سنت پوری ہو جائے گی۔ ایک لمحے کو دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ ہمارے علماء سنتوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ مگر  یہ نفسِ غیر مطمئنہ (شیطان تو  آج کل  زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو گا) کہ  کوئی اچھی بات سوچ ہی نہیں سکتا۔ خیال در  آیا کہ سنت ِ رسول ﷺ پر اس قدر باریکی سے نظر رکھنے والے عالم کی نظر حقیقت بیں سے کیا کیا چیزیں  پنہاں رہ گئیں۔ یاد آیا کہ میرے آقا ﷺ نے تمام عمر کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی۔ آپ

شام شعر یاران (از مشتاق احمد یوسفی) سے انتخاب

شامِ شعرِ یاراں سے انتخاب لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کلیّتاً   تَرک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نامطبوع ضرور ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ  vocabulary  یعنی زیرِ استعمال ذخیرۂ الفاظ تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے۔ لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والیے کی مبتدیانہ ادبی سطح  کا تابع اور اس کی انتہائی محدود اور بس کام چلاؤ لفظیات کا پابند کر لیا ہے۔ اس باہمی مجبوری کو سادگی وسلاستِ بیان،  فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیا جاتا ہے!  قاری کی سہل انگاری اور لفظیاتی  کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دَور میں شرطِ نگارش اور معیارِابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اب تو یہ توقع کی جاتی ہے  کہ پھلوں سے لدا  درخت خود اپنی شاخِ ثمردار شائقین کے عین منہ تک جھُکا دے! لیکن وہ کاہل خود کو بلند کر کے یا ہاتھ بڑھا کر پھل تک پہنچنے کی کوشش ہرگز نہیں کرے گا۔      مجھے تو اندیشہ ستانے لگا ہے کہ کہیں یہ سلسلۂ سلاست و سادگی،  بالآخر تنگنائے اظہار اور عجز بیان سے گزر کر، نِری     language body  یعنی اشاروں  اور نِرت بھاؤ بتانے پر آکے نہ ٹھہرے! عزیزو،  جو جئے گا وہ دیکھے گا کہ ادب کی ننگی muse  نہائے گی کیا،