سنتوں کے سوداگر
سحری کا با برکت وقت تھا۔ ٹی وی چینل پر شہرِ رمضان سجا ہوا
تھا۔ میزبان اور علماء کرام سحری کی میز پر موجود تھے جہاں طعام کے ساتھ خوبصورت
دینی گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ تمام افراد زمین پرتشریف فرما تھے اور ان کے سامنے تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچی اور آٹھ فٹ لمبی میز پر انواع و
اقسام کی نعمتیں موجود تھیں۔ سحری کے اختتام پر ایک عالم نے اتنی عمدہ سحری پر
میزبان کی تعریف کی اور کہا کہ جناب اگر
اس میز کے بجائے دسترخوان بچھا لیا جاتا تو سنت کا ثواب بھی حاصل ہو جاتا۔ اس پر
دوسرے عالم نے ٹی وی سیٹ کی نزاکتیں سمجھتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس میز پر ہی
دسترخوان بچھا لیا جائے تو سنت پوری ہو جائے گی۔ ایک لمحے کو دل خوشی سے جھوم اٹھا
کہ ہمارے علماء سنتوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ مگر یہ نفسِ غیر مطمئنہ (شیطان تو آج کل
زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو گا) کہ کوئی
اچھی بات سوچ ہی نہیں سکتا۔ خیال در آیا
کہ سنت ِ رسول ﷺ پر اس قدر باریکی سے نظر رکھنے والے عالم کی نظر حقیقت بیں سے کیا
کیا چیزیں پنہاں رہ گئیں۔ یاد آیا کہ
میرے آقا ﷺ نے تمام عمر کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی۔ آپ ﷺ کے دستر
خوان پر انواع و اقسام کے مرغن کھانے کبھی جمع نہیں ہوئے۔ پھر خیال آیا کہ سرورِ
دو جہاں پر کبھی تین دن لگاتار ایسے نہیں آئے جب آپ ﷺ نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا
ہو۔ پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ ان علمائے
کرام کے نزدیک اس کی وجہ آقائے دو جہاں کے مالی حالات ہوں ، آپ ﷺکی سنت نہ ہو۔
ایک ایک سنت پر نظر رکھنے والے اور ان کی تلقین کرنے والے
علماء کی نظروں سے کیا کیا اوجھل رہ جاتا ہے اس کی چند مثالیں حاضر ہیں۔ رمضان کے
با برکت لمحات ٹی وی پر ""تبلیغ
" میں گزارنا جبکہ ثقہ علماء
کے نزدیک ٹی وی اور تصاویر حرام ہوں۔ ان با برکت محافل میں ہونے والی خلافِ سنن
افعال سے صرفِ نظر مثلاً اختلاطِ زن و مرد، خواتین کا غیر مکمل پردہ، مرد میزبانوں کا خواتین اور بچیوں میں جا جا کر
سوالات کرنا اور عورتوں اور بچیوں کا چیخ چیخ کر انعام لینے کی کوششیں۔ اور کبھی
کبھی تو سوالات کے بجائے صرف صورت معصوم نظر آنے پر انعامات دینا۔
سنت کیا ہے؟
ان علمائے کرام کے طرزِ عمل نے میرے ذہن میں ایک سوال پیدا
کر دیا ہے کہ دراصل سنت کیا ہے؟ اس کی ایک
عام تعریف تو یہ ہے کہ جو عمل ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ نے بار بار یا متواتر انجام
دیا ہو یا کسی ایک چیز یا عمل کو دوسرے پر
متواتر ترجیح دی ہو، سنت کہلاتا ہے۔ یہاں ایک معاملہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو عمل
نبی پاک ﷺ کے زمانے کے حالات کی بناء پر ہو وہاں پر نئے حالات کی بناء پر مختلف
عمل بھی کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ بنیادی اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہو۔
اب اس کی ایک مثال لاوڈ اسپیکر کی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ چند
دہائیوں پہلے علماء نے بالاتفاق اسے ناجائز
قرار دیا مگر اب تمام لوگوں نے اسے قبول کر لیا
ہےکیونکہ اب مساجد گھروں سے دور دور ہوتی ہیں اور بغیر لاوڈاسپیکر کے گھروں تک اذان کی آواز
پہنچانا تقریباً ناممکن ہے۔ مگر کچھ ایسے
معاملات بھی ہیں جہاں حالات تبدیل نہیں ہوئے مگر لوگوں کے خیالات تبدیل ہو گئے۔
مثلاً شاہِ دوجہاں کھجور کی چھال سے بنے گدے پر استراحت فرماتے تھے۔ ایک رات جب
حضرت عائشہ ؑ نے آپ ﷺ کی راحت کے لئے اسے دوہرا کر دیا تو نبی پاک ﷺ نے حضرت
عائشہؑ کو اس سے منع فرمایا کہ اس عمل سے
رات کو نماز کے لئے اٹھنے میں سْستی محسوس ہوئی تھی۔ حالانکہ اس زمانے میں بھی نرم اور گداز بستر ہوا
کرتے تھے مگر میرے آقائے کریم نے ان کو کبھی استعمال نہیں فرمایا۔ آج میں شہروں
شہروں ایسے عالم کو ڈھونڈ رہا ہوں جو اس سنت پر عمل کرتا ہو۔ مگر کوئی ایسا عاشقِ
رسول نظر نہیں آیا۔
نبی پاک کے زمانے میں امراء میں قالینوں کا استعمال عام تھا مگر میرے نبی پاکﷺ نے کبھی
اپنے گھر یا مسجد میں قالین استعمال نہیں کیا۔ مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ مساجد میں
بلاوجہ قیمتی اور دبیز قالین استعمال کئے جاتے ہیں اور پھر ان قالینوں کی گرمی سے
بچنے کے لئے پنکھے اور مقدور ہو تو ائر کنڈیشنرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ
عمل اسراف میں نہیں آتا اور خلافِ سنت نہیں؟
ایک اور متواتر سنت ِرسول اور پھر سنتِ مسلمین، مکبّر کی
ہے۔ جب مقتدی زیادہ ہوتے تھے تو امام کی تکبیر کو پچھلی صفوں تک پہنچانے کے لئے ہر
چند صفوں کے بعد کوئی مقتدی امام کی تکبیر کو دہراتا تھا۔ احادیثِ مبارکہ میں اس عمل کی بڑی
فضیلت آئی ہے۔ مگر لاوڈ اسپیکر کے استعمال کے بعد اس سنت کو ترک کر دیا
گیا ہے۔ جب دوسری سنتوں کی زندہ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے تو کیوں نہ نماز کے دوران لاؤڈ اسپیکر کو بند اور اس سنت کو
زندہ کیا جائے؟
میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ کیوں کر مسواک کا
استعمال ضروری سنت ہے مگر سواری کے لئے گھوڑوں اور اونٹوں کے پالنے اور استعمال کی
اب ضرورت نہیں۔ میں کار یا دوسری سواریوں کے استعمال کے خلاف نہیں مگر اونٹوں اور گھوڑوں کے استعمال
کو(بطورِ سنت ہی سہی) فروغ کیوں نہ دیا جائے؟
اور پھر یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ میرے آقا نبی پاک ﷺ نے شہروں کو بڑا نہ کرنے کا حکم دیا۔ مگر
کیوں کر چھوٹے شہروں اور قصبوں سے ہر سال ہزاروں بچے کراچی اور لاہور جیسے بڑے
شہروں کے مدارس میں لا کر نبی کریم ﷺ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ان بچوں کو ان کے ماں باپ سے جدا کرنے کے بجائے
ان کے گھروں کے پاس ہی کیوں نہیں پڑھایا جاتا؟ کیا یہ عمل خلافِ سنت نہیں؟
اس طرح کی بے شمار اور سنتیں ہیں جیسے تعلیمِ دین کی اجرت نہ لینا، امامت نماز کی اجرت نہ لینا
وغیرہ مگر ان کا ذکر عام نہیں ہے۔ مگر کھجور، شہد، کلونجی کھانا ایک ضروری سنت
سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ نبی پاکﷺ نے ایک بار حضرت علی ؑ کو کھجور کھانے سے اس وقت
منع فرمایا تھا جبکہ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر
شے کو سنت کہہ کر ہر ایک پر لازم کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے کہ دو جہانوں کے سردارﷺ
کے ہر عمل میں سراسر دانش پنہاں تھی اور آپ ﷺ کے ہر عمل ہر سنت سے پہلے اس کی وجہ
جان لینے سے ہم اس سنت سے زیادہ بہتر طریقے سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔
کاش کہ ہمارے علماء اپنی مرضی کی حدیثوں کی ترویج کے بجائے نبی
پاک کی تمام سنتوں کو عام کرنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں کہ اہلِ یہود نے بھی نبی
پاک ﷺ کے سامنے اپنے صحیفے میں سے اوپر اور نیچے کے حصے سنائے اور بیچ کا حصہ چھپا
گئے تھے جسے نبی پاک ﷺ نے شدید ناپسند فرمایا تھا۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو قرآن اور
سنت پر پوری طرح سے عمل کرنے والا بنائے اور ہم سب کو صرف اپنے مطلب کی احادیث کی
ترویج سے بچائے۔
آخر میں پھر ایک دعا کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی زندگیاں
رسولِ پاک ﷺ کی سنتوں کے مطابق ڈھالنے کی
توفیق فرمائے۔
Comments
Post a Comment