Skip to main content

شام شعر یاران (از مشتاق احمد یوسفی) سے انتخاب

شامِ شعرِ یاراں سے انتخاب


لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کلیّتاً   تَرک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نامطبوع ضرور ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ  vocabulary  یعنی زیرِ استعمال ذخیرۂ الفاظ تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے۔ لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والیے کی مبتدیانہ ادبی سطح  کا تابع اور اس کی انتہائی محدود اور بس کام چلاؤ لفظیات کا پابند کر لیا ہے۔ اس باہمی مجبوری کو سادگی وسلاستِ بیان،  فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیا جاتا ہے!  قاری کی سہل انگاری اور لفظیاتی  کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دَور میں شرطِ نگارش اور معیارِابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اب تو یہ توقع کی جاتی ہے  کہ پھلوں سے لدا  درخت خود اپنی شاخِ ثمردار شائقین کے عین منہ تک جھُکا دے! لیکن وہ کاہل خود کو بلند کر کے یا ہاتھ بڑھا کر پھل تک پہنچنے کی کوشش ہرگز نہیں کرے گا۔      مجھے تو اندیشہ ستانے لگا ہے کہ کہیں یہ سلسلۂ سلاست و سادگی،  بالآخر تنگنائے اظہار اور عجز بیان سے گزر کر، نِری     language body  یعنی اشاروں  اور نِرت بھاؤ بتانے پر آکے نہ ٹھہرے! عزیزو،  جو جئے گا وہ دیکھے گا کہ ادب کی ننگی muse  نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا۔ ہمیں تو یہ دونوں منظر دیکھنے کے لئے جینے کی آرزو بھی نہیں۔   

غالبؔ، آزاؔد، سر سید احمد خاں، حالؔی، شبلیؔ، سرشار، غلام رسول مہر، صلاح الدین احمد اور منٹو کی نثر کا آج کی تحریروں سے موازنہ کیجئے  تو  واضح ہوگا کہ بیسیوں نہیں، سیکڑوں جاندار الفاظ  کہ ہر لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم تھا، عدم استعمال اور تساہلِ عالمانہ کے سبب متروکات کی لفظ خور کانِ نمک کا حصّہ بن گئے۔ اُن کی جگہ اُن  مطالب و مفاہیم، اتنے معنوی ابعاد، تہہ داریوں اور رسائیوں، ان جیسی نزاکتوں اور لطافتوں، ویسے رنگ و نیرنگِ معانی، شکوہ  و طنطنے کے حامل نادرہ کار الفاظ نہ آنا تھے ، نہ آئے۔ اور آتے بھی کیسے، ہر لفظ انوکھا،  یکتا، بےمثل و بےعدیل ہوتا ہے۔ دوسری نسل کے DNA  سے اس کی کلوننگ نہیں ہو سکتی۔ ہر لفظ ایک عجیب و غریب، ہرابھرا، سدا بہار جزیرہ ہوتا ہے، جس کی اپنی آب و ہوا، اپنے موسم، اپنی شفق اور دھنک، اپنی بجلیاں اور ان کے کڑکے، اپنی نباتات اور گلِ زمیں تلے اپنی معدنیات ہوتی ہیں۔ اس کے اپنے کولمبس، اپنے کوہ و دشت پیما، سیّاح، سیلانی اور کان کُن ہوتے ہیں۔ جب بےغوری، غفلت اور فراموش کاری کا بحیرۂ مردارکسی جزیرے کو نگل جاتا ہے تو نہ کبھی اُس کا جنازہ اٹھتا ہے،  نہ کہیں عُرس پر قوّالی یا دھمال ہوتی ہے۔  بحر کی تہہ سے اُس جیسا جزیرہ پھر نہیں اُبھرتا۔ جس طرح ہر فردِ بشر بالکل   unique   یعنی انیق اور بے مثیل و بے مثّنٰی ہوتا ہے۔ اور اُس کا کوئی مماثل یا نعم البدل ہوا،  نہ ہوگا۔ اسی طرح صحیح معنوں میں لفظ  کا کوئی متبادل یا مترادف نہیں ہوتا۔ البتہ لفظوں کی برادری میں بھی عوضی کام کرنے والی نفری، سوانگ بھرنے والے بہروپیے اور نقّال ضرور ہوتے ہیں!  دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا۔  ان کی ہُنر مندی اور بہروپ سے ہم لطف اندوز تو ضرور ہو سکتے ہیں، لیکن فریب کھانا آئینِ سخنوری و سُخن دانی میں حرام ہے۔

ایک زمانے میں فارغ التحصیل ہوے کے بعد ڈاکٹروں کو بقراطی حلف   Hippcratic Oath  اٹھانا پڑتا تھا جس میں وہ عہد کرتے تھے کہ وہ مریض کے رنگ و نسل و حیثیت سے قطع نظر اس کی جان بچانے کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔  میرے خیال میں شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں اور قلم کاروں کو بھی ایک باقاعدہ رسمِ حلف برداری میں کراماً کاتبین کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرنا چاہئے: ”ہم اپنے قلم کی قسم کھا کر عہد کرتے ہیں کہ کسی جاندار، کارآمد، اپنے مفہوم اور اُس کے اظہار پر پوری قدرت رکھنے والے اور گئی رُتوں کی خوشبوؤں میں بسے لفظ کو آنکھوں دیکھتے محض اس جُرم کی پاداش میں مرنے نہیں دیں گے کہ عدم استعمال کے باعث عام آدمی یا سہل انگار قاری اُس سے ناآشنا ہے۔ اور نہ کسی جیتے جیتے، ہنوز کاغذی پیرہن میں سانس لیتے ہوئے لفظ کو قدامت و متروکات کے دشتِ خموشاں میں زندہ دفن ہونے دیں گے۔ ہم اس عہد سے پِھریں تو ربِّ ذوالجلال لفظ کی تاثیر اور اس کا اعجاز ہم پر حرام کردے۔ ہم عہد کرتے ہیں۔“

اس کا اطلا ق ہر زبان کے قلم کاروں پر ہوتا ہے۔

لفظ کی جاں کنی اور موت پریہ  نوحہ کناں تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ ڈکشنری لفظ کو حیاتِ نَو بخشنے، زندہ اور زیرِاستعمال رکھنے کی معتبر ضمانت ہے۔ ہر اصطلاح اور ہر لفظ انسان کے علم و آگہی  اور احساس کی زمانی سرحد کی نشاندہی کرتا ہے۔ مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ اگر تمہیں کسی غیر آباد، سنسان اور بے چراغ جزیرے میں خراب مزاح لکھنے کی پاداش میں چھوڑ دیا جائے تو تم قرآن مجید کے علاوہ  اور کون سی کتاب ساتھ لے جانا پسند کرو گے ؟ تو میں ایک لمحہ تامّل کئے بغیر کہوں گا کہ ایک جامع و مستند ڈکشنری جو تمام عمر میری حیرت و محویت، دلبستگی اور سرشاری کا سامان اپنے اندر رکھتی ہے۔ کسی لفظ کے معنی کی تلاش میں جب ہم ڈکشنری کھنگالتے ہیں تو  اس لفظ سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے دلچسپ، رنگارنگ، کارآمد اور معجز نما الفاظ اور ان کے مشتقات سے شناسائی ہو جاتی ہے۔ جس نے نئے لفظ سے پہلی نظر میں پیار نہیں کیا، اُس نے ابھی پڑھنا نہیں سیکھا۔ جس نک چڑھے اور تند جبیں ادیب و شاعر نے نئے پرانے الفاظ سے پیار دُلار کا رشتہ نہیں رکھا، اُس پر شعر و ادب کی  muse اپنے بھید بھاؤ نہیں کھولتی۔ لفظ اُس نا محرمِ نکتۂ راز پر اپنی لذّتیں تمام نہیں کرتے۔

اکبری الٰہ آبادی کی عادت تھی کہ سونے سے کچھ دیر پہلے اپنے آپ سے سوال کرتے کہ آج میں نے کون سی نئی بات سیکھی؟ جواب اگر نفی میں ملتا تو ڈکشنری اٹھا کر کوئی نیا لفظ ، ہجّے اور معنی کے ساتھ یاد کر کے سو جاتے۔

سوچتا ہوں کیسی اچھی نیند آتی ہوگی انہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

  گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچی کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روایت ختم نہ

ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات

  ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات   بہت انتظار کے بعد ڈنکی فلم ریلیز ہو گئی۔ راج کمار ہیرانی کے پرستار بہت عرصے سے اس فلم کا انتظار کر رہے تھے۔ میری اس فلم کے انتظار کی دو وجوہات تھیں، راج کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور فلم کا غیر روایتی موضوع۔ یہاں شاہ رخ خان کا نام نہ لینے پر ان کے پرستار ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی باکس آفس پر کامیاب ترین مگر احمقانہ فلموں پٹھان اور جوان نے کم از کم میرے لئے خان کے جادو کو زائل کر دیا۔ ویسے تو شاہ رخ خان اور راج کمار ہیرانی کی جوڑی سے سب کو ایک شاہ کار کی امیدیں تھیں۔ لیکن بڑی توقعات اکثر بڑی ناکامیوں پر ہی منتج ہوتی ہیں۔   اس فلم کا موضوع بہت اچھا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کی کہانی بھی اچھی ہے۔ فلم کے پہلے حصے میں ہنستے کھیلتے جس طرح فلم کی کہانی بُنی گئی ہے وہ بہت دلکش ہے۔ فلم کے پہلے حصے کا اختتام ایک خود کشی پر ہوتا ہے جس میں ہدایت کار اور اداکار کی پرفارمنس عروج پر ہے۔ لیکن خود کشی کے فوراً بعد ساتھی کرداروں کی تقریریں اور سچویشن سراسر اوور ایکٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم کا دوسرا حصہ اگرچہ نسبتاً بوجھل ہے لیکن راج کمار ہیران

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقریب کے بعد اساتذہ کے