شامِ شعرِ یاراں سے انتخاب
لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کلیّتاً تَرک
نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نامطبوع ضرور ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ vocabulary یعنی زیرِ استعمال ذخیرۂ الفاظ تیزی سے سکڑتا
جا رہا ہے۔ لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والیے کی مبتدیانہ ادبی سطح کا تابع اور اس کی انتہائی محدود اور بس کام
چلاؤ لفظیات کا پابند کر لیا ہے۔ اس باہمی مجبوری کو سادگی وسلاستِ بیان، فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیا جاتا ہے! قاری کی سہل انگاری اور لفظیاتی کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دَور میں شرطِ
نگارش اور معیارِابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اب تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ پھلوں سے لدا درخت خود اپنی شاخِ ثمردار شائقین کے عین منہ تک
جھُکا دے! لیکن وہ کاہل خود کو بلند کر کے یا ہاتھ بڑھا کر پھل تک پہنچنے کی کوشش
ہرگز نہیں کرے گا۔ مجھے تو اندیشہ ستانے لگا ہے کہ کہیں یہ سلسلۂ
سلاست و سادگی، بالآخر تنگنائے اظہار اور
عجز بیان سے گزر کر، نِری language body یعنی اشاروں اور نِرت بھاؤ بتانے پر آکے نہ ٹھہرے! عزیزو، جو جئے گا وہ دیکھے گا کہ ادب کی ننگی muse نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا۔ ہمیں تو یہ دونوں
منظر دیکھنے کے لئے جینے کی آرزو بھی نہیں۔
غالبؔ، آزاؔد، سر سید احمد خاں، حالؔی، شبلیؔ، سرشار، غلام
رسول مہر، صلاح الدین احمد اور منٹو کی نثر کا آج کی تحریروں سے موازنہ کیجئے تو واضح
ہوگا کہ بیسیوں نہیں، سیکڑوں جاندار الفاظ کہ ہر لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم تھا، عدم
استعمال اور تساہلِ عالمانہ کے سبب متروکات کی لفظ خور کانِ نمک کا حصّہ بن گئے۔
اُن کی جگہ اُن مطالب و مفاہیم، اتنے
معنوی ابعاد، تہہ داریوں اور رسائیوں، ان جیسی نزاکتوں اور لطافتوں، ویسے رنگ و
نیرنگِ معانی، شکوہ و طنطنے کے حامل نادرہ
کار الفاظ نہ آنا تھے ، نہ آئے۔ اور آتے بھی کیسے، ہر لفظ انوکھا، یکتا، بےمثل و بےعدیل ہوتا ہے۔ دوسری نسل کے DNA
سے اس کی کلوننگ نہیں ہو سکتی۔ ہر لفظ ایک
عجیب و غریب، ہرابھرا، سدا بہار جزیرہ ہوتا ہے، جس کی اپنی آب و ہوا، اپنے موسم،
اپنی شفق اور دھنک، اپنی بجلیاں اور ان کے کڑکے، اپنی نباتات اور گلِ زمیں تلے اپنی
معدنیات ہوتی ہیں۔ اس کے اپنے کولمبس، اپنے کوہ و دشت پیما، سیّاح، سیلانی اور کان
کُن ہوتے ہیں۔ جب بےغوری، غفلت اور فراموش کاری کا بحیرۂ مردارکسی جزیرے کو نگل
جاتا ہے تو نہ کبھی اُس کا جنازہ اٹھتا ہے، نہ کہیں عُرس پر قوّالی یا دھمال ہوتی ہے۔ بحر کی تہہ سے اُس جیسا جزیرہ پھر نہیں اُبھرتا۔
جس طرح ہر فردِ بشر بالکل unique یعنی انیق اور بے مثیل و بے مثّنٰی ہوتا ہے۔ اور
اُس کا کوئی مماثل یا نعم البدل ہوا، نہ
ہوگا۔ اسی طرح صحیح معنوں میں لفظ کا کوئی
متبادل یا مترادف نہیں ہوتا۔ البتہ لفظوں کی برادری میں بھی عوضی کام کرنے والی
نفری، سوانگ بھرنے والے بہروپیے اور نقّال ضرور ہوتے ہیں! دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا۔ ان کی ہُنر مندی اور بہروپ سے ہم لطف اندوز تو
ضرور ہو سکتے ہیں، لیکن فریب کھانا آئینِ سخنوری و سُخن دانی میں حرام ہے۔
ایک زمانے میں فارغ التحصیل ہوے کے بعد ڈاکٹروں کو بقراطی
حلف Hippcratic Oath اٹھانا پڑتا تھا جس میں وہ عہد کرتے تھے کہ وہ مریض
کے رنگ و نسل و حیثیت سے قطع نظر اس کی جان بچانے کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں
گے۔ میرے خیال میں شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں
اور قلم کاروں کو بھی ایک باقاعدہ رسمِ حلف برداری میں کراماً کاتبین کو حاضر و
ناظر جان کر یہ عہد کرنا چاہئے: ”ہم اپنے قلم کی قسم کھا کر عہد کرتے ہیں کہ کسی
جاندار، کارآمد، اپنے مفہوم اور اُس کے اظہار پر پوری قدرت رکھنے والے اور گئی
رُتوں کی خوشبوؤں میں بسے لفظ کو آنکھوں دیکھتے محض اس جُرم کی پاداش میں مرنے
نہیں دیں گے کہ عدم استعمال کے باعث عام آدمی یا سہل انگار قاری اُس سے ناآشنا ہے۔
اور نہ کسی جیتے جیتے، ہنوز کاغذی پیرہن میں سانس لیتے ہوئے لفظ کو قدامت و
متروکات کے دشتِ خموشاں میں زندہ دفن ہونے دیں گے۔ ہم اس عہد سے پِھریں تو ربِّ
ذوالجلال لفظ کی تاثیر اور اس کا اعجاز ہم پر حرام کردے۔ ہم عہد کرتے ہیں۔“
اس کا اطلا ق ہر زبان کے قلم کاروں پر ہوتا ہے۔
لفظ کی جاں کنی اور
موت پریہ نوحہ کناں تمہید اس لیے باندھنی
پڑی کہ ڈکشنری لفظ کو حیاتِ نَو بخشنے، زندہ اور زیرِاستعمال رکھنے کی معتبر ضمانت
ہے۔ ہر اصطلاح اور ہر لفظ انسان کے علم و آگہی
اور احساس کی زمانی سرحد کی نشاندہی کرتا ہے۔ مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ
اگر تمہیں کسی غیر آباد، سنسان اور بے چراغ جزیرے میں خراب مزاح لکھنے کی پاداش
میں چھوڑ دیا جائے تو تم قرآن مجید کے علاوہ اور کون سی کتاب ساتھ لے جانا پسند کرو گے ؟ تو
میں ایک لمحہ تامّل کئے بغیر کہوں گا کہ ایک جامع و مستند ڈکشنری جو تمام عمر میری
حیرت و محویت، دلبستگی اور سرشاری کا سامان اپنے اندر رکھتی ہے۔ کسی لفظ کے معنی
کی تلاش میں جب ہم ڈکشنری کھنگالتے ہیں تو
اس لفظ سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے دلچسپ، رنگارنگ، کارآمد اور معجز نما
الفاظ اور ان کے مشتقات سے شناسائی ہو جاتی ہے۔ جس نے نئے لفظ سے پہلی نظر میں
پیار نہیں کیا، اُس نے ابھی پڑھنا نہیں سیکھا۔ جس نک چڑھے اور تند جبیں ادیب و
شاعر نے نئے پرانے الفاظ سے پیار دُلار کا رشتہ نہیں رکھا، اُس پر شعر و ادب کی muse اپنے بھید بھاؤ نہیں کھولتی۔ لفظ اُس نا
محرمِ نکتۂ راز پر اپنی لذّتیں تمام نہیں کرتے۔
اکبری الٰہ آبادی کی عادت تھی کہ سونے سے کچھ دیر پہلے اپنے
آپ سے سوال کرتے کہ آج میں نے کون سی نئی بات سیکھی؟ جواب اگر نفی میں ملتا تو
ڈکشنری اٹھا کر کوئی نیا لفظ ، ہجّے اور معنی کے ساتھ یاد کر کے سو جاتے۔
سوچتا ہوں کیسی اچھی نیند آتی ہوگی انہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment