Skip to main content

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

 

گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول

نیو کراچی


کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روایت ختم نہیں ہوئی۔ محترمہ رعنا لیاقت علی خان نے، جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا، پاکستان بننے کے بعد بھی فلاحی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1949 میں انہوں نے پورے پاکستان سے فلاحی کاموں میں سرگرم ایک سو خواتین کا اجلاس بلایا جس میں ایک غیر سیاسی اور فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی۔ جس کا نام تھا کُل پاکستان ادارہ خواتین (All Pakistan Women’s Association)  اور اس کا مخفف تھا APWA۔ اس ادارے کے تحت خواتین کے کئی ادارے قائم کئے گئے جن میں سے کچھ آج تک کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک ادارہ  بہت منفرد تھا  یعنی لڑکوں کے لئے قائم کردہ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول۔

بدقسمتی سے ہم تاریخ ضائع کرنے والی قوم ہیں۔ اس ہی لئے اس اسکول کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ یہ اسکول غالباً ؁1968 یا ؁1969 میں قائم ہوا۔ شروع میں یہ اپوا کے زیرِ انتظام رہا۔ ؁1972میں دوسرے اسکولوں[1] کی طرح اسے بھی قومیا[2] لیا گیا جس کے بعد یہ اسکول محکمہ تعلیم کے زیرِ انتظام چلتا رہا۔ ویسے ہی جیسے دوسرے ادارے چل رہے تھے یعنی لنگڑا لنگڑا کر۔  چند برس بعد اسکول کی قیادت ایک ایسے شخص کو سونپی گئی جس نے محدود وسائل کے باوجود اس اسکول کو کامیابی کا استعارہ بنا دیا۔

اسکول کا نقشہ

اس اسکول  کے کامیاب دور کی کہانی شروع کرنے سے پہلے اس کے جغرافیے اور عمارت کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ کیونکہ  بہت سی یادیں اس عمارت کے نقشے سے جڑی ہوئی ہیں۔  اور بہت سی کہانیاں اسے جانے بغیر سمجھ نہیں آئیں گی۔ اپوا اسکول شمالی کراچی کے سیکٹر 5-E کی کشادہ دو رویہ سڑک کے کنارے واقع ہے۔ چند برس پہلے اس کی پرانی، یک منزلہ عمارت گرا کر یہاں ایک سے زیادہ دو منزلہ عمارات بنائی گئی ہیں۔ جن میں کئی اسکول تعلیم کی سہولت مہیا کر رہے ہیں۔ اسکول کے بالکل پیچھے ایک سرکاری کھیل کا میدان ہے۔ جس کے برابر میں برسوں سے قائم جامع مسجد مومن، اہلِ ایمان کو اللہ کی عبادت کی دعوت دے رہی ہے۔ ایک زمانے میں اسکول کے اطراف میں یک منزلہ مکانات ہوتے تھے جس کی وجہ سے علاقہ کھلا کھلا لگتا تھا۔ لیکن اب چاروں طرف کثیر المنزلہ مکانات کی وجہ سے کشادگی کا احساس معدوم ہو گیا ہے۔ اب اس اسکول کے قریب ضلع وسطی کی آرٹس کونسل کی خوبصورت عمارت بن چکی ہے۔ قریب ہی یونین آفس میں ایک فلاحی معالجہ مرکز بھی کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے اطراف میں نجی اسکولوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ لہٰذا آج بھی یہاں طالبانِ علم کی ضروریات پورا کرنے کے لئے کافی وسائل موجود ہیں۔

اپوا اسکول سوا گیارہ ہزار گز سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی لمبائی 140 میٹرز اور چوڑائی 80 میٹرز ہے۔ پرانے اسکول کے ایک تہائی حصے میں عمارات بنی ہوئی تھیں۔ جبکہ دو تہائی حصہ بطور کھیلوں کا میدان استعمال ہوتا تھا۔ اسکول کے دو دروازے تھے۔ ایک شاہراہ کی طرف اور دوسرا اس کے عقب میں، مسجد کے سامنے۔ چوں کہ اسکول کی عمارت عقبی جانب بنی ہوئی تھی اس لئے پچھلا دروازہ ہی مرکزی دروازہ بن گیا۔ سڑک کی طرف کا دروازہ مستقل بند رہتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس پر زنگ لگ گیا اور اس کے سامنے مٹی کا ڈھیر جمع ہو گیا۔ یعنی اس کے استعمال  کا کوئی امکان نہ رہا۔  اسکول کے مرکزی دروازے سے داخل ہونے کے بعد ایک لمبا سا کاریڈور (غلام گردش) تھا  جس کے دوسرے سرے پر اسکول کا میدان شروع ہو جاتا تھا۔ کاریڈور کے دائیں اور بائیں طرف مختلف بلاکس بنے تھے۔ ان بلاکس کے کمروں کو مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جس کی تفصیل اگلے صفحے میں دی گئی ہے۔

اسکول میں بجلی کی سہولت تھی۔ لیکن کسی بھی جماعت میں پنکھے  یا بلب نہیں لگے تھے۔ بلب تو اس لئے نہیں لگے تھے کہ یہ صبح کا اسکول تھا ۔ صبح آٹھ بجے  اسکول لگتا اور  بیچ دوپہر ساڑھے بارہ بجے  اسکول کی

 

اسکول کی نئی عمارت پر چسپاں پرانے اسکول کا نقشہ

 

1.        مرکزی کاریڈور

2.        بلاک ۲

                     i.            خواتین اساتذہ کا کمرہ

                    ii.            مرد اساتذہ کا کمرہ

                   iii.            سائنس لیباریٹری

                   iv.            اس کے سامنے باغیچہ

3.        بلاک ۳

                     i.            پرنسپل اور کلرک کے کمرے

                    ii.            جماعت دہم کے کمرے

4.        بلاک ۴

                     i.            جماعت نہم کے کمرے

                    ii.            جماعت ہشتم کے کمرے

 

5.        بلاک ۵

                     i.            جماعت ہفتم کے کمرے

                    ii.            جماعت ہشتم کے کمرے

6.        بلاک ۶

                     i.            جماعت ششم کے کمرے

                    ii.            بزم ثقافت کا کمرہ

                   iii.            کھیلوں کا کمرہ

7.        اضافی جماعت

8.        سیمنٹ سے بنا بڑا سا چبوترا جسے اسٹیج کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا

 

چھٹی ہو جاتی۔ اب   سوال   یہ ہے کہ شدید گرمی کے موسم میں بھی جماعتوں میں پنکھے  کیوں نہیں لگے ہوتے؟ تو اس کا جواب ہمارے قومی کردار میں چھپا ہے۔ اگر وہ پنکھے چوکیداروں کے ہاتھ سے بچ  بھی جاتے تو بھی ہم سے اور ہمارے ہم جماعتوں سے نہ بچ پاتے۔ لمبے طلباء پنکھے کے پروں سے لٹک کر لطف اندوز ہوتے اور چھوٹے طلباء کو تنگ کرنے کے لئے انہیں پنکھے پر لٹکا دیا جاتا۔ نتیجہ یہ کہ ایک ہفتے سے زیادہ کوئی بھی پنکھا نہ چلتا۔  ویسے اساتذہ  اور عملے کے کمروں میں پیڈسٹل فین رکھے تھے۔ لیکن دن بھر اساتذہ کرام بھی مختلف جماعتوں میں بغیر پنکھوں کے تدریسی فرائض سر انجام دیتے نظر آتے۔   اسکول میں پانی کا کنکشن بھی تھا۔  بلاک۲ کے سامنے ایک  سیمنٹ کی ٹنکی بنی تھی۔ لیکن   اس میں پانی  کم ہی ہوتا۔  اس ٹنکی کے آگے  ایک پائپ لگا کر وضو گاہ بنائی گئی تھی۔ اگر اتفاق سے ٹنکی میں پانی ہوتا تو بچے وہاں سے پانی پی لیتے ۔ گرمیوں میں وہاں ایک ڈیکوریشن والی پانی کی ٹنکی رکھی ہوتی تھی جہاں پینے کا پانی  مل جاتا۔ کبھی کبھار مرد اساتذہ  اس ہی پانی سے منہ دھوتے بھی نظر آ جاتے۔ 

مرکزی کاریڈور کے اختتام پر ٹوائلٹ بھی بنے تھے۔ لیکن وہ ہمیشہ ہی ویران رہتے۔ میری تو  کبھی ہمت  نہ ہوئی کہ اس کی حالتِ زار دیکھ سکوں۔ اس لئے  مجھے نہیں پتہ کہ وہ کبھی قابلِ استعمال تھے یا نہیں۔  اسکول کے بلاک ۴ کے پیچھے، کاریڈور کے ساتھ ایک چھوٹی سی ، 3 فیٹ اونچی دیوار بنی تھی جس کے پیچھے سرکاری نل لگا تھا۔ وہ اچھے زمانے تھے  کہ اس  میں تقریباً روزانہ پانی آیا کرتا تھا۔   لیکن قومی کردار کا مسئلہ وہاں بھی  تھا۔ اس زمانے میں پیتل کی ٹونٹیاں آیا کرتی تھیں۔ اسکول انتظامیہ وقتاً فوقتاً اس نل کی ٹونٹی بدلواتی رہتی۔  لیکن چند ہی دن میں ہمارے  ’بہترین‘ استعمال کے بعد اس کا واشر خراب ہو جاتا اور اس میں سے مستقل پانی رِستا رہتا۔ اور مزید چند دن بعد وہ ٹونٹی غائب ہو چکی ہوتی۔  اب جتنے دن وہ ٹونٹی نہیں لگتی،  بلاک ۴  کے پیچھے پانی بہتا رہتا۔ اس  ہی وجہ سے وہاں خود رَو سبزہ بھی اُگ آیا تھا۔  اس جگہ سے  میری ایک یاد وابستہ ہے۔ میری والدہ اپوا اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ میں ان ہی کے ساتھ اسکول آتا اور واپس جاتا۔ دوپہر کو اسکول کی چھٹی کے بعد جب اساتذہ   اسکول کے کام نمٹا رہتے ہوتے  تو میں اس نل کے پاس جا کر بیٹھ جاتا۔ اب  چاہے اسے میری حماقت کہئے کہ بھری دوپہر میں، جب پورا اسکول خالی ہوتا، تو میں وہاں بیٹھ کر صرف پانی بہنے کی آواز سنتا رہتا۔ آج بھی کسی نہر، کسی آہستہ خرام ندی یا سست رو جھرنے کی آواز مجھے مبہوت کر دیتی ہے۔ میرے لئے اب بھی گرتے، چلتے پانی کی سرسراہٹ سے زیادہ پرسکون کوئی آواز، کوئی موسیقی نہیں۔

اپوا اسکول کی عمارت کے بارے میں میرا  ایک ہی تاثر  ہے وسعت، کشادگی۔ سرکاری اسکول ہونے کی وجہ سے اس میں سہولیات کی کمیابی تھی۔ لیکن اس کی سب سے بڑی خوبی اس کا کھلا پن تھا۔ ہر جماعت کا  وسیع و کشادہ کمرہ۔ اگر جماعت چالیس بچے بھی ہوتے تو ان کے لئے بنچ لگنے کے بعد بھی کمرے میں اتنی جگہ ہوتی کہ طلباء سے مناسب فاصلے پر اساتذہ کے لئے بڑی سی میز  رکھی جا سکتی تھی۔  ہر کمرے میں بڑے تختہ سیاہ تھے تاکہ اساتذہ  سہولت سے اپنے مضامین کی تشریح کر سکیں۔ ہر کمرہ کے دو اطراف میں بڑی بڑی کھڑکیاں جن میں اگر چوکھٹ لگی ہوتی تو  کواڑ ندارد۔ آخری بلاک کے کمروں کے باہر کی طرف والی کھڑکیوں میں سیمنٹ کی جالیا ں لگی تھیں لہٰذا چوکھٹ اور کھڑکی کے کواڑوں  کا مسئلہ ہی ختم۔  اگر میری یاد داشت صحیح ساتھ دے رہی ہے تو جن جماعتوں میں دروازوں کی چوکھٹیں تھیں وہاں بھی کواڑ غائب تھے۔ بلاک ۶ میں جماعت ششم کے لئے تو کھڑکی اور دروازوں کا تکلف ہی نہیں کیا گیا تھا۔ تین طرف  دیواریں بنا کر چوتھی طرف آدھے کمرے کے برابر لمبی ، چھہ فیٹ اونچی دیواریں بنا دی گئیں تھیں۔ یعنی ہمہ وقت اوپن ائیر۔ البتہ  جن کمروں میں قیمتی سامان یا سرکاری ریکارڈ ہوتا وہاں باقاعدہ کھڑکیاں اور دروازے تھے۔ مثلاً پرنسپل کے دفتر، سائنس لیب، اساتذہ کے کمرے وغیرہ۔ اس کے علاوہ کھیلوں اور بزم ثقافت کے کمروں کو بھی مقفل کرنے کا انتظام تھا۔  

مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی، بائیں ہاتھ کی طرف، بلاک ۳ کے سامنے خاصا بڑا میدان تھا جس میں سیمنٹ کا فرش بنا تھا۔ اس کے آخر ی سرے پر  دو فیٹ اونچا  چبوترا بنا تھا جو اسکول کے پروگراموں میں اسٹیج کے طور پر بھی استعمال ہوتا۔ یہ چبوترا اتنا بڑا تھا کہ اسکول کے تمام اساتذہ کے بیٹھنے کا انتظام کرنے کے بعد بھی طلبا ء کے ایکٹ کے لئے بہت جگہ بچ جاتی۔ یومِ آزادی کے پروگرام عموماً اس ہی اسٹیج پر ہوتے ۔کیونکہ  وہ پروگرام صبح دس بجے تک ختم ہو جاتا اور اس میں شامیانے لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ جن پروگراموں میں شامیانے لگتے، وہ اکثر اسٹیج کے نیچے والے فرش پر کئے جاتے۔ اور ان کا اسٹیج بلاک ۳ کے سامنے بنتا۔   


 

ہمارے اساتذہ

میرِ کارواں  جناب حافظ علی خان شیروانی

جب ہم نے  اپوا اسکول میں داخلہ لیا تو اس کے صدر مدرس تھے  محترم حافظ علی خان شیروانی صاحب۔ وہ اپنے پورے نام کے بجائے ایچ۔ اے۔ خان شیروانی کے نام سے زیادہ مشہور تھے اور عموماً شیروانی صاحب کے نام سے پکارے جاتے۔ شیروانی صاحب پارس تھے۔ جو ان کے ساتھ رہا سونا بن  گیا سوائے ان مٹی کے مادھوؤں کے جن میں سونا بننے لائق پیتل بھی نہ تھا۔ وہ انتہائی وجیہہ انسان تھے۔   علی گڑھ یونیورسٹی  کے تعلیم یافتہ۔ ان کی گفتگو میں چھلکتی ذہانت، انداز میں پُر وقار متانت، اطوار میں ہویدا ثقاہت، گویا انگریزی محاورے کے مطابق True gentleman  کی جیتی جاگتی مثال تھے ۔  ان کی زندگی کے ہر پہلو پر علی گڑھ یونیورسٹی کی شائستگی کی چھاپ نمایاں تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ شائستہ  اور شستہ مزاح  کرنے والا شخص نہیں دیکھا۔  وہ بچوں سے باتیں کر رہے ہوں یا بڑوں سے، طلباء سے مخاطب ہوں یا اساتذہ سے ، ان کے لہجے کی شفقت بڑے سے بڑے مسئلے کو چھوٹا بنا دیتی اور ان کے بَرمحل ، شائستہ فقرے  ماحول کی گمبھیرتا کو ہوا میں اڑا دیتے۔

شیروانی صاحب سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب ان کی ریٹائرمنٹ میں چند ہی برس باقی رہ گئے تھے۔  ان کا سراپا آج بھی دل پہ نقش ہے۔ ساڑھے پانچ فیٹ سے زیادہ قد۔ ویسے   وزن کے حساب سے شاید ساڑھے چھہ فیٹ ہونا چاہئے تھا۔  گدرے ہاتھ پَیر جو چہرے پہ برستی شفقت کو پورے جسم پر مساوی تقسیم کر دیتے۔ سفید ہوتے بال جو  کشادہ پیشانی کو جگہ دیتے ہوئے بہت پیچھے تک چلے گئے ۔ گورا رنگ جو گرمیوں کی شدت میں گال سرخ ہو جانے پر زیادہ دل کش لگتا۔ آنکھیں گویا قیامت تھیں۔ ان شرارتی آنکھوں  سے چھلکتی مسکراہٹ  سے عیاں تھا کہ انہوں نے زندگی گزاری نہیں بلکہ دل بھر کے جی ہے۔ اور یہی بات ان  کی شخصیت  میں بھی جھلکتی تھی۔ ایک ترسا ہوا انسان کسی کو خوش  ہوتے ، آگے بڑھتے نہیں دیکھ سکتا۔ اور شیروانی صاحب کی زندگی کا تو ایک ہی مقصد تھا۔ دوسروں کے ہنر کھوجنا، انہیں بڑھاوا  دینا اور انہیں کامیابی کے رستوں کا راہی بنانا۔ وہ بادشاہ بھی تھے اور بادشاہ گر بھی۔

ایک  فارسی محاورہ ہے ’ کُنَد ہَم جِنْس باہَم جِنْس پَرواز، کَبُوتر با کَبُوتر باز با باز ‘۔  اس کا مطلب ہے کہ ہر پرندے کا الگ  جہاں ہوتا ہے۔ کبوتر صرف کبوتروں کے ساتھ ہی اڑ تا ہے۔ اور شہباز دوسرے بازوں کے ساتھ۔  شیروانی صاحب ایک ہمہ جہت  (well-rounded)شخصیت تھے۔  اس ہی لئے آدھے ادھورے لوگ ان کے قریب نہیں رہ  پاتے تھے۔  ان کی پرواز  بلند آسمانوں میں تھی۔ وہ   اس علی گڑھ یونیورسٹی کے تربیت یافتہ تھے جس کی تہذیب کی مثال ہم   پاکستان میں پیدا نہ کر سکے۔ اس  زمانے میں جب مسلمانوں میں تعلیم کا تناسب بہت کم تھا (بدقسمتی سے آج بھی شرم ناک حد تک کم ہے) وہ سائنس  گریجویٹ تھے۔ مگر سائنس کی تعلیم ان کے تخیل کے سوتوں کو خشک  نہیں کر سکی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی  تعلیم و تہذیب نے انہیں  ادب  کا اعلیٰ ذوق عطا کیا اور سوچ میں وسعت بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ  اپوا اسکول میں  اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے اساتذہ  ہی ان کے قریب تھے۔ ان  کے قریبی اساتذہ میں چند خوبیاں مشترک تھیں۔ یعنی اپنے مضمون پر عبور کی کوشش،  طلباء تک علم پہنچانے کی جستجو، وسعتِ فکر،   اور بے لوث خدمت یعنی پیسوں اور تعریف  سے بے نیاز ہو کر طلباء کی صلاحیتوں کو نکھارنا۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایک کم زور منتظم ہیں۔ اسکول کے کچھ اساتذہ  صبح دیر سے آتے۔ وقفے میں اپنے کاروبار دیکھنے کے لئے نکل جاتے اور اکثر دیر سے واپس آتے۔ وہ کوشش کرتے کہ انہیں صبح پہلا پیریڈ اور وقفے کے بعد پہلا پیریڈ نہ پڑھانا پڑے۔ ایسا بھی ہوتا کہ اگر ان اساتذہ کے آخری پیریڈ نہ ہوتے تو وہ  اسکول سے جلد نکل جاتے۔ شیروانی صاحب ان سب باتوں سے واقف تھے۔ وہ انہیں شائستگی سے سمجھاتے۔ ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتے اور انہیں ان کے مقام سے آگاہ کرتے ۔   مگر اپنی نفاستِ طبع کی بنا ء پر انہیں ڈانٹنے یا ان کے خلاف  کاروائی سے گریز کرتے۔ صدر مدرسین عموماً اپنی مصروفیات کی وجہ سے  پڑھانے کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔ لیکن شاید ان استادوں کے اعمال کے نقصانات کو معدوم کرنے کے لئے وہ بڑی جماعتوں  میں خالی پیریڈ لے لیا کرتے تھے۔ جب پڑھانے پر آتے تو  لگاتار دو، دو پیریڈز  پڑھاتے چلے جاتے۔ سچ پوچھیں تو وہ طلباء خوش نصیب تھے جو ان سے زندگی کے سبق پڑھ گئے۔ شیروانی صاحب اکیلے تو  تمام خالی پیریڈ نہیں لے سکتے تھے۔ اس لئے ان کے قریب رہنے والے اساتذہ  کو  بھی اضافی پیریڈ لینا پڑتے۔ جب کبھی وہ اساتذہ شکایت کرتے تو شیروانی صاحب اپنی شفیق مسکراہٹ کے ساتھ انہیں تسلیاں دیتے اور اضافی کام کرنے پر آمادہ کر لیتے۔ لیکن طلباء  کی تعلیم کا حرج نہیں ہونے دیتے۔  ان سب باتوں کے باوجود وہ کمزور منتظم نہیں تھے۔ سرکاری اسکول کے محدود ترین بجٹ میں انہوں نے  طلباء کو جس اعلیٰ معیار کی ہم نصابی سرگرمیاں مہیا کیں وہ سرکاری اسکول تو چھوڑیں،  بھاری فیسیں لینے والے نجی اسکول بھی نہیں سوچ نہیں سکتے۔  وہ  مثبت سوچ کے حامل انسان تھے۔ ان کی نظر رکاوٹوں پر نہیں بلکہ اعلیٰ معیار کے حصول پر رہتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ  منفی باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کے راستے نکال لیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کرتے تھے بلکہ ایک ایسا ماحول بناتے جس میں سب لوگ  ہم آہنگ ہو کر منزل کی جانب رواں دواں رہیں۔

شیروانی صاحب صاحبِ علم  بھی تھے اور صاحبِ بصیرت بھی ۔ وہ تعلیم کو ایک  با شعور انسان کی تشکیل کا ذریعہ سمجھتے تھے اور با شعور انسان کو ایک متمدن معاشرے کی بنیاد۔ اپنے کئی ہم عصروں کے برعکس  وہ ادھوری تعلیم  کے قائل نہ تھے۔ کچھ اساتذہ نصاب کو بہترین طریقے سے طلباء کے ذہنوں میں انڈیلنے، اور ان کی امتحانات میں اعلیٰ درجے کی کامیابی کو  منزل سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن شیروانی صاحب کی تخیل پرواز اس سے کہیں بلند تھی۔ ان کا مقصد سند یافتہ مگر اوسط درجے کے اذہان تیار کرنے کے بجائے بہتر انسانوں کی تشکیل تھا۔ وہ آج سے ۴۵ سال پہلے بھی جدید تعلیم کے تقاضوں کو سمجھتے تھے۔ وہ   اپنے علمی تفضل کو دوسروں پر ٹھونستے نہ تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید تعلیمی رجحانات اور اپنے وطن کی آنے والی ضرورتوں کا بخوبی ادراک رکھتے تھے۔  اور یہ شعر تو گویا ان ہی کے لئے کہا گیا ہو۔

کہہ  رہا  ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے وہ اس قدر خاموش ہے

علم کی گہرائی اور گیرائی نے ان کے طبیعت میں حلم اور بردباری پیدا کر دی تھی۔ اس ہی لئے انہوں نے نرمی اور محبت سے اپنے اسکول میں ہم نصابی سرگرمیوں کو ایسے ہی فروغ دیا  جیسے نصابی سرگرمیوں کو۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ نصاب فرسودہ ہو جاتے ہیں، کتابی نظریات بدل جاتے ہیں، اور ٹیکنالوجیز معدوم ہو جاتی ہیں۔ لیکن ہم نصابی سرگرمیوں میں سیکھے گئے سبق آخری سانس تک ساتھ دیتے ہیں۔  نصاب ہنر سکھاتے ہیں۔ ہم نصابی سرگرمیاں شخصیت بناتی ہیں، حالات سے لڑنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں، مقابلہ کرنا  بھی سکھاتی ہیں اور تعاون کرنا بھی، اصولوں پر ڈٹ جانے کا حوصلہ بھی دیتی ہیں اور دلیل کے آگے سر جھکا نے کی تربیت بھی، دوستوں سے گفتگو کا سلیقہ بھی سکھاتی ہیں اور دشمنوں کا دل موہ لینے کا جادو بھی ۔  اور ’جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مَردوں کی شمشیریں‘۔ یہی وجہ تھی کہ شیروانی صاحب نے اپنے اسکول میں ہم نصابی سرگرمیوں کی کہکشاں بچھا دی۔ کون سے پروگرامز تھے جو اس اسکول میں نہ ہوتے تھے۔ دینی، قومی، ادبی، ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیاں پورے سال جاری رہتیں۔ اتنے برس بعد پلٹ کر دیکھنے پر احساس ہوتا ہے کہ ہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں طلباء عملی زندگی میں بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔ جن طلباء کے نام ان یاد داشتوں میں آئے ہیں ان میں سے بیشتر بڑے بڑے  پاکستانی اور بین الاقوامی  اداروں میں اعلیٰ عہدوں  پر فائز ہیں۔  اور وہاں بھی انہوں نے مثبت رویّوں کا پرچار کیا جو وہ اپوا اسکول سے سیکھ کر آئے تھے۔

شیروانی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن چھٹی کے بعد شیروانی صاحب اپنے دفتر میں کوئی فہرست مرتب کر رہے تھے۔ میری والدہ  محترمہ بلقیس  کچھ اور اساتذہ کے ساتھ ان کی مدد کر رہی تھیں۔ میں بھی ایک طرف بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اساتذہ  اپنی فہرست سے ایک رول نمبر پکارتے اور شیروانی صاحب اس نمبر کو اپنی فہرست سے ملاتے۔  جب تک وہ نمبر دوسری فہرست میں نہ ملے شیروانی صاحب وہ نمبر  زبانی دہراتے رہتے اور ڈھونڈتے رہتے۔ تھوڑی دیر بعد اچانک کچھ خیال آیا۔ چشمہ اتار کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ  انہیں کیا ہو گیا ہے  یہ نمبر کیوں دہرائے جا رہے ہیں؟ میرا تو خیر ذکر ہی کیا ہے اساتذہ تک گھبرا کر کہنے لگے نہیں سر ایسی کوئی بات نہیں۔ لیکن شیروانی صاحب نے واضح کیا کہ انسان کی دو طرح کی یاد داشت ہوتی ہے۔  ان میں سے ایک فوری یاد داشت (short term memory)   ہے جو محض چند لمحوں کی ہوتی ہے۔ اگر یہ نمبر دہرائے نہ جاتے رہے تو یاد داشت سے فوراً محو ہو جائیں گے۔ ایک لطیف واقعے کو مثال بنا کر انہوں نے سائنس کا اتنا بڑا سبق پڑھا دیا جو مجھے ۴۴ برس بعد بھی یاد ہے۔ آپ بھی گوگل پر short term memory ڈھونڈیں۔ اس کی دو جملوں کی وہی  تعریف  ملے گی جو شیروانی صاحب نے بتائی تھی۔

اپنے ظاہری سراپے کے برعکس شیروانی صاحب بہت غیر روایتی سوچ کے حامل تھے۔ وہ اپنے طلباء اور رفقاء کے ایسے مسائل کا فہم بھی رکھتے تھے جن کا انہیں  خود بھی ادراک نہ ہوتا۔ وہ نہ صرف بچوں کی نفسیات کو سمجھتے بلکہ ان کی باتوں سے ایسا لگتا کہ وہ اس مضمون پر جدید رجحانات سے بھی واقف ہیں۔ اس ہی لئے وہ بچوں کے بہت سے مسائل در آنے سے پہلے ہی حل کردیتے۔ میں نے ۱۳سال کی عمر میں میٹرک کر لیا تھا۔ وہ اس بات کو جانتے تھے۔ ایک دن میں اپنی والدہ کے ساتھ ان کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ وہ مجھ سے ایک فلم کے بارے میں  پوچھنے لگے ۔ میرے اشتیاق کو دیکھ کر میری والدہ سے کہنے لگے کہ بھئی آپ انہیں سینما  دیکھنے بھیجیں۔ میری والدہ کے پس و پیش پر انہیں کچھ سمجھانے لگے۔  افسوس کہ کم عمری کی وجہ سے میں ان کی باتیں سننے کے بجائے خوشی میں فلم دیکھنے کے پروگرام بنانے لگا۔  بہرحال میری والدہ نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور ان کے مشورے پر مجھے انگریزی فلم ’کنگ کانگ‘ دکھانے بھیج دیا۔ لیکن اب  ان کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ میں بہت کم عمر میں کالج جانے والا ہوں۔ وہاں بڑے لڑکوں کی صحبت میں چوری چھپے یا  والدین سے بغاوت کر کے سینما جانے کی کوشش کروں گا۔ جو کہ زیادہ برائی کا باعث بنے گا۔ لہٰذا انہوں نے  سینیما کے بارے میں میرے  غیر ضروری ہیجان اور غیر حقیقی تصورات کو پہلے ہی  ختم کر دیا۔ شیروانی صاحب کا شکریہ کہ ان کی فراست کی وجہ سے ایک اور شاگرد، ایک اور برائی سے محفوظ ہو سکا۔

شیروانی صاحب چھوٹی  چھوٹی باتوں سے مزاح پیدا کرتے تھے۔ لیکن اس میں بھی اخلاق سبق اور تربیت کے گُر موجود ہوتے۔ ایک دن میں اور میری چھوٹی بہن ان کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے  سب کے لئے ٹھنڈی کولا منگوائی۔ میری والدہ نے ہم سے کہا کہ دفتر کے دوسرے حصے میں (جہاں کلرک بیٹھتے تھے)  بیٹھ کر مشروب ختم کر لیں۔ شیروانی صاحب نے فوراً کہا کہ یہ کیا؟ بھئی ہم نے تو بوتلیں اس لئے منگوائی تھیں کہ انہیں بوتل پی کر ڈکار لیتا دیکھ سکیں۔ وہاں موجود سب لوگوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اب ہم  چوکنے ہو گئے۔ آہستہ آہستہ سلیقے سے بوتل پینے لگے۔ کوشش کی کہ مشروب ختم ہونے پر نلکی (straw)  سے آواز نہ نکلے۔ اگر ڈکار لی بھی ہوگی تو بہت غیر محسوس طریقے سے۔ شیروانی صاحب کے ایک جملے نے سوڈا مشروبات پینے کا سلیقہ سکھا دیا۔

شیروانی صاحب کے مزاح میں  ادب کی چاشنی ہوتی۔ ساتھی اساتذہ، محترمہ شمیمہ عندلیب کے صاحبزادے کی دنیا میں آمد کی خبر دینے ان کے دفتر پہنچے۔ سب تذبذب کا شکار تھے کہ کیسے بتایا جائے۔ شیروانی صاحب بھانپ گئے اور محترمہ کے شاعرانہ  ذوق کے  پس منظر میں برجستہ سوال کیا کہ بتائیے قطعہ ہوا ہے یا قطعی؟  اب کون اس ادبی فقرے سے محظوظ نہ ہوا ہوگا؟ اس  واقعے کی تفصیل محترمہ شمیمہ عندلیب نے بہت دلچسپ انداز سے اپنے مضمون میں بیان کی ہے۔

شیروانی صاحب سچ مچ کے درویش تھے۔


 

جلسہ عید میلاد النبی ﷺ

اسکول کا سب سے بڑا پروگرام  جلسہ عید میلاد النبی ﷺ ہوتا تھا۔ ویسے تو ہر اسکول میں عید میلاد النبی محبت اور جذبے سے منایا جاتا ہے۔ لیکن اپوا اسکول میں برتا جانے والا والہانہ پن  اور عقیدت  کا منظر قابلِ دید ہوتا۔ ایک عرصے پہلے ہی جلسے کی تیاری شروع ہو جاتی۔ ویسے تو ہمارے قابل اساتذہ اپنے طلباء کی صلاحیتوں پر پورے سال ہی نظر رکھتے اور انہیں جلسے کے لئے پہلے ہی منتخب کر لیتے۔ لیکن جلسے سے پہلے بقیہ طلباء کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی کہ وہ بھی بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیں۔ اس طرح ہر با صلاحیت طالب علم کو اس جلسے میں حصہ لینے کا پورا موقع دیا جاتا۔

ویسے تو جلسہ عید میلاد النبی،  قاری حبیب اللہ صاحب کی زیرِ نگرانی، بزمِ فروغ اسلامیات کے تحت ہوتا لیکن بقیہ اساتذہ بھی اس میں پورے  جذبے سے حصہ لیتے۔ اس کے مختلف حصوں کی ذمہ داری اٹھا لیتے اور یک جان ہو کر  اس کی شایانِ شان تیاریاں کرتے۔ ایک طرف منتخب طلباء کو سیرت النبی پر تقاریر لکھنے کی دعوت دی جاتی۔ پھر تجربہ کار اساتذہ مثلاً قاری صاحب، محترمہ بلقیس صاحبہ، محترمہ شمیمہ عندلیبؔ صاحبہ وغیرہ ان تقاریر کی اصلاح کرتیں۔  دوسری طرف  محترمہ فردوس صاحبہ، محترمہ شہناز صاحبہ نعت خواں بچوں کو سلیقے اور ادب سے نعت پڑھنے کی مشق کرواتیں۔ جلسے کی نظامت ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی۔ منتخب اساتذہ اس کی بڑی تیاری کرتے، بہت مشق کرتے۔ مجھے جلسے کی نظامت کے حوالے سے قاری صاحب، محترمہ شمیمہ عندلیب اور محترمہ فردوس کے نام یاد آ رہے ہیں۔ جلسے کے انتظامی امور کی ذمہ داری وقار صاحب اور خلیل صاحب  اٹھا لیتے۔ وہ اپنے اسکاؤٹس اور سرگرم طلباء کی مدد سے جلسے میں شامیانہ، اسٹیج، ساؤنڈ سسٹم، طلباء اور والدین کے بیٹھنے کی جگہ، جلسے کے بعد شیرینی کی تقسیم، اور مہمانِ خصوصی و اساتذہ کے لئے چائے  کا بہترین انتظام کرتے۔

 

اپوا اسکول کے حوصلہ افزا ماحول میں کیسے کیسے با صلاحیت طلباء سامنے آئے۔ تحسین احمد منظر، احمد نواز، سرور ندیم، مکرم احمد، اور مناظر صدیقی۔ یہ سب انتہائی با صلاحیت  اور محنتی طلبا تھے۔ بہت محنت سے تقاریر لکھتے، تیاری کرتے اور جب  اسٹیج پر پہنچتے تو فنِ خطابت سے  حاضرین کو مسحور کر لیتے۔ لیکن یہ سب جلسہ عید میلاد النبی میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے اور عام جلسے میں تقریر کرنے کا فرق بخوبی جانتے تھے۔ یہ سب ڈائس پر کھڑے ہو کر انتہائی سلیقے اور ادب سے مدحتِ رسول کرتے ، اور ساتھی طلباء کو نبی پاک ﷺ کے زندگی کے خوبصورت پہلوؤں سے روشناس کراتے۔

اس ہی طرح خوش الحان نعت خوانوں کی ایک قطار تھی جیسے خوبصورت موتیوں کی لڑی۔ پہلے ندیم تھے۔ پھر جاوید، پھر رئیس اور تبسم۔ کیسی خوبصورت آوازیں تھیں۔ کس قدر محنت سے نعتوں کی طرز یاد کرتے۔ پھر بار بار مشق کرتے۔ اور جب جلسے میں نعت پڑھتے تو سماں باندھ دیتے۔  نبی ﷺ کی محبت میں سرشار اساتذہ  کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ ان کے دل مدینے کی زیارت کو تڑپ اٹھتے اور بے ساختہ درِ رسول ﷺ پہ حاضری کی دعا ہونٹوں پر مچلنے  لگتی۔ اپوا اسکول کے نعت خواں پوری کراچی میں مشہور ہوئے۔ نعت خواں ندیم اور جاوید تو باقاعدگی سے آرام باغ، کراچی کی مسجد میں نعت خوانی  کرتے جہاں اس زمانے  کے مشہور ترین نعت خواں مدحتِ رسول کرتے تھے۔ ندیم اور جاوید کے اسکول سے جانے کے بعد رئیس نے اپنی خوبصورت آواز کی بدولت اسکول کے مرکزی نعت خواں کی حیثیت حاصل کر لی۔

اس جلسے میں قاری حبیب اللہ صاحب بھی تقریر کرتے تھے۔ ان کی تقریر میں ایک ایک لفظ گویا موتی کی طرح پِرویا ہوا ہوتا۔  قاری صاحب، مسجدِ فاروقِ اعظم، سیکٹر 5-D کے خطیب اور مشہور عالم دین تھے۔  سیرتِ رسولﷺ  پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کی تقریر طلباء کے لئے معلومات کا خزانہ  ہوتی  جس کا ایک بھی لفظ ضائع کرنے کی گنجائش نہ ہوتی۔

اس جلسے میں مہمانِ خصوصی کے علاوہ شیروانی صاحب بھی فی البدیہہ تقریر کرتے تھے۔ ان کی تقریر کا لب لباب عشقِ رسول ﷺ  ہوتا۔ جلسے کے آخر میں قاری صاحب پُرسوز دعا کرواتے اور  درود و سلام  کے ساتھ محفل  اپنے اختتام پر پہنچتی۔ جلسے کے بعد طلباء  شیرینی وصول کر کے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ اساتذہ اور مہمانِ خصوصی کو پر تکلف چائے پیش کی جاتی۔ اس کے بعد اساتذہ بھی گھروں کی طرف روانہ ہونے لگتے۔ لیکن وقار صاحب اور خلیل صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ جلسے کے تمام سامان  کا انتظام کرنے کے بعد ہی گھر جاتے۔ شیروانی صاحب، وہ تو افسر تھے ہی نہیں وہ تو لیڈر تھے۔ لہٰذا سب سے آخر میں جانے والوں کے ساتھ نکلا کرتے تاکہ ان کی ٹیم کا کوئی فرد اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھے۔  جب ہم اپوا اسکول میں پڑھتے تھے تو ہمیں اندازہ ہی نہ ہوتا تھا کہ اتنے بڑے جلسے کو کامیاب بنانے میں اساتذہ کتنے جتن کرتے ہیں، جلدی اسکول آتے ہیں، دیر سے گھر جاتے ہیں۔ لیکن اب ان باتوں کا احساس ہوتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے شکر گزاری کے الفاظ نکلتے ہیں۔

محترمہ شمیمہ عندلیب نے اپنے انتہائی خوبصورت مضمون میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلسے کی روداد لکھی ہے جس میں اساتذہ کے جذبے اور حسنِ انتظام کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ یہ  داستان اگلے باب میں آئے گی۔

یہ جلسے کس طرح طلباء کی شخصیت سازی کرتے اسے واضح کرنے کے لئے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ اپنے اسکول کے نام ور اور خوش گلو نعت خوانوں کو دیکھ کر مجھے بھی شوق ہوا کہ عید میلاد النبی ﷺ پر نعت پڑھی جائے۔ چونکہ یہ مقابلہ نعت خوانی نہیں تھا لہٰذا ہر طالب علم کی خواہش پر اسے موقع  دے دیا جاتا ۔ اس ہی وجہ سے مجھے خوش گلو نہ ہونے کے باوجود بھی موقع مل گیا۔  میں نے نعت کی تیاری کی۔ لیکن کہاں  اپوا اسکول کے نام ور نعت خواں اور کہاں میں۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ کر ہی لیا۔ جلسے والے دن ایک پرانے مگر نوجوان   طالب علم تنویر احمد بھی آئے ہوئے تھے جو اپنی خوبصورت آواز کی وجہ سے اسکول میں مشہور تھے۔ میرے اساتذہ نے مجھے ان کے  حوالے کر دیا  کہ شاید  وہ میری بہتر مشق کروا سکیں۔ اب  یہاں صلاحیت اور تجربے کا فرق واضح ہوتا ہے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ میں نعت کی حسبِ توقع ادائیگی نہیں کر پا رہا تو انہوں نے جلسے سے کچھ دیر پہلے مجھے ایک نئی نعت کی تیاری کروا دی۔ انگریزی میں ایک محاورہ ہے جس کا مطلب  ہوتا ہے  کہ آخری لمحات میں تبدیلی، تباہی کی ضمانت ہوتی ہے۔ تو وہی ہوا۔ میری باری آئی۔ اسٹیج پر پہنچ کر نعت پڑھنا شروع کی۔ اب نئی طرز سنبھالنا  تو مشکل تھا ہی اس کے علاوہ نعت کے الفاظ بھی کچھ ہی دیر پہلے یاد کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جگہ الفاظ آگے پیچھے کر دئیے اور گڑبڑا کر ایک ہی مصرع دوبارہ پڑھنا پڑا۔ اتنے خوبصورت جلسے میں یہ ایک ’disaster moment‘ تھا۔ میری والدہ  محترمہ بلقیس قریشی سُن ہو کر رہ گئیں۔ شیروانی صاحب کے پروگرام میں اتنی بڑی گڑبڑ۔ محترمہ شمیمہ عندلیب، محترمہ فردوس دونوں حیران کہ یہ کیا ہوگیا اور اسے کیسے سنبھالا جائے؟ لیکن شیروانی صاحب؟ ان کی  شفیق آواز آئی سبحان اللہ‘۔  میں جو اس وقت بالکل اسٹیج چھوڑنے کے قریب تھا شیروانی صاحب کی آواز سن کر سنبھلا اور نعت مکمل کر کے واپس آ گیا۔  جب واپس آنے لگا تو بھی شیروانی صاحب نے حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے طلباء کی  بھی ایسی  تربیت کی تھی کہ غلطی کرنے کے بعد میں نے سامنے دیکھا کہ اب سب لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ مگر حیرت انگیز طور پر مجھے کسی بھی طرح کی ہوٹنگ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اس کے باوجود بھی وہ تجربہ اس قدر خوف ناک تھا کہ اگلے کئی برسوں تک وہ نعت  اکیلے میں بھی سنتا تو  شرمندگی سے دل ڈوبنے لگتا۔ لیکن جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ ہم نصابی سرگرمیاں  شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔ گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ دیتی ہیں اور آگے بڑھنے کی لگن بجھنے نہیں دیتیں۔ شیروانی صاحب کی بر وقت حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں  نے اسکول میں ہی اسٹیج پر بیٹھ کر مشاعرہ بھی پڑھا، بیت بازی میں بھی حصہ لیا اور شیروانی صاحب سے تحسین بھی وصول کی۔ ان کے اس عمل نے مجھے زندگی بھر کے اسٹیج کے خوف سے بچا لیا۔ آج بھی جب مجمعے کے سامنے بولتا ہوں تو دل سے شیروانی صاحب  کے لئے دعائے خیر نکلتی ہے۔

 

جلسہ یومِ آزادی

۷۰ کی دہائی کے آخر میں حکومتِ پاکستان نے یومِ آزادی کی تقریبات کو ایک بار پھر جوش و خروش سے منانے کا فیصلہ کیا۔ اسکولوں کی۱۴ اگست کی چھٹی ختم کر دی اور اسکول کے بچوں اور اساتذہ کویومِ آزادی کی صبح پرچم کشائی  کا پابند کر دیا۔ پاکستان کے محبِ صادق شیروانی صاحب کی تو گویا من کی مراد پوری ہو گئی۔ میں نے انہیں دینی جلسوں کے علاوہ اتنا پرجوش صرف یومِ آزادی پر ہی دیکھا۔

جس زمانے میں ہم اپوا اسکول میں پڑھتے تھے ان دنوں بارشوں کا نظام کچھ ایسا تھا کہ اکثر 13 یا 14 اگست کو بارش ہو جایا کرتی تھی۔  ہم بڑے شوق سے گھروں کو جھنڈیوں اور پرچم سے سجاتے  اور 14 اگست کو زیادہ تر سجاوٹ بھیگ کر خراب ہو چکی ہوتی تھی۔ ایسا ہی

 

 

 

 

 


 

ہفتہ طلباء

 


 خورشید

کراچی کے کتنے اسکولوں  کے اپنے  مجلّے ہوں گے؟ معدودے چند۔ مشہور  اور با وسیلہ اسکولوں کے لئے بھی باقاعدگی سے رسالے نکالنا کارِ دارد ہے۔  لیکن ایک بے مایہ سرکاری اسکول  نے اس ناممکن کو حقیقت میں بدل دیا۔ اپوا اسکول میں شیروانی صاحب کی سرپرستی میں محترمہ شمیمہ عندلیبؔ  نے بزمِ فروغ ادب کے تحت ایک مجلّہ جاری کیا اور اسے  ’خورشید‘  کا نام دیا ۔ یہ نام  علامہ اقبال کے جس شعر سے اخذ کیا گیا  اسے رسالے کے سرِورق کی زینت بنا یا گیا۔ 

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے


خورشید کا بنیادی مقصد طلبا  کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا جہاں وہ اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔  اس کے علاوہ طلبا میں غیر نصابی  اور معیاری تحریریں پڑھنے کا شوق پیدا کرنا  بھی اس کے اہداف میں شامل تھا۔ اس رسالے میں لکھنے والے بھی طلبا ہوتے تھے اور ادارتی عملہ بھی۔ محترمہ شمیمہ عندلیبؔ   صاحبہ  نے اس مجلّے کو کامیاب کرنے کے لئے ان تھک  محنت کی۔ وہ اسکول کے تمام طلبا کے ادبی ذوق اور صلاحیتوں کا مشاہدہ کرتیں۔ انہیں  خورشید میں لکھنے پر آمادہ کرتیں۔ انہیں میں سے ادبی اور انتظامی صلاحیت رکھنے والے طلبا کو منتخب کر کے ادارت کی ذمہ داری دیتیں۔ اور پھر ان کی قیادت میں یہ سب طلبا یک جان ہو کر باقاعدگی سے، بر وقت خورشید کی اشاعت کو یقینی بناتے۔ 

خورشید کو جاری رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ ہر شمارے کے لئے اچھی خاصی تحاریر کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس کے لئے  نئے  اور پرانے طلبا کو  لکھنے پر آمادہ کرنا ایک مستقل ذمہ داری تھی۔ پھر ان تحریروں میں سے معیاری تحاریر منتخب کی جاتی تھیں۔ منتخب تحاریر میں سے کچھ میں کانٹ چھانٹ کرنی پڑتی تو کہیں تحریر کی تصحیح کرکے دوبارہ لکھوانا پڑتا۔ یہ ساری ادارتی عملے کی ذمہ داری تھی لیکن محترمہ شمیمہ بھی اس کام میں خاصی مدد کرتیں اور اس عمل کی مکمل نگرانی رکھتیں۔  خورشید کے مدیر وں میں سرور ندیم،   احمد نواز اور تحسین منظر کے نام مجھے یاد ہیں۔ یہ سب بہت با صلاحیت تھے۔ تحسین منظؔر اور احمؔد نواز کی شاعری اسکول کی بیاض میں بھی چھپ چکی ہے۔  

خورشید کے موضوعات گرچہ طلبا سے متعلق ہوتے لیکن ان میں تنوع کی کمی نہیں تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں  نو آموز طلبا کے ساتھ پختہ کار اساتذہ کی تحریریں بھی چھپتی تھیں۔ یہ رسالہ ایک گلدستے کی مانند تھا جس میں ہر رنگ کے پھول ہوتے تھے۔ رسالے کا آغاز حمد سے ہوتا اور پھر نعتیہ کلام پیش ہوتا۔ اس میں شیروانی صاحب کا گرامی نامہ بھی پڑھنے کو مل جاتا، محترمہ شمیمہ کا نوازش نامہ بھی اور مدیر رسالہ کا ادارتی مضمون بھی۔ اس میں اسکول کی خبریں بھی ہوتیں اور طبع زاد کہانیاں بھی۔ سفرنامے بھی ہوتے اور معلوماتی مضامین بھی۔ لطیفے بھی ہوتے اور پہیلیاں بھی۔ ملی نغمے بھی ہوتے  تو غزلیں اور نظمیں بھی۔ مضامین اور شاعری کے انتخاب میں سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں انداز کو برابر اہمیت دی جاتی جس کی وجہ سے طلبا کی اس رسالے میں دلچسپی برقرار رہتی۔

رسالے کے لئے مواد جمع کرنا  بہت مشکل کام ہے خصوصاً اس وقت جب مقدار سے زیادہ معیار کی فکر ہو۔ اگر خورشید میں صرف کہانیاں، مضامین اور شاعری پیش کی جاتی تو کام نسبتاً آسان بھی ہوتا اور کم خرچ بھی۔ لیکن شیروانی صاحب اور شمیمہ صاحبہ  نے خورشید کے لئے  معیار خاصا بلند رکھا تھا۔ اس میں اسکول میں ہونے والی لا متناہی غیرنصابی سرگرمیوں کی رپورٹنگ بھی ہوتی جس کی نگرانی  اور ایڈیٹنگ شمیمہ صاحبہ خود کرتیں۔  شیروانی صاحب  صحافت کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور خبر نگاری  کو  بہت اہمیت دیتے تھے۔ ویسے تو وہ ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتے لیکن ان خبر نگاروں کو خصوصاً شاباش دیا کرتے۔ جب ان سے ملتے تو  انہیں رپورٹر صاحب یا میاں صحافی کہہ کر مخاطب کرتے۔ اس کے علاوہ خورشید میں اس زمانے کے کامیاب افراد کے انٹرویوز بھی شائع ہوتے۔ یہ انٹرویو بزم فروغ ادب کے طلبا ہی کرتے تھے۔ اس سلسلے کے تحت اسکول کے بیشتر اساتذہ انٹرویوز کئے گئے تاکہ طلبا اپنے اساتذہ کو بہتر طریقے سے جان سکیں۔ اس کے علاوہ طلبا کے گروپ   مختلف شخصیات کے گھر یا آفس جا کر بھی انٹرویو کیا کرتے تھے۔ اس ضمن میں فاصلوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی تھی۔ وہ شخصیت کلفٹن  میں رہتی ہو یا  نیو کراچی  میں، شیروانی صاحب کھلے دل سے ان بچوں کو ٹیکسی کے ذریعے بھیجتے اور واپس بلاتے۔  اس کام کے لئے اکثر اپنی جیب سے بھی پیسے ادا کر دیتے۔  اگر کبھی  سینئر استاد ساتھ ہوں جیسے بلقیس صاحبہ تو مسکرا کر کہتے کہ باجی ساتھ جا رہی ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے کوئی اور کرایہ دے سکتا ہے؟ باجی بھی مسکرا کر خاموش ہو جاتی تھیں۔ وہی نہیں اور بھی اساتذہ اپنی محدود آمدنی کے باوجود جہاں موقع ملتا طلبا پر پیسے خرچ کرنے میں پیچھے نہ رہتے۔ 

رسالے کا مواد جمع ہونے کے بعد کے مراحل بھی کچھ کم مشکل نہ تھے۔ اس زمانے میں کمپیوٹر تو تھے نہیں کہ آسانی سے رسالے کی کتابت ہو جاتی۔ رسالے کے اخراجات کم رکھنے تھے اس لئے  پیشہ ور کاتبوں کی خدمات بھی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ تو اس کا سستا حل یہ نکالا گیا  کہ رسالہ سائیکلو اسٹائل پرنٹ کروایا جائے۔ لیکن یہ بڑی محنت کا کام تھا۔ جنہیں نہیں پتہ انہیں بتائے دیتا ہوں۔ پہلے یہ رسالہ سائیکلو اسٹائل  اسٹینسل پیپر ز پر لکھا جاتا۔ اسٹینسل  ایک پتلا سا کاغذ ہوتا جس پر موم جیسے مادے کی کوٹنگ ہوتی تھی۔ اس کی وجہ سے روشنائی اس کاغذ سے نہیں گزر سکتی تھی۔ اب انگریز تو اسے ٹائپ رائٹر پر لگا کر اس پر اپنی تحریریں ٹائپ کر لیتے تھے۔ جب ٹائپ کا ہتھوڑا اسٹینسل پر پڑتا تو اس حرف کے مطابق اسٹینسل سے کوٹنگ کٹ جاتی۔ اور جب مکمل شدہ اسٹینسل کو سادہ کاغذ پر رکھ اس پر روشنائی لگائی جاتی تو کٹے ہوئے حروف کے مطابق روشنائی سادہ کاغذ پر آ جاتی۔ اس طرح ایک صفحے کی کئی نقلیں بن جاتیں۔ 

ٹائپ رائٹر سے اسٹینسل بنانا تو خاصا آسان  کام ہے۔ لیکن اردو  ٹائپ  رائٹر تو پاکستان میں کبھی بھی رواج نہ پا سکا۔ اس لئے خورشید کے ہر شمارے کے اسٹینسل ہاتھ سے لکھے جاتے تھے۔ اس کام کے لئے ایک خاص قسم کا قلم استعمال ہوتا تھا جس میں روشنائی نہیں ہوتی تھی ۔ اس سے اسٹینسل کاٹنے کے لئے اسے بڑے زور سے دبا کر لکھنا پڑتا تھا اور چند سطریں لکھنے کے بعد ہاتھ میں درد ہونا شروع ہو جاتا۔ اس کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اگر کوئی لفظ غلط لکھ  دیا جائے تو اسے مٹا نہیں سکتے تھے  کیونکہ اس جگہ سے اسٹینسل کٹ چکا ہوتا تھا۔ اس لئے ہر لفظ سوچ سمجھ کر، بڑی ذمہ داری سے لکھنا پڑتا تھا۔ ان تمام مشکلات کی وجہ سے  کوئی ایک شخص پورا شمارہ نہیں لکھ سکتا تھا اور یہ کام کئی لوگوں میں بانٹنا پڑتا تھا۔ کتابت کرنے والوں میں سے محض چند کے نام جو مجھے یاد ہیں ان میں خود شمیمہ صاحبہ، فردوس صاحبہ، بلقیس صاحبہ، سرور ندیم، احمد نواز، تحسین منظر، انوار قریشی وغیرہ شامل تھے۔ 

شمارے کی کتابت مکمل ہونے اور پروف ریڈنگ کے بعد اسے چھپنے کے لئے بھیجا جاتا۔ سائیکلو اسٹائل پرنٹنگ چونکہ فوٹو کاپی مشین کی طرح کام کرتی تھی اس لئے کبھی پورا شمارہ چھپ کر اس ہی دن مل جاتا۔ یا اگلے دن اس کی طباعت مکمل ہونے پر اسے وصول کر لیا جاتا۔ چونکہ یہ خالصتاً انتظامی کام تھا اس لئے مختلف لوگ طباعت کی ذمہ داری اٹھا لیتے ۔ اس زمانے میں سائیکلو اسٹائل طباعت کا بڑا مرکز برنس روڈ پر ہوتا تھا۔ اکثر رسالے کے مدیر خود ہی برنس روڈ جا کر  شمارے طبع کروا لیتے۔ لیکن کبھی دوسرے لوگ مثلاً اقبال عمر، یوسف وغیرہ بھی چلے جاتے۔ ایک دفعہ میں بھی  اقبال عمر کے ساتھ گیا تاکہ  یہ کام سیکھ سکوں۔ 

طباعت  مکمل ہونے کے بعد ہر ورق پر خورشید کے چار صفحات، آگے پیچھے چھپے ہوتے تھے۔ ہر ورق کی ڈھیری الگ پیک کی جاتیں۔ اسکول لا کر ان ڈھیریوں کو الگ الگ رکھا جاتا۔ وہاں بزم فروغ ادب کے طلبا ہر ڈھیری سے، ترتیب وار ایک ایک ورق اٹھاتے اور انہیں درست ترتیب سے ملا کر ایک کتاب کی شکل دیتے۔ یہ کتاب اسٹیپلر سے جوڑ دی جاتی۔ اس طرح ایک شمارہ مکمل ہو جاتا۔ لیکن کام یہاں ختم نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد بزم فروغ ادب کے ارکان تمام اساتذہ اور طلبا کے پاس جاتے اور انہیں خورشید کا نیا شمارہ فروخت کرتے۔ اس وقت ایک شمارے کی قیمت چار آنے تھی اور پچاس سے سو کے درمیان شمارے فروخت ہو جاتے۔ اگرچہ یہ اسکول کے طلبا کا پچیس فیصد بھی نہیں بنتے لیکن مجھے یقین ہے کہ کئی طلبا جو خورشید خرید کر نہیں پڑھ سکتے ہوں گے وہ لائبریری سے لے کر یا دوستوں سے مانگ کر پڑھ لیتے  ہوں گے۔   ویسے تو خورشید کی قیمت اتنی کم تھی کہ طلبا کو مفت بھی دیا جا سکتا تھا۔ لیکن شاید اس کے پیچھے یہ فلسفہ تھا کہ طلبا کو کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت پڑ سکے۔ شماروں کی فروخت سے جمع ہونی والی رقم شمیمہ صاحبہ کے پاس جمع ہوتی جنہوں نے  اس کے حساب کتاب کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی تھی۔ اور آخر میں وہ تمام گوشوارے اور رقم اسکول کے کھاتوں میں جمع کروا دیتیں جس سے اگلے شمارے کے کچھ اخراجات نکل آتے۔ 

اب تک اندازہ ہو چکا ہو گا ایک شمارہ نکالنے میں کس قدر محنت لگتی تھی۔ اور ایک شمارہ نکلتے ہیں دوسرے کی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔ اس ہی لئے وہ تمام طلبا جو اپنی تعلیم کے ساتھ اور اساتذہ جو اپنی تدریسی و ذاتی ذمہ داریوں کے باوجود اس رسالے کی باقاعدہ  اشاعت کو ممکن بناتے تھے، خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔



 

یادش بخیر
)محترمہ شمیمہ عندلیبؔ(

 

دامن کو چھڑا کے عازمِ ملکِ عدم ہوئے

آپ کے اوصاف کیسے بتاؤں میں آپ کو

ستمبر ۱۹۷۹ ؁ کی ایک سوگوار صبح تھی جب مجھے جب مجھے اپوا بوائز سیکنڈری سکول سیکٹر  5-Eمیں تقرری کا مراسلہ ملا۔  مجھے فوری اس جگہ جا کر جوائن کرنے کو کہا گیا تھا۔ اگلے دن مذکورہ مقام پر پہنچی جو کراچی کا اختتام کہلایا کرتا تھا۔ اس زمانے میں اس کو نئی کراچی اس اعتبار سے کہتے تھے کہ اس کا شمار واقعی ایک نئی آبادی میں ہوتا تھا جو انتظامی اعتبار سے واقعی نئی کراچی کا نام اختیار کیے ہوئے تھی۔ شاہ فیصل کالونی سے براستہ لوکل ٹرین لیاقت آباد کے اسٹیشن پر اور پھر وہاں سے بذریعہ بس 5-E کا ٹکٹ کٹایا ۔یہ ایک طویل سفر تھا اس سفر میں والد صاحب کی یاد شدت سے آ رہی تھی جو کچھ ہی عرصہ پہلے ہم سے جدا ہو کر ڈھیروں مٹی کے نیچے سو گئے تھے۔ وہ ایسے دور دراز مقام پر بچوں کے ہمراہ جاتے تھے  اور کبھی تنہا نہ چھوڑا مگر اب ۔۔۔۔  بس خود کو ہوشیار کیا کہ ماضی سے الگ ہو کے حال پر توجہ کرو تاکہ مستقبل بن سکے۔ کنڈکٹر نے جیسے ہی صدا لگائی 5-E ہم برق رفتاری سے بس کے گیٹ کی طرف لپکے اور اسٹاپ کا جائزہ لیا۔ ایک خاتون سے پوچھا یہ اسکول کس طرف ہے انہوں نے رہنمائی کی اور ہم اپوا اسکول کے صدر دروازے پر تھے ایک ہی جست میں ہمارا سامنا اسکول کے محل وقوع اور اسٹاف و طلباء سے ہو گیا۔ بہت اعلیٰ نظم و ضبط کے ساتھ اسمبلی ہو رہی تھی۔ ہم بھی ایک طرف جا کر کھڑے ہو گئے۔ اسمبلی بڑی روح پرور تھی۔ کسی بچے کی کوئی رشتہ دار فوت ہو گیا تھا۔ تلاوت ، نعت ، قومی ترانے کے بعد بغیر  بلائے ایک طالب علم آیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کی ۔ دوسرا آیا اور سورہ اخلاص پڑھی۔ تیسرے نے سورہ فلق  پڑھی اور چوتھے نے سورہ الناس اور پھر نورانی چہرے والے جناب قاری حبیب اللہ صاحب آئے اور دعا فرمائی۔  بڑی پر اثر منا جات تھی۔ اس کے بعد طلبہ اپنی اپنی جماعتوں میں چلے گئے۔ اساتذہ نے بھی اپنی ذمہ داریاں سنبھالی  اور ایک بہت رعب دار، دراز قد، اجلی رنگت اور نیلی نیلی آنکھوں والے ادھیڑ عمر صاحب رہ گئے جو اپنے آفس کی طرف چلنے لگے۔ میں نے آفس کے باہر نام کی تختی پڑی تو جیسے کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں کا احساس ہوا ۔ ’حافظ علی خان شیروانی ‘ہماری کاسٹ بھی شیروانی تھی اور نئے نئے صدمے سے دوچار بھی ہوئے تھے۔ ایسا لگا کہ ہمیں دوبارہ سایہ شفقت ملنے والا ہے۔ ان کے آفس میں داخل ہوئی تو جیسے میرے اکھڑے اکھڑے قدم زمین پر جم گئے ہوں۔ بڑی خود اعتمادی سے سلام کیا اور ان کے اشارہ کرنے پر سامنے کرسی پر براجمان ہو گئی۔ اپنا تقرری خط ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے میری طرف نظر ڈالے بغیر کہا کہ  ’بی بی میرے پاس خواتین کا اسٹاف نہیں اس لیے آپ کو میں جوائن نہیں کروا سکتا‘۔ اب میرے پاؤں تلے جو زمین آئی تھی لگا کہ کسی نے کھینچ لی۔  ایک ناکامی کا احساس تھا جو میرے چہرے کا رنگ زرد کر گیا ۔ پھر انہوں نے اچٹتی نگاہ میرے کاغذات پر ڈالی اور بولے آپ کے والد انڈیا میں کس جگہ کے رہنے والے تھے اور یہ جو شیروانی ہے اس کے بارے میں بتائیں۔ میری دوبارہ جیسے سانس بحال ہو گئی میں نے سب کچھ بڑی وضاحت سے بتایا تو وہ بہت خوش ہو کر بولے لگتا ہے آپ نے انڈیا دیکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا نہیں میرے والدین وہاں سے ہیں تو مجھے انہوں نے یہ سب بتا رکھا ہے اور ساتھ بغیر کسی ارادے کے میں نے کہہ دیا  ہنوز دلی دور است۔ اس محاورے پر تو وہ گویا کِھل گئے اور باقاعدہ مسکرا کر بولے اچھا ہم دہلی جائیں تو دہلی سے پہلے کون سا شہر آتا ہے؟ میں برجستہ بولی والد صاحب کہتے تھے جے پور۔ بس پھر قیام پاکستان پر بات چیت شروع کر دی ان کو پاکستان سے محبت نہیں عشق تھا اور مجھے ایسا لگا کہ یہ میرے والد کا دوسرا روپ ہے  کیونکہ ان کو بھی پاکستان سے انتہا درجے کا پیار تھا۔ بس انہی باتوں کے دوران انہوں نے مجھے جوائن کروا لیا اور کہا آپ اپوا اسکول کی خاتونِ اول ہیں ۔

ہاں اس بات کا تذکرہ نا گزیر  ہے کہ  مجھے جوائننگ دیتے ہوئے انہوں نے ضمناً یہ بات کی کہ آپ کو یہ اسکول کیسا لگا؟ میں نے کہا بہت اچھا ۔ پھر بے یقینی کی کیفیت میں بولے اچھا ۔ مگر یہ اچھا ان کے ایک اور سوال کی تمہید تھی کہ یہاں کی کون سی چیز آپ کو اچھی لگی؟ اچھی پر انہوں نے کافی زور دیا اور تھوڑی کے نیچے دونوں ہاتھ رکھ کر میرے جواب کے منتظر ہو گئے۔ میں نے کہا یہاں کی فاتحہ خوانی۔ وہ چونکے ہا ئیں  فاتحہ خوانی؟ حیرانی اور سراسیمگی کی کیفیت تھی۔ پھر خود ہی بولے کتنی اچھی لگی؟  میں نے کہا اتنی اچھی لگی کہ مرنے کو دل چاہتا تھا۔  بس ان کی خوشی اس میں نظر آئی کہ وہ اس سب سسٹم کے بانی تھے۔ جیسے تخلیق کار اپنی تخلیق پر دوسروں سے داد لے کر مسرور ہوتا ہے یہی چیز ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔ حافظ علی خان شیروانی  المعروف  ایچ اے خان شیروانی کہلاتے تھے۔ ان کے لیے یہ اعزاز تھا کہ وہ علیگ تھے۔ علی گڑھ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونا کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ اگلے دن میں اسکول ٹائم سے کافی پہلے پہنچ گئی ۔ چپراسی نے بتایا کہ یہ آپ کا اسٹاف روم ہے۔ حالانکہ خواتین کا اسٹاف نہ تھا میں تن تنہا 22 سالہ لڑکی اور خواتین اسٹاف روم کا بورڈ ۔ یہ ان کی لائبریری تھی جو لائبریرین نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی تھی۔ انہوں نے اس پر میرے اسٹاف روم کی مہر لگا دی۔ یہ ایک خوش آئند قدم تھا۔ ایک ماہ بعد ہی مس فردوس یہاں قدم رنجہ ہوئیں اور شیروانی صاحب کو قدرے اطمینان ہوا کہ اب دو خواتین موجود ہیں اور دونوں ایک ہی علاقے کی مکین بھی ہیں۔ یہ ان کی شفقت و محبت تھی کہ انہوں نے ضروری سمجھا کہ دسویں جماعت کے بڑے، ذمہ دار طلباء کو کہا کہ آپ لوگ آدھا گھنٹہ دیر سے جایا کریں جب تک دونوں خواتین ٹیچرز کی بس نہ ا ٓ جائے۔ گویا شفیق باپ کی طرح انہوں نے اس کو اپنی ذمہ داری بنا لیا ۔ اللہ تعالی نے چار ماہ بعد ایک احسان کیا اور مسز بلقیس قریشی کا تبادلہ نئی کراچی کے ہی ایک اسکول سے اپوا اسکول میں ہو گیا۔ وہ ہم سے بڑی تھی ان کے آنے سے نہ صرف ہم کو بلکہ شیروانی صاحب کو بھی بڑی تقویت ملی۔ ان کی علمیت کی انتہا نہ تھی۔ وہ جلد ہی شیروانی صاحب اور ہماری باجی بن گئیں۔  اس کے بعد خواتین کی آمد کا سلسلہ بن گیا۔ مس شہناز ناہید، سیّدہ عباس صاحبہ، مسز رشیدہ رفعت،  مسز قمر  وغیرہ۔  ’زبان شیریں ملک گیری‘ سنا تو بہت تھا مگر دیکھنے کا اتفاق شیروانی صاحب کو دیکھ کر ہوا ۔ ان کی زبان اتنی میٹھی اور لب و لہجہ اتنا  اپنائیت کا تھا  کہ جو نیا ٹیچر آتا ان کا مرید ہو جاتا۔  وہ جس ٹیچر کو جو کام کرنے کو کہتے بے شک وہ صلاحیت اس میں نہ ہوتی تھی مگر ان کے کہتے ہی جیسے اس پر اس کام کی برسات ہونے لگتی تھی۔ مثلاً انہوں نے مجھ سے کہا تم شعر و شاعری میں قدم کیوں نہیں رکھتیں؟ میں نے کہا مجھ میں یہ صلاحیت نہیں۔ تو بولے نہیں تم لکھو اور قاری حبیب اللہ صاحب سے اصلاح لیا کرو۔  میں حیران ہوئی تو بولے ابھی آپ کو نہیں پتہ  کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔  جب گھر بار کی ذمہ داری ہوگی ، کبھی غصہ آئے گا،  کبھی دل ٹوٹے گا، اگر حالات نے ڈھیر بھی کر دیا تو یاد رکھو شعر گوئی کی صلاحیت ہوئی تو فورا کچھ لکھ ڈالو گی اور ہلکی پھلکی ہو جاؤ گی۔  یہ شعر گوئی قافیہ آرائی کا نام نہیں بلکہ ایک انہونی طاقت کا نام ہے۔

اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ایک نئی توانائی میرے اندر آگئی ہے۔ میرے تو والدین کو پتہ نہ چل سکا نہ میرے اسکول کے اساتذہ کو کہ میرے اندر یہ صلاحیت موجود تھی۔ جس کا اندازہ انہوں نے قلیل وقت میں کر لیا۔  پھر کیا تھا شیروانی صاحب کی تحریک پر ہم قاری حبیب اللہ صاحب کی شاگردی میں آگئے۔ اسلامی کیلنڈر کے مطابق چودھویں صدی شروع ہونے والی تھی۔ ان کی تحریک پر ہم نے منظوم ہجرت نامہ لکھا اور سن۱۴۰۱ ہجری میں یہ اسمبلی میں پڑھ کر سنایا۔  ہجرت کی پوری منظوم تاریخ تھی اور شیروانی صاحب سن کر سر دُھن رہے تھے ۔

یثرب کی طرف جب ہوئی ہجرتِ رسول

جنّ و بشر نے دیکھ لی ہے عظمتِ رسول

یہ شعر اور شاعری کا سلسلہ چلتا رہا۔  ہر موقع پر وہ مجھے باور کراتے کہ سر سید کا یوم پیدائش آ رہا ہے ایک قطعہ ضرور لکھنا۔ حضرت عثمانؑ کی شہادت پر ایک قطعہ لکھو۔ معمولی واقعات پر بھی کہتے جیسے پانی کی قلت، صفائی کے ناقص نظام وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح ہم ’خاتون اول‘ کے ساتھ ’خاتونِ اول شاعرہ ‘ کا خطاب بھی اپنے نام کر بیٹھے۔  

ادبی ذوق پیدا کرنے میں انہوں نے کمال کا حصہ ڈالا۔ ان دنوں خطوط کے ذریعے مضمون نویسی اور مشاعروں میں شرکت کرنے کا کلچر تھا۔ میں بڑے پابندی سے اخبار پڑھتی اور ان مقابلہ جات میں حصہ لیتی، اکثر انعام و اکرام اور اسناد حاصل کر لیتی، جب میں ان کو بتاتی تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک جاتا اور فورا ً نوٹِس نکالتے کہ مس شمیمہ عندلیب نے اس عنوان کے تحت لاہور سے یہ سند اور انعام مقابلہ مضمون نویسی میں حاصل کیا ہے۔ تو بریک ٹائم میں چائے اور سموسے میری طرف سے نذرانہ ہے۔ آپ بنفس نفیس تشریف لائیں۔  

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسا

اس دنیا میں کوئی نہیں آپ کے جیسا

ان کے وصف کی یہ خوبی سب پر واضح طور پر عیاں تھی کہ وہ ایک اچھے مسلمان ہیں، با عمل انسان ہیں، دین کے معاملات کو سمجھتے ہیں اور کامل یقین بھی رکھتے ہیں۔  ربیع الاوّل کا مہینہ تھا سالانہ محفل میلاد کا انعقاد کرنا تھا۔  اس کی تیاری مجھے اور مس فردوس جہاں کو سونپی گئی جبکہ انتظامی ذمہ داری سر خلیل صاحب مرحوم اور سر وقار صاحب مرحوم کے سپرد تھی۔  انہوں نے اسکول کے احاطے میں پنڈال سجایا۔  اسکاؤٹ جذبے اور سرشاری سے کام کر رہے تھے عصر کے وقت تک جملہ تیاری ہو چکی تھی۔  شامیانہ تن چکا تھا۔  چاندنی بجھ گئی تھی۔  مائک اور جملہ ضروریات ڈائس،  مہمانوں کا بلاک،  والدین کا بلاک بالکل تیار تھا۔  ہم نے بھی بچوں سے تقاریر اور نعتیں تیار کروائیں اور جب مطمئن ہو گئے تو گھر کی طرف روانہ ہوئے۔  چلتے چلتے انہوں نے پوچھا کہ سلام اور مناجات ؟ ہم نے کہا کہ قاری صاحب اور بچے مل کر سلام پیش کریں گے۔ مناجات تو قاری صاحب نے کروانی ہے۔  بولے بہترین۔  اچھا ایک بات پر غور کرنا کہ جب سلام پڑھا جاتا ہے تو وہ خود تشریف لاتے ہیں۔ محفل میں شرکت فرماتے ہیں ( وہ سے مراد نبی پاک ﷺ ) ۔ ہم دونوں حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اور دونوں نے بیک وقت سوال کیا کہ مگر ہم کو کیسے پتہ چلے گا کہ حضور پاک تشریف لے آئے ہیں؟ تو وہ گویا ہوئے کہ جب اچانک خوشبو کا جھونکا آئے،  ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلے،  روح معطّر ہو جائے تو سمجھ جانا۔  اتنے میں خلیل صاحب نے کہا کہ ایک راؤنڈ لگا لیں کوئی کمی بیشی ہو تو بتا دیں ۔ وہ ان کی کمر تھپتھپاتے ہوئے بولے مجھے آپ پر اعتماد ہے کہ سب کچھ اچھا عمدہ اور اعلی کیا ہوگا اور خلیل صاحب اور وقار صاحب کا چہرہ اس پذیرائی پر کھل اٹھا۔ اگلے دن کا طلوع ہونا تھا کہ ہمارے ہوش اڑ گئے۔  آدھی رات کے بعد جو موسلا دھار بارش شروع ہوئی تو ہمارے حواس گم ہو گئے کہ نہ شامیانہ بچا ہوگا نہ انتظام رہا ہوگا۔  اس طوفانی بارش کے بعد نہ مہمان خصوصی  ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ا ٓفیسر عبدالمعید فاروقی صاحب ا ٓ سکیں گے،  نہ کوئی مہمان ہوگا،  نہ طلبہ گھر سے نکلیں گے،  نہ ان کے والدین۔  ہم باقاعدہ آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ ہم جو ساڑھے سات بجے اسکول میں ہوتے تھے، دس بجے تک گھر سے نکل نہ سکے۔  جیسے ہی موسلا دھار بارش میں کمی آئی ، ہم نے رکشہ کیا اور اسکول پہنچے۔  مارے گھبراہٹ کے برا حال تھا یہاں تو جیسے سیلاب آ گیا تھا۔ ہر چیز تیر رہی تھی۔  خلیل صاحب اور وقار صاحب کچھ اسکاؤٹس برآمدے میں کھڑے اپنی محنت اور کارکردگی پر کف افسوس مل رہے تھے۔  ایسے میں دیکھا کہ شیروانی صاحب بھی حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔  ہم ان کی طرف دوڑے سر یہ کیا ہو گیا؟ مگر ان کے چہرے پر بلا کا اطمینان اور ناقابل بیان طمانیت تھی۔ انہوں نے مسکرا کر ہماری طرف دیکھا۔  ہم نے روہانسی لہجے میں کہا اب کیا ہوگا؟  تو وہ بڑی خود اعتمادی اور یقین کے ساتھ بولے گھبراؤ مت جن کی محفل ہے وہ خود سنبھال لیں گے۔  ہم نے پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ مقرِر اور نعت خواں بچے اسکول کے قریب رہتے تھے۔ دیکھا کہ بارش ہلکی ہونے پر وہ بھی آ گئے ہیں۔ ہم تھکے تھکے قدموں سے اسٹاف روم کی طرف آ گئے اور ان کی فائنل ریہرسل سننے لگے ۔ گھنٹے بعد ہم اسٹاف روم سے نکلے تو گویا دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔  آسمان صاف تھا ۔ چمکیلی تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی۔  پانی کافی حد تک بہہ چکا تھا  باقی اسکاؤٹس کی محنت نے پانی کا رخ بدل دیا۔  دوبارہ تنبو تن چکے تھے۔ سائبان و چھتر بن چکا تھا۔  برق رفتاری سے سب کام ہو گیا۔ چونا ڈال کر بچے مہمانوں کے لیے راہداری بنا رہے تھے۔ ساڑھے  بارہ بجے محفل کا آغاز ہوا۔ مہمان خصوصی اور عمومی سب تشریف لے آئے اور یہ گمان ہی نہ گزر رہا تھا کہ یہاں سیلابی کیفیت بھی رہی ہے۔ بہت ارفع و اعلی سیرت کانفرنس رہی۔ بچوں نے تقاریر اور نعت خوانی سے اپنا لوہا منوایا۔ آخر میں سلام کا وقت آیا تو قاری صاحب کے ساتھ سب ہی اساتذہ،  بچے اور والدین شامل ہو گئے۔  بس کیا روح پرور منظر تھا ایسا پر کیف نورانی ماحول تھا کہ بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ

کو چہ  سرور دیں  میں جو آ گیا

اس کی ہستی بہارِ ارم ہو گئی

وہ معطّر خوشبو ریز ہوائیں چلیں کہ آنکھیں کھولو یا بند کرو،  چار جانب سبزہ ہی سبزہ اور پھول ہی پھول نظر آ رہے تھے۔  لگتا تھا فضا گل پاشی کر رہی ہے۔ چوالیس سال گزرنے کے بعد بھی لگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہے۔ محفل برخواست ہوئی تو شیروانی صاحب کا چہرہ مزید روشن اور نورانی ہو چکا تھا۔  بس انہوں نے یہ کہا کہ دیکھا جن کی محفل ہوتی ہے وہ خود سنبھال لیتے ہیں۔ ان کی بات میں جو گہرائی تھی ہم نے اس کو سمجھ لیا مگر کسی حد تک۔ سمجھنے کی اب تک کوشش کر رہے ہیں۔

؁۸۰ کی دہائی میں آڈیو کیسٹ والے ٹیپ ریکارڈر متعارف ہوئے۔ شیروانی صاحب کی بڑی صاحبزادی سعودیہ میں رہائش پذیر تھیں۔  انہوں نے اپنے والد کو ٹیپ ریکارڈر گفٹ کیا، اب شیروانی صاحب نے سوچ بچار کی اور قاری صاحب کو بتایا کہ میں اس میں سب سے پہلے پورا قران پاک آپ کی آواز میں ٹیپ کرنا چاہتاٍ ہوں۔ قاری صاحب اس نیکی کے کام میں فورا شامل ہو گئے۔ اب شیروانی صاحب اپنے گھر میں مغرب کے بعد قاری صاحب کو مدعو کرتے،  رات کا کھانا اور عشاء کی نماز ساتھ پڑھتے اور ایک سپارہ ریکارڈ کر لیتے۔ جب قران پاک مکمل ہونے کے قریب ہوا تو جذبہ اتنا تھا کہ کئی سپارے ریکارڈ کر لیے۔ پھر احساس ہوا کہ رات کافی بیت چکی ہے مگر سوچا کہ مکمل ہی کر لیتے ہیں۔  اللہ کے فضل سے فجر سے پہلے، تہجد کے وقت میں یہ کام مکمل ہو گیا۔ اب ختم قران کی دعا پڑھنی تھی۔ قاری صاحب بولے ختم کس چیز پر کریں؟ شیروانی صاحب نے پانی کا گلاس سامنے رکھ دیا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔  شیروانی صاحب  چونکے کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے؟ خیر گیٹ پر پہنچے تو ایک اجنبی مٹھائی کا ڈبہ لیے کھڑا تھا کہ آپ کے ہاں نواسہ ہوا ہے۔ انہوں نے سراسیمگی اور خوشی سے لبریز ہو کر ڈبہ پکڑا اور وہ اجنبی نگاہ سے اوجھل ہو گیا۔ وہ قاری صاحب کے پاس مسکراتے ہوئے آئے اور بولے یہ لیجئے قدرت نے شیرینی کا انتظام بھی کر دیا۔  

شیروانی صاحب کو اولیاء اللہ سے بھی بہت عقیدت تھی۔ ان کے پسندیدہ بات چیت کے عنوانات دینِ اسلام، تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان اور اولیاء کرام تھے۔

لفظوں سے جان لے جو کسی دل کے راز کو
وہ با کمال شخص تو قلندر لگے مجھے

 ان کے شخصیت کا وصف خاص ان کے مزاج کی شفقت اور محبت تھی۔ ہر استاد، طالب علم، چپراسی اس لذت سے آشنا تھا۔ دل آزاری کو وہ گناہ گردانتے تھے۔ ایک مرتبہ چپراسی چائے بنا کر لایا تو اس میں دھوئیں کی لذت بھی شامل تھی۔ سب کو ہی وہ چائے بری لگی۔ مگر انہوں نے چپراسی کو بلا کر کہا بھائی اب تو تم ’اسموک ٹی‘ بنانے لگے ہو مگر کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہ کی اور آئندہ اس نے کبھی ایسی چائے نہ بنائی۔ ان کی شفقت سے متعلق یہ واقعہ بھی ہماری زندگی کا کھلا ہوا باب ہے جب گورنمنٹ نے دو اساتذہ کو اے۔ وی۔ ایڈ ٹریننگ کے لیے مدعو کیا تو انہوں نے میرا اور مس فردوس کا نام دے دیا۔ یہ قاسم آباد کالج کے ہال میں ہوئی تھی۔  پروجیکٹر،  آڈیو کیسٹ،  نقشے،  گلوب اور دیگر امدادی اشیاء سے تدریس کی تربیت تھی۔ ایک ماہ کے لیے ہم اسکول سے آف مل گیا اور اب ہم لیاقت قاسم آباد کالج جاتے تھے۔ ٹریننگ مکمل ہوئی تو آخری دن پارٹی کا اہتمام تھا۔ تمام اساتذہ کو پابند کیا کہ وہ اپنے والدین یا کسی بزرگ کو ہمراہ لائیں تاکہ وہ کالج کی کارکردگی دیکھیں۔ میرے تو والد حیات نہ تھے۔ والدہ بہت گھریلو اور سادہ مزاج تھیں، ایسی تقریب میں وہ جانا پسند نہیں کرتی تھیں۔  فردوس جہاں کے والدین نے بھی معذرت کر لی۔ پھر ہم بڑے افسردہ ہوئے اور اسکول پہنچے شیروانی صاحب کو بتایا کہ ہم دونوں کی طرف سے کوئی بزرگ شمولیت نہیں کر رہا۔  انہوں نے بس ٹائم پوچھا کہ تقریب کس وقت ہوگی۔ اگلے دن ہم دونوں خود ہی الوداعی تقریب میں چلے گئے۔ تلاوت کے بعد اسٹیج پر مس فردوس نے اپنی پُر سوز آواز میں نعت پڑھی۔ اب جو ان کی نظر حاضرین پر پڑی تو وہ حیرانی اور سرشاری کی کیفیت میں اسٹیج سے اتریں اور مجھے بچوں کی طرح بتایا کہ شیروانی صاحب حاضرین میں تشریف رکھتے ہیں۔ پھر میں نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو وہ معنی خیز انداز میں مسکرا رہے تھے۔ اب سرٹیفیکیٹ تقسیم ہونے کا مرحلہ تھا ۔نمایاں کارکردگی والوں میں میرا اور مس فردوس کا نام تھا۔ جب ہم اسٹیج پر آئے تو انہوں نے اپنی نشست سے اٹھ کر ہمارے لیے کلیپنگ کی۔ یہ ان کی شفقت تھی، دل جوئی تھی ،جو انہوں نے ہمارے لیے کی۔  ان کے مزاج کا خاصہ ان کی بذلہ سنجی تھی۔ تمام اساتذہ اس کی تعریف کرتے تھے اور اس خوبی سے آشنا تھے۔   ؁۱۹۸۲میری شادی ہو گئی اور میں کراچی سے ملتان آگئی۔  ۱۹۸۲ ؁  میں میرے ہاں فرزند کی ولادت ہوئی۔  بذریعہ ڈاک یہ خبر محترمہ بلقیس باجی اور فردوس کو سنائی گئی۔ یہ محبت اور پیار کے مرقع سے تخلیق ہوئی تھیں مجھ سے رابطے میں رہتی تھی۔ اب ان خواتین نے آفس کا رخ کیا کہ شیروانی صاحب کو یہ خوش خبری سنائی جائے مگر کرسی پر بیٹھ کر سوچنے لگیں کہ کیسے بتائیں۔ ایک دوسرے کے ہاتھ کو دبا کر کہہ رہی ہیں کہ آپ بتائیں، وہ کہہ رہی ہیں آپ بتائیں اور شیروانی صاحب عینک  لگائے  بظاہر اپنے کام میں مصروف رہے۔ جب کافی وقت گزر گیا تو انہوں نے خود سکوت کو توڑا،  آنکھوں سے عینک اتاری اور حسب عادت دونوں ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھے اور آنکھیں بند کر کے گویا خلاؤں میں کچھ دیکھا اور بولے باجی یہ بتائیں کہ قطعہ آیا ہے یا قطعی ؟ باجی اور مس فردوس دونوں ہم آواز ہو کر بولیں قطعہ ۔ انہوں نے مبارکباد دی اور کہا کہ ماشاءاللہ ریحان صاحب۔  انہوں نے اپنی خوشی سے بچے کا نام ریحان رکھا۔  ان کے اپنے چھوٹے بیٹے کا نام رضوان تھا۔

 شیروانی صاحب سر سید کے زبردست مداح تھے۔ ہم نے جو کتابوں میں پڑھا اس کے علاوہ انہوں نے ہمیں اتنا بتایا کہ ہم سوچنے لگے یہ خود سرسید ثانی تو نہیں؟  اس زمانے میں سوشل میڈیا کا کوئی کردار نہ تھا مگر اس دور میں وہ ہر 14 اگست پر اپنے گھر پر سبز ہلالی پرچم لہراتے تھے اور خاص کھانا پکوا کر عزیز و اقارب کو کھلاتے تھے۔  ہم نے مطالعہ پاکستان نہیں پڑھا مگر یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ’مطالعہ پاکستان‘ دیکھا ہے۔  اردو ادب سے ان کو گہرا لگاؤ تھا۔  سخن فہمی اور سخن شناسی پر ان کو عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اپوا سکول میں ایسا ادبی ماحول دیا کہ کئی اساتذہ اور طلباء اس طرف راغب ہو گئے۔ محترمہ باجی بلقیس صاحبہ تو اپنے انداز میں ’دہلی کلاس اف اسکول‘ کی نمائندگی کرتی رہتی تھیں۔  شعر گوئی ان کے مزاج میں شامل تھی۔ پھر مسز رشیدہ رفعت بھی طبع آزمائی کرنے لگیں۔  اکثر ناصر عزیز صاحب اور ظہور صاحب بھی  غزل و نظم پر مشق سخن کرتے نظر آنے لگے۔ طلبہ میں احمد نواز  اور تحسین احمد جیسے شعراء ابھر کر سامنے آئے۔

 رات دن اس کو سنوارا انہوں نے بطرزِ باغباں
تب کہیں جا کر نکل آئے اس شجر پر برگ و بار

 

شیروانی صاحب  ہر کسی کی عزت نفس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کسی کی بے عزتی کرنا ان کے نزدیک گناہ کبیرہ تھا۔ اپوا بوائز اسکول کی عمارت کافی بوسیدہ تھی۔ دروازوں میں چوکھٹ ہوتی تھی مگر دروازے نہیں۔ کھڑکی ہوتی تھی مگر روشندان کی صورت میں۔  اکثر وہ راؤنڈ لیتے ہوئے کسی کھڑکی کے پاس کھڑے ہو جاتے مگر نظریں ٹیچر یا بچوں پر نہیں،  نگاہ اسکول گراؤنڈ پر ہوتی تھی۔ اگر درس یا نظم و ضبط میں کوئی کمی ہوتی تو آفس میں بلا کر بہت اچھے لب و لہجے میں سمجھا دیتے۔ ان کے مزاج میں بہت ندرت تھی۔ وہ اپنے سکول میں بہت کچھ نیا کرنا چاہتے تھے۔ دینی کاموں کے لیے  قاری صاحب کی رہنمائی میں بزمِ فروغ اسلامیات کام کر رہی تھی۔ ادبی پروگرامز کے لیے بزمِ فروغ ادب جس کا قلمدان میرے سپرد تھا۔  ثقافت کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے بزم فروغ ثقافت کا اجرا ءکیا جو مس فردوس اور مسز  بلقیس کے سپرد تھی۔  بزم ادب کا ایک کارنامہ خورشید سووینیر کا اجرا تھا جو ہماری نگرانی میں شائع ہوتا تھا۔ یہ ہفتے بعد منظر پر آ جاتا تھا جس کو میرے اور فردوس کے علاوہ احمد نواز  اور تحسین احمد اپنے ہاتھ سے اسٹینسل پر لکھا کرتے تھے۔ شیروانی صاحب خود اس کو کاغذ پر منتقل کرتے تھے۔ انہوں نے گھر کے ایک کمرے میں گھریلو سطح پر چھاپہ خانہ بنا رکھا تھا۔ اس طرح کیمرے سے تقریبات کی تصاویر اتار کر وہ گھر میں ہی ڈیویلپ کر لیتے تھے۔ انہوں نے کمرے کے کونے میں کوئی چار فٹ کی جگہ کو ڈارک روم بنا رکھا تھا۔ وہ نیگیٹو نکال کر خود ساختہ لیب کو استعمال کرتے ہوئے تصاویر کی شکل دیتے تھے۔  یوں ان کا شوق بھی پورا ہو جاتا تھا،  کام بھی من پسند ہوتا تھا اور پیسہ بھی بچتا تھا۔ وہ ’کم خرچ بالا نشیں‘ کے محاورے پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے نئی کراچی جیسے پسماندہ علاقے میں اپوا اسکول میں نئی بنیادیں ڈالیں،  فوٹوگرافی کے مقابلے،  بے بی شوز کا انعقاد جو کبھی کسی گورنمنٹ سکول نے نہ کروائے تھے۔ بزم ادب کے تحت مباحثے کروائے جو عموماً کالج یا یونیورسٹی میں ہوتے تھے۔ مختلف مواقع پر کوئیز پروگرام کی فرمائش کرتے تھے اور بچے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ان انعامات حاصل کرتے۔ میں یہ بات فخریہ کہہ سکتی ہوں کہ ۸۰ کی دہائی میں کسی گورنمنٹ اسکول،  وہ بھی پسماندہ علاقے کےکسی گورنمنٹ سکول نے بی بی شو کا انعقاد نہ کیا ہوگا۔ اساتذہ،  طلبہ اور والدین کے لیے یہ انوکھا شو تھا۔ اسکول کے طلبہ اپنے ۱۰سال تک کے بہن بھائیوں کو ساتھ لا رہے تھے۔ لگتا تھا روز عید ہے۔ نئے کپڑے،  سروں میں تیل،  اانکھوں میں سرمہ اور ان بچوں اور ان کے والدین کے چہروں کی رونق بتا رہی تھی کہ وہ کتنے مسر ور ہیں۔ ان کے بچوں کو اتنی اہمیت مل رہی ہے۔ یہ محنت کش خاندانوں کے بچے تھے آج لگتا تھا کہ وہ کسی وزیر، سرمایہ دار اور خوشحال خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور خود اعتمادی نے ان کو معاشرے کا اہم فرد بنا دیا تھا۔ مس شہناز ناہید اور باجی بلقیس کو اس پروگرام کا انچارج بنایا گیا۔ مسز بلقیس بچے کا  قد ناپتیں، مس شہناز بچے کا وزن کرتیں،  مس فردوس صفائی، جیسے ناخن کٹے ہوئے ہیں، صفائی کے مارک کرتیں اور میں سب کے لیے نمبروں کا ٹوٹل لگاتی۔ جس بچے کے نمبر زیادہ آتے اس کو پوزیشن دے کر انعام سے نوازا جاتا۔ اسی طرح دوسرا انعام، تیسرا اور خصوصی انعام بھی رکھا جاتا۔ اس بےبی شو کا مقصد والدین اور اساتذہ میں باہمی تعاون اور محبت بڑھانا تھا۔ شیروانی صاحب اپنے رویے اور باتوں سے بتا رہے تھے کہ وہ اس علاقے کے مکینوں میں تعلیم کا پرچار کر رہے ہیں۔ رواداری اور علم دوستی کی فضا پھیلا رہے ہیں۔ ان کا یقین تھا کہ استاد اور والدین مل کر ہی بچے کی شخصیت کو بھرپور بنا سکتے ہیں۔ قوموں کے پھلنے پھولنے کے جن اوصاف کی ضرورت ہے انہوں نے اپوا اسکول کو اس سے مالا مال کر رکھا تھا۔ ان کا یہ ایمان تھا کہ

مہک اٹھے گی ہر ایک بستی ہماری خوشبوئے دوستی سے
نشانِ ظلم و ستم مٹا کر جہاں کو رشکِ ارم کریں گے

 غرض یہ ایچ اے خان شیروانی مرحوم ایک فرشتہ صفت شخصیت کا نام، ان کی خوبیوں کو گنوانا آسان کام نہیں۔ وہ دنیا سے چلے گئے مگر ان کے اسٹاف اور طلباء میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے اور بچتا رہے گا۔ ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے عرصہ ہو گیا۔ میرا خیال ہے کم و بیش 40 سال ہو گئے ہیں۔ مگر وہ ہمارے دل میں زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے ماتحت کام کرنے والے اساتذہ ان کو بہترین الفاظ میں یاد کرتے ہیں، ان کے طلبہ ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ان کی یاد کو محو نہیں ہونے دیتے۔ یہ کتاب جو اپ کے زیرِ نظر ہے اس بات کا بیّن ثبوت ہے اور ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ

آپ کے نغمات ہوں یا ہوں یادوں کے چراغ
راہ دکھلاتے ہیں ہر گام  پر  ویرانوں  میں


 

خواتین اساتذہ کے گاؤن کا قصہ
محترمہ شمیمہ عندلیب

 

ہوا یوں کہ میں ابتدا میں سر پہ دوپٹہ اور کندھوں سے چادر ، جو بہت لمبی نہ ہوتی تھی ، لے کر کلاس لیتی۔  مگر حاضری لینے  یا تختہ سیاہ تیار کرنے کے دوران  اسے سنبھالنے میں بہت دقت ہوتی۔ ایک ماہ اسی طرح گزارا  ۔ پھر میں نے سوچا کہ چادر کی بجائے سر پہ دوپٹہ اور گھٹنوں تک جو کوٹ ہوتے ہیں وہ زیادہ بہتر رہیں گے۔ اس  اثناء میں میری کوششوں سے فردوس صاحبہ بھی اس اسکول میں آ گئیں۔ ہم دونوں  شاہ فیصل کالونی سے لوکل ٹرین لے کر ناظم  آباد اسٹیشن  آتے۔ راستے  میں کراچی یونیورسٹی کا اسٹیشن بھی آتا تھا۔  اس سفر میں ایک یونیورسٹی کی طالبہ بھی ہوتی تھی۔ اس کے گاؤن کو دیکھ کر ہمیں خیال آیا کہ ہم  ایسا گاؤن بنوا لیتے ہیں اور سفید گاؤن میں میرون پٹی لگوا لیتے ہیں جو گلے سے لمبائی میں گھٹنوں کے نیچے تک آتی تھی۔ اس خیال کا سہرا مجھے نہیں یاد کہ میرے سر ہے یا فردوس کے۔ کیونکہ ہم یک جان، یک دماغ، دو قالب تھے۔ ویسے فردوس برقعہ لیتی تھیں اس لئے ان کو زیادہ مسئلہ نہ تھا ۔بس اس خیال کو لے کر ہم شیروانی صاحب کے پاس آئے اور گاؤن کا بل پاس کروا لیا ۔۔اب مسئلہ درزی کا تھا۔ اس دور میں اس پیشے سے متعلق لوگ کافی ہنر مند ہوتے تھے۔ ہمارے گورنمنٹ کالج فر ئیرر روڈ کے پاس ایک درزی صاحب کافی تعاون کرنے والے سوجھ بوجھ کے مالک تھے۔ ان سے ہم پہلے بھی کپڑے سلوا چکے تھے۔ ان کو بتایا کہ یونیورسٹی گاؤن ہے بس اس میرون پٹی کا اضافہ کرنا ہے۔ وہ فورا سمجھ گئے۔ ان سے کپڑے  کا حساب  لگوایا۔  پانچ گز  سفید کپڑا اور  ایک گز میرون پٹی  کے لئے مانگا گیا۔ کپڑے کا انتخاب بھی کرنا تھا جو جلد پیلاہٹ کا شکار نہ ہو، بہت بھاری نہ ہو ۔ ہفتے میں دو دفعہ تو دھلائی کرنی ہوگی۔ جملہ ضروریات کے مد نظر قریبی جامع کلاتھ مارکیٹ گئے اور ایسے کپڑے کی ڈیمانڈ کی ۔ اس نے واقعی ہمارے معیار کا کپڑا دکھایا ۔ ہم نے گاؤن کے لئے جو کپڑا منتخب کیا وہ نہ مکمل ریشمی تھا اور نہ ہی سوتی۔ اس زمانے میں فی جیوٹو (fijutti) کپڑا یہ خصوصیات  رکھتا تھا۔۔بس اس کو منتخب کیا اور دوبارہ درزی صاحب کی طرف راہ لی ۔ انہوں نے کہا بے فکر رہیں بہت عمدہ سلائی ہوگی ۔سو روپے محنت مانگی جو اس وقت کے لحاظ سے بہت زیادہ تھی۔ خیر ہم نے بے چوں و چرا حامی بھر لی  ۔ یوں ہفتے بعد جب ہم گاؤن  زیب تن کر کے گئے تو سب سٹاف ہی معترف ہوا۔ ہم خود بھی اپنی شخصیت میں ایک بھرپور انداز محسوس کر رہے تھے جس میں علمیت، وضع داری، سادگی و متانت کا عنصر تھا۔ مس فردوس گاؤن سٹاف روم میں چھوڑ کر جاتیں کیونکہ وہ راستے میں برقعہ اوڑھتی تھیں ۔ یوں اپوا بوائز سکول نئی کراچی کے سکولوں میں سبقت لے گیا ۔ جو ٹیچر اس سکول میں آتیں وہ بہت خوش ہوتی کہ یہ گاؤن  بہت اعلی ہیں اور ہمیں انفرادیت بخشتے ہیں ۔ ہاں جب میں نے شادی کی وجہ سے سکول چھوڑا تو گاؤن سکول کو دے دیا  کہ جو میری جگہ آئے یہ اس کو دے دینا۔


 

 

میرا اسکول
)جناب مکرم احمد(

 

دفترِ ہستی کا زَرّین ورق تھی تیری حیات

تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات

یوں تو ہر انسان زندگی اور موت کی حقیقت سے آشنا ہے اور بعض انسان اپنا سفر آخرت اختیار کرتے وقت اپنے پیچھے ایسے ان مٹ نقوش اور یادیں چھوڑ جاتے ہیں جو رہتی دنیا  کے لئے ایک مشعل راہ اور تا دم قیامت انسانیت کی رہبری کے لئے تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں میں آج کی یہ تحریر ایک عظیم المرتبت،  اسودہ خصائل،  محاسن پیکرِ اخلاق ہستی اور عظیم علمی شخصیت، استاد الاساتذہ اپنے محسن استاد جناب عزت مآب  ہیڈ ماسٹر حافظ علی خان شیروانی صاحب کے نام کرتا ہوں جنہیں سب ایچ اے خان شیروانی کے نام سے جانتے ہیں۔ اگرچہ میرے پاس ان کی شان کے مطابق موزوں ذخیرہ الفاظ نہیں تا ہم پھر بھی ایک کوشش کرتا ہوں گر قبول اُفتدد  زہے۔  ہیڈ ماسٹر حافظ علی خان شیروانی (مرحوم و مغفور) کسی تمہیدی یا تفصیلی تعارف کے محتاج نہیں بلکہ اُن کا نام ہی اُن کا تعارف ہے

 آپ کی اعلیٰ کارکردگی اور حسنِ اخلاق کو مد نظر رکھتے ہوئے حکامِ بالا نے آپ کو ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچیE5 تعینات کر دیا۔ آپ نے فرائض منصبی کو عبادت سمجھ کر پورا کیا۔ اگرچہ آپ کا دولت کدہ مسلم لیگ کوارٹر نزد ناظم آباد چورنگی پر واقع تھا ۔اسکول آنے جانے کے لیے آپ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے تھے یعنی بس روٹ نمبر 4  میں اسکول آتے تھے۔ آپ زیادہ وقت اسکول کی نگہداشت کے لئے اسکول میں گزارتے تھے۔ مجھے اپنی قسمت پر ناز ہے کہ اس عظیم ہستی نے میری تعلیم و تربیت کی ۔آج میں جو کچھ بھی ہوں اللہ تعالی کا فضل و کرم،  ماں باپ کی دعا اور استادوں کی محنت و شفقت کی وجہ سے ہوں۔ میں نے 1982 میں اِس عظیم شخصیت کے زیرِ سایہ میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اُس وقت کے تمام اساتذہ بڑے محنتی اور اپنے پیشے کے ساتھ انتہائی مخلص تھے جن کے اسمائے گرامی سنہرے لفظوں میں صفحہ قرطاس پر لکھے جانے کے قابل ہیں۔ کچھ چیدہ چیدہ اساتذہ درج ذیل ہیں۔

 1- محب اللہ صاحب  (مرحوم و مغفور)

آپ نائب ہیڈ ماسٹر تھے اور ایچ اے خان شیروانی صاحب کے دستِ راست تھے۔ اسکول اور بورڈ کے درمیان گویا برج تھے۔ اپوا اسکول کے تمام دفتری امور و معاملات دیکھتے تھے۔ بہت شفیق اور مدھم آواز کے مالک تھے۔

2- قاری حبیب اللہ صاحب (مرحوم و مغفور)

آپ بھی ایچ اے خان شیروانی صاحب کے نائب اور دستِ راست تھے، شیروانی صاحب کبھی بھی قاری حبیب اللہ صاحب کے بغیر کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیتے تھے۔ آپ اپوا اسکول کی بزمِ فروغِ اسلامیات کے سربراہ تھے۔ نہایت وضع دار، با علم خطیب، اور قادرالکلام صاحبِ تھے۔ اپوا کی تقریباً تمام کلاسسز کو اسلامیات پڑھاتے تھے۔

 

3- انوار صاحب سائنس کے نہایت قابل اور اپنے مضامین کے ماہر استاد تھے۔ آپ نے ہمیں فزکس پڑھائی تھی۔ جبکہ آپ ریاضی میں بھی یکساں طور پہ قابل تھے نہایت شفیق اور دھیمے لہجے بات کرتے تھے ہوم ورک نہ کرنے پہ سزا نہ دیتے تھے بلکہ تنبیہ کر کے چھوڑ دیتے تھے۔

4-  نقوی صاحب (مرحوم و مغفور)

انکا شمار ریاضی کے محنتی استادوں میں ہوتا تھا۔ مزاج کے سخت تھے اور کلاس کے دوران شور و غُل بالکل برداشت نہیں کرتے تھے۔ ذرا تیز تیز سمجھاتے تھے لیکن میتھ جینیئس تھے۔ بفرزون سیکٹر سولہ اے سے آتے تھے۔ میں کالج کے بعد ان سے ملنے اکثر انکی رہائش گاہ پہ جاتا تھا تو آشکار ہوا کہ نہایت شفیق اور مہربان شخصیت کے مالک تھے۔

5- لائق رونق علی صاحب (مرحوم و مغفور)

انہوں نے ہمیں علمِ کیمیا سکھائی۔ آپ انتہائی غریب پرور‘ نرم دل انسان دوست شخصیت کے حامل تھے میرے خیال سے اپوا میں صرف کیمسٹری کے لیے ہی شہرت رکھتے تھے۔ اس وقت سب کہتے تھے کہ جس نے سر لائق رونق علی سے کیمیا پڑھ لی وہ کبھی بھی نہیں بھولے گا۔ اور یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی، جب ہم فرسٹ ائیر میں گئے تو پتہ چلا کہ ہماری بنیادی کیمیا کافی مضبوط ہے۔

6- محترم سر وقار صاحب  (مرحوم و مغفور)

چھوٹے قد اور سفید پینٹ شرٹ میں انکی شخصیت کافی زبردست لگتی تھی۔ آٹھویں جماعت میں سر وقار نے ہمیں انگریزی پڑھائی تھی۔ پی ٹی آئی کے سر خلیل مرحوم سے کافی یارانہ تھا شاگردوں پہ انکا رعب دبدبہ بہت زبردست تھا۔ تمباکو نوشی سے بھی شغف تھا لیکن مجال ہے صاحب کبھی کسی کلاس میں ہم نے تمباکو نوشی کرتے دیکھا ہو۔ شیروانی صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور شیروانی صاحب ہر غیر نصابی پروگرام میں انکے حوالے کوئی نہ کوئی اہم ذمہ داری کرتے تھے۔ بہت جلد 1994 میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

7- محترم سر خلیل صاحب  (مرحوم و مغفور)

میرے اپوا اسکول کی شان تھے فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر سر خلیل صاحب تمام شاگرد انکی پٹائی کے ڈر سے تھر تھر کانپتے تھے۔ روزانہ صبح اسمبلی کرواتے تھے ۔ ان کا فور کے کی مارکیٹ میں چائے کا ہوٹل تھا جہاں اکثر وقار صاحب بھی ہوتے تھے۔ ان کا انتقال بھی غالباً وقار صاحب سے پہلے ہو گیا تھا۔

8- محترم ظہور صاحب  (مرحوم و مغفور)

یہ ریاضی مڈل تک پڑھاتے تھے یہ بھی نرم گرم طبیعت کے مالک تھے تمام بچوں پہ کافی رعب دبدبہ تھا۔ انکا کالا ہنٹر بہت مشہور ہوا کرتا تھا۔ انکا شمار اپوا کے قابل اساتذہ میں ہوتا ہے۔ انکا انتقال فیصل آباد میں ہوا تھا۔

9- محترم ساجد صاحب

 ہم جب سن انیس سو ستتر میں پرائمری سے لوئر سیکنڈری میں گئے یعنی عرفِ عام میں دوپہر سے صبح کے اسکول میں چھٹی جماعت ہشتم الف میں گئے تو ہمارے کلاس ٹیچر ساجد صاحب تھے۔ یہ وہ استاد تھے جنہوں نے ہمیں زندگی میں پہلی دفعہ انگریزی سے روشناس کروایا تھا۔ ہنڈا ففٹی پہ آتے تھے اور نہایت خوش لباس تھے۔ ہمارا جتنا بھی واسطہ پڑا انہیں مخلص و محنتی استاد پایا۔ انہوں نے سرجانی میں ایک اسکول بنایا تھا جہاں ہم تین چار دفعہ گئے تھے۔ اس اسکول میں نہایت کم فیس پہ مستحق بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

 10- محترم بلوچ صاحب

ہم جب ساتویں جماعت ہفتم الف میں گئے تو ہمارے کلاس ٹیچر یہ صاحب تھے۔ تھوڑے سے بچوں سے فری ہو جاتے تھے دوستانہ ماحول میں پڑھاتے تھے۔ معاشرتی علوم اور اردو وغیرہ پڑھاتے تھے کافی اپوا کے بچے انکے گھر پہ ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے جن میں غلام، مسعود، عرفان، مقصود، عامر وغیرہ سر فہرست ہیں۔

11- محترم فاروقی صاحب

یہ نہایت محنتی اور پر خلوص تھے ریاضی اور انگریزی کے علاوہ تمام مضامین پڑھا لیتے تھے۔ گلشن معمار کے نزدیک ہی ایک سوسائٹی میں رہائش پذیر تھے وہیں اکثر ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ 

12- محترم عثمان صاحب

ہمارے ششم الف کے استاد تھے جبکہ افضل (ہمارا ایک کلاس فیلو) کے پھوپھا تھے ۔ ایک شفیق استاد تھے اور اپنے مضمون میں کافی مہارت تھی۔

 13- محترم نثار صاحب

یہ ایک بہترین استاد تھے اردو اسلامیات پہ عبور حاصل تھا اپوا اسکول کی شان تھے۔  غیر نصابی پروگرام اور سرگرمیوں کی تیاری میں قاری حبیب اللہ صاحب (مرحوم و مغفور) کی معاونت کرتے تھے۔

14- محترم اسلم صاحب

نہایت موٹے چشموں کی عینک لگاتے تھے اور اپوا اسکول میں لوئر مڈل کلاسسز کو سائنس پڑھاتے تھے۔ بہت محنتی اور شفیق استاد تھے۔

15- محترم ناصر صاحب

اپوا اسکول کے لمبے چوڑے، نہایت خوبرو اور خوب صورت استاد تھے۔ ایک مخصوص انداز میں چلتے تھے۔ اپنے مضامین پہ عبور حاصل تھا ۔ تھوڑے سے سخت تھے لیکن انکا پڑھایا ہوا آج بھی ہمارے ذہنوں میں ہے۔  سر ناصر سے ملنے اسی سال اپوا کے بے شمار شاگرد انکے گھر پہ گئے تھے۔

16- محترم حفیظ صاحب  (مرحوم و مغفور)

اپوا اسکول کے سائنس لیبارٹری انچارج تھے ہم سب سے چار پانچ سال ہی بڑے ہوں گے اس لیے دوستانہ ماحول میں ہم سب پریکٹیکل کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ہمارے استاد پہلے تھیوری سمجھاتے اس کے بعد پریکٹیکل کرواتے تھے۔ اسی وجہ سے آج بھی فزکس کیمسٹری کے کافی پریکٹیکل اور تھیوری آج تک دماغ میں ہے۔ حفیظ صاحب تمام گروپ لیڈر کو کتاب رکھ کر سامان ایشو کرتے تھے لیکن راقم سے کبھی بھی زر ضمانت کچھ نہیں رکھا۔ بہت نفیس اور شفیق انسان تھے۔

 17- سید حجاب علی

گو کبھی ان سے پڑھا نہیں لیکن یہ ایک نہایت مخلص اور محنتی استاد تھے ہماری برابر والی کلاس میں انکا پیریڈ ہوتا تھا۔ اگر ہماری کلاس کبھی شور کرتی تو کلاس میں آکر سب کو سمجھاتے تھے۔

 18-احسن صاحب یا احسان صاحب

ہماری بہت ہی کم کلا سسز لی ہیں اور یہ مندجہ بالا استادوں کے بعد اپوا اسکول میں آئے تھے ۔ شاید دودھ کا بزنس بھی تھا گرم مزاج طبیعت کے مالک تھے۔

 19- محترمہ شمیمہ عندلیب صاحبہ (شمیمہ انوار)

اپوا اسکول کی تاریخ میں پہلی خاتون استانی جو کہ انیس سو اناسی میں اس اسکول کی زینت بنی۔ ایچ اے خان شیروانی صاحب نے انکی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کو اپوا اسکول کی تنظیم بزم فروغ ادب سونپ دی۔ جس کے تحت  رسالہ خورشید کا اجراء اور غیر نصابی سرگرمیاں شامل ہیں۔ یوں تو ہلا پھلکا غصہ بھی کرتی تھیں لیکن دل سے آپ انتہائی غریب پرور،  نرم دل انسان دوست شخصیت کی حامل تھیں۔ دہم میں ہم نے پورا سال ان سے اردو پڑھی جیسے ہماری کلاس میں داخل ہوتیں سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے تھے اور پورے پیریڈ کے وقت کلاس میں پن ڈراپ سائلینس رہتا تھا۔  مس شمیمہ خوش گفتار، ملنسار، ہمدرد، رحمدل، غم گسار و مونس اور مدد گار خاتون تھیں۔ مس شمیمہ کو اس وقت کی نسل کی تعمیر و ترقی، معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور شاگردوں کی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ مس شمیمہ اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتی تھیں کہ جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑ پودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ اس کی گواہی احمد نواز، سرور ندیم،  نظام، تبسم، مناظر الصدیق، انوار قریشی ، مکرم وغیرہ دے سکتے ہیں۔ ہماری استانی صاحبہ باقاعدہ صاحبِ دیوان شاعرہ ہیں۔

 20- محترمہ بلقیس قریشی (مرحوم و مغفور)

اپوا اسکول میں اردو کی استاد تھیں ہماری بد قسمتی یہ کہ ہم انکے زیر سایہ نہ رہے۔ یہ بھی مس شمیمہ کی طرح غیر نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش تھیں۔ رسالہ خورشید کی انچارج تھیں جبکہ تحسین منظر اور سرور ندیم ایڈیٹر کے فرائض انجام دیتے تھے۔ مس بلقیس کے نزدیک درس و تدریس ایک مقدّس پیشہ ہے، جس کے لیے بے پناہ لگن، صبر و تحمل اور جوش و جذبے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان خصوصیات کے حامل اساتذہ ہی اپنے طلبہ کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتّب کرتے ہیں۔ ایسے معلّمین نہ صرف علم فراہم کرتے ہیں بلکہ طلبہ کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں مہارت کے درجے تک پہنچانے کے لیے ان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔

 21- محترمہ فردوس صمدانی

انکو اپوا اسکول میں لانے کا سہرا مس شمیمہ عندلیب کس ہے۔ بہت کم بولتی تھیں لیکن نہایت خوش مزاج استانی تھیں۔ کلاس میں جیسے قدم رکھتیں تھیں تمام شاگرد خوشی سے جھومنے لگتے۔ آپ بھی تنظیم بزم فروغ ادب کی ممبر تھیں اور تندہی سے خورشید کی اشاعت میں اپنا حصہ ڈالتی تھیں۔ ملیر میں رہائش  پذیر ہیں پچھلے سال ہم کافی سارے طلبہ ان سے ملنے انکے گھر پہ گئے تھے۔

 22- محترمہ مس شہناز صاحبہ

بہت اچھی اور خوش گلو استانی تھیں۔ لوئر مڈل کو اردو معاشرتی علوم وغیرہ کی تعلیم دیتی تھیں۔  مس شمیمہ کے ساتھ بزم فروغ ادب کا کام بھی دیکھتی تھیں۔ مس شہناز ایک شائستہ اور نفیس خاتون تھیں۔

 

استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے ۔ اوپر بیان کردہ بائیس اساتذہ شاید میری زندگی کا کل سرمایہ ہیں۔ یہ استاد ہیں یہ ساری ٹیم ہیڈ ماسٹر ایچ اے خان شیروانی صاحب کے ساتھ قدم ملا کر چلنے والے، انسانیت کی خدمت کرنے والے تھے۔ ان سب نے علمِ نافعِ کو عام کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر رکھا تھا۔  ایسے لوگ ہی ظاہری موت کے بعد حیاتِ جاوداں پاتے ہیں۔  ہر ایک کلاس انچارج کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ اُن کی کلاس کا رزلٹ سو فی صد آئے۔ اکثر و  بیشتر دسویں جماعت کو انگلش اور ریاضی خود ہیڈ ماسٹر صاحب پڑھایا کرتے تھے اور دیگر مضامین پر بھی نظر رکھتے تھے۔

متعدد بار  ایجوکیشن آفیسر کی طرف سے تعریفی اسناد سے بھی نوازا گیا جو بہت بڑا اعزاز ہے۔ آپ انتہائی غریب پرور،  نرم دل انسان دوست شخصیت کے حامل تھے۔ اسٹاف کے ساتھ آپ کا رویہ مخلصانہ اور ہمدردانہ ہوتا تھا مگر ڈسپلن کے مسئلے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ کسی استاد کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ اسکول دیر سے آئے کلاس میں تاخیر سے جائے یا وقت سے پہلے کلاس چھوڑ دی۔ آپ سَروُ جیسے قد آور اور حسین جوان تھے۔ اِس لیے سکول کے اسٹاف اور ہر طالبِ علم پر آپ کا رُعب و دب دبا ہر وقت غالب رہتا تھا ۔ آپ نے نیو کراچی میں لاکھوں علم کی شمعیں روشن کیں۔ اس خطہ فائیو ای  میں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں آپ کا شاگرد نہ ملے۔ آپ کے پڑھائے ہوئے عام پوسٹ سے لیکر اعلی پوسٹ پر آپ کے شاگرد آج بھی فائز ہیں۔  اِس توسط سے ہر ادارے میں ہمیشہ آپ کا نام زندہ رہے گا جو ایک بہت بڑا صدقہ جاریہ اور اعزاز کی بات ہے اللہ تعالی اور رُسول ﷺ کے فرمان کے مطابق نافعِ علم پھیلانا صدقہ جاریہ اور ذریعہ بخشش اور نجات ہے

 آپ علم و فیض بانٹتے بانٹتے   ہاتف کی سدا پر لبیک فرما کر سفر  آخرت اختیار کر گئے۔ اس طرح ایک عظیم علمی شخصیت لاکھوں علم کی شمعیں روشن کرنے کے بعد خود شہر خاموشاں جا کر تنگ وتار کوٹھری اور مُہیب اندھیرے میں مسکن آرا ہو کر آرام کی میٹھی ابدی نیند سو گئی۔

 ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

میرا یقین ہے کہ اللہ تعالی اپنی رحمت کے صدقے اور نبیﷺ کے وسیلے سے ایچ اے خان شیروانی صاحب علمِ نافعِ جو ساری زندگی پھیلاتے رہے صدقہ جاریہ بنا کر اِن کی قبر میں کی روشنی کا سبب اور ذریعہ نجات بنائے گا۔ اللہ میرے حُسنِ ظن کو پورا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔

میری یادیں
جناب مکرم احمد

میں نے اپوا میں اپنے دس بہترین سال گزارے۔ بہت ساری یادیں آج بھی ذہن پہ نقش ہیں۔ اسکول سے ٹُلّا نہیں مارا یعنی اسکول بنک نہیں کیا، سکس کلاس لوئر سیکنڈری میں ایک دفعہ کوشش ضرور کی پچھلے گیٹ سے کسی طرح نکل کر سیکٹر 5 ایل جہاں پہ جھاڑیوں کا راج تھا وہاں سے بے مقصد جا رہے تھے کہ کسی شریف آدمی نے دیکھا بچے جا رہے ہیں اس نے پوچھ گچھ کی تو مانو کہ جسم میں خون نہ ہو اس شریف النفس آدمی نے ہمیں اسی گیٹ سے اندر کیا بھاگ کر کسی طرح سے آکر کلاس میں بیٹھ گئے، اس کے بعد ہمت تو دور کی بات کبھی سوچا بھی نہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ہم سب نے کبھی نہ کبھی خلیل صاحب مرحوم و مغفور (پی ٹی آئی) سے ضرور ڈنڈے کھائے ہوں گے۔ لیٹ آنے پہ، کبھی ہاف ٹائم کے بعد دیر سے آنے پہ، کبھی کلاس میں شور کرنے ہی، کیا ڈنڈے پڑتے تھے بغلوں میں دبا دبا کر سکون ملتا، اور اگر کسی نے گھر جا کر بتا دیا کہ پٹائی ہوئی ہے تو ایک شفٹ دوبارہ گھر پہ لگتی تھی۔ دراصل یہیں سے ہم سب کی تربیت ہوئی تھی، بشیر صاحب نے کہا آپ لوگ بینڈ میں آ جاؤ اگر کبھی دیر سے آؤ گے تو کوئی کچھ نہیں کہے گا میں آپ سے لیٹ آنے کی وجہ پوچھوں گا اس آفر کی وجہ سے کئی لڑکے بینڈ میں چلے گئے تھے، شاید میں نے بھی کوشش کی تھی لیکن گھر سے اجازت نہ ملی۔ کسی بھی استاد کا احترام اس قدر تھا کہ جس راہداری پہ کوئی استاد آ رہا ہوتا کسی کی مجال نہیں کہ اس استاد کو کراس کرے، ادب تہذیب سے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو جاتے تاوقتیکہ استاد گزر نہ جائے، میں نے چھٹی سے دہم تک "اے" سیکشن میں پڑھا، چھٹی میں کلاس ٹیچر ساجد صاحب تھے، بہت نفیس، پیار کرنے والے، مجھے یاد نہیں کہ کبھی انہوں نے کسی کو مارا ہو، وہ انگلش پڑھاتے تھے، انگلش کی بنیادی تعلیم ان سے ہی لی تھی۔  کلاس ہفتم میں کلاس ٹیچر بلوچ صاحب تھے۔ اردو پڑھاتے تھے، کسی کو سزا دینی ہو تو انکا مشہور جملہ تھا " اپنی گردن نپوا"، بہت اچھے محبت کرنے والے تھے، کلاس 8 میں کلاس ٹیچر عثمان صاحب تھے، مزاحیہ سی شخصیت، پیار کرنے والے، ایک کلاس کے ساتھی افضل کا دعوی تھا کہ اس کے پھوپھا ہیں۔ اس لیے شاید ہماری کلاس میں پھوپھا عثمان کے نام سے جانے جاتے تھے، ایک انکا قصہ یاد ہے  کہ ہشتم یعنی 8 ویں میں ہمارا پانچواں اور چھٹا پیریڈ خالی گیا، اس کے بعد اچانک سے عثمان صاحب آ گئے۔ جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئے سب اسٹوڈنٹس کھڑے ہو گئے۔ افضل نے اسی دوران ایک شعر کا پہلا مصرعہ پڑھا کہ " وہ آئے ہمارے گھر میں"   عثمان صاحب اس جملے پہ ناراض ہو کہ چلے گئے اور افضل  بقایا وقت ڈرتا ہی رہا۔ نہم میں دو تین ٹیچر رہیں، سر ناصر، مس شہناز اور مس شاہینہ  بیالوجی کی ٹیچر بھی رہیں۔ سب کے سب قابل اساتذہ تھے۔  اس کے بعد دہم الف میں سر نقوی نے کلاس کا چارج سنبھالا، سر پندرہ دن یا ایک ماہ میں ایک دن ضرور لیٹ آتے اور جب لیٹ آتے تو شیروانی صاحب کے ڈر کی وجہ سے یا کہ کلاسسز مخل نہ ہوں اسکوٹر باہر ہی بند کر دیتے اور سیدھے کلاسں میں آکر پڑھانا شروع کر دیتے، ایک دفعہ انہوں نے کلاس میں لیٹ آتے ہی ایک مشق دوبارہ کروانے لگے، تو مناظر یا کسی اور نے یاد دلایا کہ سر یہ مشق پہلے ہو چکی ہے، کہنے لگے یہ دہرائی ہے۔  اور یوں ہمارا اسکول کا سفر اختتام پذیر ہوا، ہماری الوداعی پارٹی بھی ہوئی تھی لیکن مجھے اس دن سے پہلے بہت تیز بخار تھا اس لیے جا نہ سکا، الوداعی پارٹی کے فورا" بعد اسکول کے کافی دوست مجھ سے ملنے گھر پہ آئے تھے. ہمارا سینٹر سفید اسکول 5 ایف میں تھا ۔مجھے سینٹر چھوڑنے ہمارے ابا آتے تھے، نقل کا تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور سینٹر بھی کافی سخت تھا۔ بہرحال وہ سنہری ماہ و سال بھی گزر گئے۔ ایک اور بات یاد آتی ہے وہ یہ کہ ہمارے گھر میں سب لوگ دس بجے تک سو جایا کرتے تھے، میں اکثر پڑھتے پڑھاتے لیٹ ہو جایا کرتا تھا پتہ نہیں کب نیند آتی، صبح وہی فجر میں اٹھتے، اور فجر کے بعد تو گھر میں ایک ہنگامہ بپا ہوتا۔ ہم 6 بہن بھائی، سب اسکول جانے والے، کوئی ناشتہ کر رہا ہے کوئی بستہ میں کاپیاں کتابیں رکھ رہا ہے، کوئی کچھ، کوئی کچھ، ہم سب ایسے گھر سے نکلتے جیسے بہت ہی جلدی میں ہوں، اور پورے گھر میں صبح کے وقت گھمسان کا منظر ہوتا، لیکن جب ہم ساڑھے بارہ بجے تک گھر میں قدم رکھتے گھر کی ایک ایک چیز اپنی جگہ سلیقہ سے رکھی ہوتی سب کے کپڑے، جوتے، کتابیں پینسل پین وغیرہ، میں سمجھتا ہوں کہ اس میں میری والدہ مرحومہ کا ہی ہاتھ تھا، کام والی کا تصور نہ تھا، سب کچھ امی نے ہی کرنا ہے۔ اپوا کے دس سالوں میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ 2 یا 3 دن سے زیادہ میں نے کبھی چھٹی کی ہو، میری امی کبھی بھی کسی بچہ کو بلا وجہ چھٹی کرنے ہی نہیں دیتی تھیں، بلاوجہ چھٹی پہ فورا" خبر "اوپر" تک پہنچ جاتی اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔

؁١٩٧٩ میں پہلی خاتون استانی مس شمیمہ اس اسکول میں تعینات ہوئیں ۔ اس کے بعد مس فردوس، مس بلقیس ، مس شہناز، مس قمر وغیرہ اپوا اسکول میں پڑھائی کی زینت بنیں۔

آج ہم سب جو کچھ بھی ہیں اللہ تعالی، اپنے اپنے والدین اور اساتذہ کی ہی وجہ سے ہیں، آپ میں سے میرے تمام وہ دوست قابل فخر ہیں جن کے والدین حیات ہیں۔ کمال کے ہوتے ہیں وہ لوگ جو زندگی کے مشکل ترین لمحات کی کڑواہٹ کا مزہ چکھنے کے باوجود بھی خود کڑوے نہیں ہوتے۔ مسکراہٹ سجائے رکھتے ہیں اور شیریں گفتگو کرتے ہیں۔  زندگی انہی لوگوں کی وجہ سے خوبصورت اور رنگین بن جاتی ہے۔ آخر میں اپنے تمام اپوا والوں کے لیے ایک پیغام ہے "زندگی دکھوں اور سکھوں کا مجموعہ ہے کبھی ایک سا موسم نہیں رہتا۔ الله سے دعا ہے کہ ہمیں دکھوں میں ثابت قدم رہنے اور خوشیوں میں شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ پاک  ہمارے ہر غم  کوخوشی, ہر دکھ  کوسُکھ، ہر گناہ  کونیکی میں بدل دے اور ہماری ہر دعا، تمنا و حاجت  پوری فرمائے۔ اور صحت و تندرستی و عافیت و سلامتی عطاء فرمائے۔

آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔


 



[1]  اگرچہ اسکولوں بالکل غلط اصطلاح ہے۔ اس کی جگہ اسکولز ہونا چاہئے تھا۔ لیکن زمانہ حاضر کے قارئین کا اصرار ہے کہ اگر اردو میں اسکول کا لفظ استعمال کریں تو اس کی جمع بھی اردو کے صیغے میں بنائی جائے۔

[2]  ذوالفقار علی بھٹو  نے یکم  جنوری ۱۹۷۲ کو تمام  تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا تھا اور حکومت نے ان اداروں کو چلانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس عمل کو nationalization کہتے ہیں۔ فی زمانہ اس کے برعکس privatization پر زور ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات

  ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات   بہت انتظار کے بعد ڈنکی فلم ریلیز ہو گئی۔ راج کمار ہیرانی کے پرستار بہت عرصے سے اس فلم کا انتظار کر رہے تھے۔ میری اس فلم کے انتظار کی دو وجوہات تھیں، راج کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور فلم کا غیر روایتی موضوع۔ یہاں شاہ رخ خان کا نام نہ لینے پر ان کے پرستار ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی باکس آفس پر کامیاب ترین مگر احمقانہ فلموں پٹھان اور جوان نے کم از کم میرے لئے خان کے جادو کو زائل کر دیا۔ ویسے تو شاہ رخ خان اور راج کمار ہیرانی کی جوڑی سے سب کو ایک شاہ کار کی امیدیں تھیں۔ لیکن بڑی توقعات اکثر بڑی ناکامیوں پر ہی منتج ہوتی ہیں۔   اس فلم کا موضوع بہت اچھا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کی کہانی بھی اچھی ہے۔ فلم کے پہلے حصے میں ہنستے کھیلتے جس طرح فلم کی کہانی بُنی گئی ہے وہ بہت دلکش ہے۔ فلم کے پہلے حصے کا اختتام ایک خود کشی پر ہوتا ہے جس میں ہدایت کار اور اداکار کی پرفارمنس عروج پر ہے۔ لیکن خود کشی کے فوراً بعد ساتھی کرداروں کی تقریریں اور سچویشن سراسر اوور ایکٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم کا دوسرا حصہ اگرچہ نسبتاً بوجھل ہے لیکن راج کمار ہیران

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقریب کے بعد اساتذہ کے