Skip to main content

Hajj travelog - 2018



سفرنامہ حج 2018

اس مضمون کا کوئی ایک رنگ نہیں ۔ یہ ایک سفرنامہ بھی ہے اور ہدایت نامہ بھی۔  کہیں یہ رپورتاژ  بن جاتا ہے تو کہیں ڈائری کا   رُوپ دھار لیتا ہے۔  گرچہ اس کی ایک وجہ میرا خامۂ خام بھی ہے لیکن  کہیں کہیں  اپنی بات سمجھانے  کے لئے جان بوجھ کر بھی اپنا  آہنگ تبدیل کیا ہے۔ اس مضمون میں حج کی قلبی کیفیات کے ذکر سے دانستہ   پہلو تہی کی گئی ہے کیونکہ اس موضوع پر  اس قدر اعلیٰ معیارکی تحاریر موجود ہیں کہ مجھ جیسے نو آموز اس معیار کے قریب پہنچنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ یہاں  صرف ان تجربات کا ذکر کیا ہے جو حج کی بہتر تیاری  میں مدد کر سکتے ہیں اورآپ  کو حج میں ہونے والی متوقع جسمانی محنت کے لئے ذہنی طور پرتیار کر سکتے ہیں۔



میں باتصویر سفرنامہ پڑھنے کے لئے PDF format

اس سفر نامے کی PDF فائل Google Drive پر محفوظ کر دی گئی ہے  جس میں ایسی تصاویر جمع ہیں جو آپ کے حج  تیاری میں مدد کر سکتی ہیں۔ یہاں سے کوئی بھی قاری مندرجہ ذیل لنک سے یہ فائل اپنے فون یا کمپیوٹر پہ محفوظ کرکے، بہتر طریقے سے پڑھ سکتا ہے۔

Download PDF: سفر نامہ حج.pdf


PDF full link: https://drive.google.com/file/d/1cog0FLP6X82l34pKBiy1-1BvyfrcwtDn/view?usp=sharing



 حج بیت اللہ

 

 



 عام عقیدہ ہے کہ حج کی سعادت صرف پیسے  کی فراوانی سے  ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ  حج پر وہی خوش نصیب جاتے ہیں جنہیں اس در سے  بلاوا آتا ہے۔  سینکڑوں  واقعات  سننے کو ملتے ہیں جہاں  لوگ  برسوں دعائیں کرتے رہ جاتے ہیں  لیکن بلاوا نہیں آتا،  کہیں کسی کو آخری لمحوں میں حج کی خوش خبری ملتی ہے اور وہ  دنوں کے اندر حج کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔

 

‘یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے’

 

لیکن  اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حج کے لئے منصوبہ بندی یا تیاری نہ کی جائے۔ حج جس نوع کی اجتماعی عبادت ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر حاجی ذہنی، جسمانی، مالی اور علمی طور پر اس عبادت کے لئے تیار ہو۔  اس مضمون میں اپنی  تیاری اور حج کا تجربہ  پیش کر رہا ہوں۔ یہ  میرے  تجربات ہیں۔ آپ کی تیاری کی بنیاد پر آپ کے تجربات مختلف بھی ہو سکتے  ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ  یہ مضمون  آپ کے حج کی بہتر تیاری  میں مدد دے گا۔

 

2017 میں ایک محفل میں ذکر نکلا کہ  اگلے  دو یا تین سالوں تک حج اگست میں ہوگا جب برطانیہ کے اسکولز میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوں گی۔   اس کے علاوہ اگلے چند برسوں میں حج جولائی اور پھر  جون میں ہوگا جب  سعودی عرب میں گرمی عروج پر ہوگی۔ جن لوگوں کے بچے اسکول یا کالج میں پڑھ رہے ہوں ان کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا کیوں کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت کا  مناسب انتظام کرکے حج کے لئے جا سکتے تھے۔

 

فوری طور پر تو  حج کا ارادہ نہیں بنا لیکن بلاوا آ چکا  تھا۔ کچھ  دن بعد کہیں سے کچھ پیسے آگئےاور  اللّٰہ تعالیٰ نے    دل میں حج کا خیال ڈال دیا۔ بیگم صاحبہ سے بات ہوئی تو وہ مجھ سے زیادہ  حج  کرنے کی خواہش مند نکلیں۔  سو ہم نے اپنا ذہن بنا لیا۔ اللّٰہ تعالیٰ سے  مدد کی دعا کی اور حج کی تیاری شروع کر دی۔

 

پہلا مرحلہ چھٹیوں کی منصوبہ بندی تھی۔ ہم دونوں نے اپنے دفاتر میں چھٹی کی درخواستیں منظور کروائیں۔ دوسرا  سوال تھا کہ بچوں کا کیا انتظام کیا جائے۔ میرے  بڑے بچے  یونیورسٹی میں بھی پڑھ رہے تھے لہٰذا چھوٹے بچوں کو ان کی نگرانی میں گھر پر ہی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ بچوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا اور وہ تین ہفتے  سکون سے  گذار دئیے۔  الحمدلللّٰہ یہ مسئلہ بھی حل ہوا۔

 

اگلا مرحلہ حج آپریٹر کے انتخاب کا تھا۔ حج اگست  2018کے آخری عشرے میں تھا ۔ لیکن میں نے فروری2018 سے حج پیکیج ڈھونڈنا  شروع کردئیے۔ ساتھ ہی انٹرنیٹ  پر حج سے متعلق مضامین   اور بلاگ بھی پڑھنا شروع کر دئیے۔ حج کی تیاری میں دوسرے حجاج کے تجربات پر مشتمل بلاگ بہت کارآمد ثابت ہوئے۔  فروری میں کچھ مشہورحج  آپریٹرز سے رابطہ کیا  تو پتہ چلا کہ وہ  اِس سال کے لئے مکمل طور پربک ہو چکے ہیں۔  اس  سے اندازہ ہوا کہ حج پیکیج خریدنے کی تیاری حج سے آٹھ  یا  دس مہینے پہلے شروع کر دینی چاہئیے۔ اگر آپ حج کی تیاری دیر سے شروع کریں گے تو آپ کے پاس محدود مواقع رہ جائیں گے۔ بہرحال میں نے اپنی تحقیق مکمل کی۔ حج پیکیج کی قیمتیں دیکھیں۔ حج کا سفر کتنے دن کا ہوگا؟ مکۃ المکرمۃ اور مدینۃ المنورۃ میں کتنے دن قیام ہوگا؟ رہائش حرمین سے کتنی دور ہوگی، کس علاقے میں ہو گی اور کس معیار کی ہوگی؟ ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کا کس طرح کا انتظام ہوگا؟  سب معلومات جمع کرنے کے بعد برطانیہ میں اپنے ایک دوست سےمشورہ کیا  جنہوں نے کچھ عرصے پہلے حج کیا تھا۔ ان کی رائے سے  اس ہی حج آپریٹر  کا انتخاب کیا جس کے ساتھ وہ گئے تھے۔

 

حج آپریٹر کو  پیسوں کی ادائیگی کی۔ پاسپورٹس اور دوسری دستاویزات پہنچائیں تاکہ حج ویزا لگوایا جا سکے۔  ضروری ویکسین لگوائی اور سرٹیفیکیٹ حاصل کئے۔ حج سے 15 دن پہلے حج آپریٹر نے ایک حج سیمینار کا اہتمام کیا جو کہ بہت زیادہ مددگار ثابت نہ ہوا۔ جن مولوی صاحب  کو حج لیڈر بنایا گیا تھا وہ حج کی logistics بتانے کے بجائے فضائل و مسائل  بتاتے رہے حالانکہ یہ باتیں انٹرنیٹ، یو ٹیوب ویڈیوز اور کتابوں سے بآسانی مل سکتی تھیں۔ میرے نزدیک زیادہ اہم یہ تھا کہ حجاج کو بتایا جاتا کہ سفر کب اور کیسے ہوگا، سعودیہ میں کیا  کرنا ہوگا وغیرہ ۔  حتٰی کہ گروپ لیڈر اور دوسرے  ذمہ داران کے نام، فون نمبر اور واٹس ایپ معلومات بھی نہیں دی گئیں۔  بہرحال میں نے انٹرنیٹ پر ملنے والی معلومات  کی بنیاد پر تیاری شروع کر دی۔

 

ایک بہت اہم سوال تھا  کہ  کیا سامان لے جایا جائے؟ کون سی چیز حج کے کس مرحلے پر درکار ہو گی؟ یہ معلومات  انٹرنیٹ پر مل گئیں۔ مختلف بلاگز  سے ملنے والی معلومات اور اپنی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے  حج سے دو ہفتے پہلے سامان خریدنا اور پیک کرنا شروع  کر دیا۔

 

ایک بہت اہم تیاری  تھی جسمانی طور پر حج کے لئے تیار ہونا۔ حج کے دنوں میں بہت زیادہ چلنا پڑتا ہے۔ ہم نے حج سے ڈیڑھ، دو مہینے پہلے پیدل چلنے کی مشق شروع کر دی۔  ہم نے آدھے گھنٹے کی چہل قدمی سے شروع کیا اور آخر  تک روزانہ ڈیڑھ گھنٹے کی چہل قدمی کرنے لگے۔ آخری دنوں میں ہم روزانہ   5 سے 6 کلومیٹرز تک پیدل   چلتے تھے۔

 

لیکن حج کی اصل روح تو ادائیگی ارکانِ حج ہے۔ اگر ارکان درست طریقے سے ادا نہ ہوں تو کچھ صورتوں میں تو حج  ہی نہیں ہوتا۔ انٹرنیٹ پر  طریقہ حج  سکھانے کی  بے شمار  ویب سائٹس اور ولاگز موجود ہیں۔ ان میں حج کا طریقہ، مسائل، احتیاط اور مشورے سب ہی مل جاتے ہیں۔ خصوصاً  ولاگز دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے گھر بیٹھے ہی حج کر لیا ہو۔  ہم نے  ان وسائل سے بھرپور استفادہ کیا۔ اسی لئے  جب حج کے لئے پہنچے تو  اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔   حج کی کچھ کتابیں بھی  PDF  کی شکل میں اپنے فون پر محفوظ بھی کر لیں تاکہ  کسی بھی سوال  کا فوری جواب تلاش کیا جا سکے۔   ایک بات یاد رہے کہ حج کے لئے کوئی مخصوص لمبی لمبی دعائیں نہیں ہیں۔   طواف کی ایک چھوٹی سی دعا ہے جو ہم  ویسے بھی اکثر پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ طواف، سعی، مِنٰی، عرفات ہر جگہ اپنی ہی دعائیں کرنی ہیں۔ کسی بھی زبان میں۔ جو دل چاہے۔ جتنا دل چاہے۔  بس دل کی باتیں کرنی ہیں اپنے خالق سے ، اپنے مالک سے ، اپنے اللہ سے۔

 

آخرکار  سفر کا دن آ ہی گیا۔ میری رہائش لندن  Gatwick  ائرپورٹ کے قریب ہے لیکن ہمارے گروپ کی فلائٹس  Heathrow ائرپورٹ سے مڈل ایسٹ ائرلائنز  Middle East Airlines کے ذریعے تھیں۔  اس کا نتیجہ دونوں طرف تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے اضافی ٹیکسی کے سفر اور 125£ پاؤنڈزکے اضافی خرچ کی  صورت میں نکلا۔  اگر مجھے دوبارہ یہ سفر کرنا پڑے تو میں گیٹ وک سے ہیتھرو جانے والی   National Express یا Mega bus کو ترجیح دوں گا۔ ان  کا کرایہ ٹیکسی سے کم ہے  اور وقت تقریباً اتنا ہی لگتا ہے۔

 

ہماری فلائٹ 10 اگست 2018 کو شام آٹھ بجے  ہیتھرو ٹرمینل 3 سے تھی۔  ٹرمینل 3 زیادہ مصروف نہیں تھا. ائرلائن کا زمینی عملہ  بھی اچھا تھا سو آرام سے چیک ان ہو گیا۔ جہاز نسبتاً آرام دہ اور صاف ستھرا تھا۔ عملہ بھی مہذب اور مددگار تھا۔ مڈل ایسٹ ائرلائن کے کھانوں کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔   کھانے کا معیار عمدہ اور مقدار مناسب تھی۔ بیروت تک فلائٹ 4:15 گھنٹے کی تھی جو کہ قابل برداشت تھی۔

 

بیروت ائرپورٹ ایک درمیانے درجے کا ائرپورٹ ہے۔ ائر پورٹ کا پہلا تاثر یہ تھا جیسےوہاں مارشل لاء لگا ہوا ہو۔ بیشتر اہلکار فوجی وردیوں میں ملبوس تھے۔  انداز بھی ویسا ہی کرخت تھا۔  ائرپورٹ دیکھتے ہی  اندازہ  ہوجاتا کہ لوگ زیادہ ہیں اور کام کم۔ ائرپورٹ  خوبصورت مگر دیکھ بھال کا عمومی معیار اور رویہ ترقی پذیر ممالک جیسا ہی تھا۔ امیگریشن کاؤنٹرز کے پاس پرانا ،  ٹوٹا پھوٹا بورڈ پڑا تھا۔ جیسے اس کو پھینکنے کے لئے بھی  محکمہ جاتی  اجازت کا انتظار ہو۔  ویسے بیروت ائرپورٹ کی ڈیوٹی فری شاپ کراچی  ائرپورٹ سے خاصی بہتر تھی اور  دکانوں کا عملہ بہت بہتر۔

 

 ٹرانزٹ فلائٹس لینے کے لئے امیگریشن کنٹرول سے گذرنا پڑتا ہے۔ امیگریشن تو ایک مناسب وقت میں ہوگئی لیکن دستی سامان کی اسکیننگ میں بہت دیر لگی۔ وہاں ایک  چھوٹا سا  اسکینر استعمال ہو رہا تھا جو اہلکاروں سے بھی  زیادہ سست تھا ۔ممکن ہے کہ  سیکیورٹی اہلکاربھی  اسکینر کی سست رفتاری  کی وجہ سے ہی بیزار ہوں۔ اسکینر کے پاس 3 اہلکار کھڑے تھے۔  میں نے اپنا بیگ  اسکینر کی بیلٹ کے پیچھے رولرز  پر رکھا  اور تلاشی کے لئے آگے بڑھ گیا۔  اتنی دیر میں اسکینر بیلٹ پر موجود بیگ  اسکین ہو گئے اور بیلٹ خالی چلتی رہی۔ تینوں اہلکارسکون سے کھڑے رہے اور کسی نے بھی کوشش نہیں کی کہ  رولرز پر موجود بیگز کو   دھکا دے کر بیلٹ پر رکھ دے تاکہ سامان جلدی سے اسکین ہو اور پیچھے بننے والی قطار کم ہو سکے۔ آخرکار ایک  مسافر نے بیگز کو بڑھا  کر بیلٹ پر رکھ دیا اور اسکیننگ کا سلسلہ  دوبارہ جاری ہو گیا۔

 

بیروت ائرپورٹ پر کوئی مسجد نہیں ملی۔ ایک جائے عبادت تھی  جہاں لکڑی کی عارضی دیواریں بنا  کر مردوں اور عورتوں کے مصلّے بنائے گئے تھے۔ کچھ حصہ چرچ کے لئے  مخصوص تھا جسے عربی میں کنیسہ کہتے ہیں۔( لبنان میں مسلم اور غیر مسلم آبادی کی شرح تقریباً  54  اور  46  فیصد ہے)۔ دونوں مصلّے  عارضی  لگ رہے تھے ۔ امید ہے کہ اب مستقل  جائے عبادت بن چکی ہوگی۔ احرام[1]  پہننے کے لئے قریب ہی ٹوائلٹ بلاک تھا جس میں نہانے کا انتظام بھی تھا۔ لیکن  زیادتی  استعمال کی وجہ سے سارے بلاک  کے فرش پر پانی پھیلا تھا  ۔ صفائی اور طہارت کے ساتھ  لباسِ احرام پہننے میں کچھ دشواری ہوئی۔ بہرحال گذارا ہو گیا۔

 

ویسے لباسِ احرام پہننے کا ایک لاجواب طریقہ بیروت، جدہ فلائٹ میں دیکھنے کوملا۔ میرے برابر ایک لبنانی، ثوب پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ عمرہ یا حج  کرنے جا رہا ہے۔  جہاز میں میقات  کا اعلان ہوا تو  اس نے احرام کی چادر  نکالی ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ  اس چھوٹے سے جہاز پر احرام  کیسے باندھے گا؟ اس نے مسکرا کر ثوب کو پاؤں کے پاس سے اونچا کیا۔ جہاں احرام کی چادر بندھی ہوئی تھی۔ میقات سے کچھ پہلے حضرت نے جہاز کی چھوٹی سی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ثوب اتارا اور اوپر احرام کی چادرپہن لی۔ تھوڑی دیر بعد وہ سارے جہاز کے معتمرین کو تلبیہ پڑھا رہے تھے۔

 

جدہ ائرپورٹ پرجہاز ٹرمینل بلڈنگ سے کچھ دور پارک ہوا۔  شٹل بس کے ذریعے مسافروں کو حج ٹرمینل لے جایا گیا۔ سب سے پہلے معتمرین کو ائرکنڈیشنڈ ہال میں بٹھایا گیا جہاں ویکسینیشن  vaccination سرٹیفیکٹ چیک کئے گئے۔ اس وقت وہاں صرف  2 فلائٹس تھیں اور کوئی backlog بھی نہیں تھا لہٰذا سب کو بیٹھنےکی جگہ مل گئی۔ فوری طور پر پانی کی بوتلیں بھی مہیا کر دی گئیں۔ اس کےبعد پورے گروپ کو ایک ساتھ ایک امیگریشن  ہال میں بھیج دیا گیا۔  یہاں پر انتہائی خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا۔ امیگریشن ہال میں الگ الگ امیگریشن ایریا بنے ہوئے تھے۔ ہر ایریا میں ایک وقت میں ایک ہی  گروپ کی امیگریشن کی جا رہی تھی۔  ہمارے گروپ کی امیگریشن بہت جلدی ہو گئی کیونکہ گروپ میں سب سے لمبی قطارصرف 4 یا 5 لوگوں پر مشتمل تھی۔  سامان لینے کے بعد ٹرمینل سے باہر نکلے تو  حکومت کی طرف سے چھتریاں پیش کی جا رہی تھیں۔ دوران ِحج   یہ چھتریاں بہت کام آئیں۔ 

 

میں نے ائرپورٹ سے ہی موبائل فون کی SIM خرید لی۔   حج ٹرمینل بلڈنگ سے نکلتے ہی مختلف موبائل کمپنیز کے اسٹال لگے تھے جہاں نوجوان لڑکے SIM فروخت کر رہے تھے۔ یہاں سے  Mobily کمپنی کی  دو SIMs خریدیں اور ہر SIM  میں  100 ریال کا بیلنس بھی ڈلوایا ۔ جس میں 500 آن نیٹ ورک منٹس، 50 آ ف نیٹ ورک منٹس اور 2 گیگا بائٹس ڈیٹا ملے۔ اگر ویڈیوز نہ دیکھی جائیں اور ویڈیو کالز نہ کی جائیں تو 2 گیگا بائیٹس ڈیٹا   اگلے بیس دن  کے لئے ضرورت سے زیادہ ہے۔ میں نے اس سفر میں 1 گیگا بائٹ سے کم ڈیٹا استعمال کیا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ مکہ مکرمہ  اورمدینہ منورہ میں عمدہ 4G  ڈیٹا سروس میسر تھی جبکہ منٰی، مزدلفہ اور عرفات میں عموماً 3G  ڈیٹا  سروس ملی۔

 

حج ٹرمینل کے باہر بڑی بڑی چھتریاں لگی ہیں جس کی وجہ سے  وہاں  زیادہ گرمی کا احساس نہیں ہوا۔  پینے کے پانی، وضو، اور مصلے کا عمدہ انتظام تھا۔ وہیں ظہر کی نماز ادا کی۔ حج ٹرمینل پر بیٹھنے کا عمدہ انتظام تھا  اور بڑی تعداد میں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ  ریسٹورنٹ بھی موجود تھے جہاں سے کھانا خریدا جا سکتا تھا۔  کچھ دیر بعد ائر کنڈیشنڈ کوچ آ گئی۔  کوچ کے اسٹاف نے خود ہی سامان جمع کیا اور بس میں سامان کے خانوں میں رکھ دیا۔  یہاں ہم سے ہمارے پاسپورٹ لے لئے گئے اور ہمیں ہاتھ پر باندھنے کے لئے شناختی بینڈ دیئے گئے۔ اس دستی بینڈ پر منٰی کا کیمپ کا نمبر اور QR code  بنا ہوتا ہے۔ لہٰذا  اس بینڈ کو منٰی جاتے ہوئے  پہننا زیادہ بہتر ہے۔ منٰی جانے سے پہلے اس بینڈ کا کوئی فائدہ نہیں ۔

 

 کچھ دیر بعد ہم  جدہ سے مکہ   کے لئے روانہ ہو گئے ۔  مکہ  میں داخل ہونے  سے پہلے کوچ  ایک چیکنگ ایریا  میں رکی جہاں سرسری طور پر پاسپورٹ چیک کئے گئے۔ سب معتمرین کو آب ِ زم زم اور کچھ کھانے کی اشیا پیش کی گئیں۔ کچھ دیر بعد کوچ نے ہمیں ہوٹل پہنچا دیا۔ جدہ سے مکہ تک  پہنچنے میں تقریباً  ڈیڑھ  گھنٹہ لگا۔  ہوٹل میں سب سے پہلے مشروبات پیش کئے گئے اور پھر اپنے کمروں میں بھیج دیا گیا۔

 

یہاں ایک تکلیف دہ انکشاف ہوا کہ ہمارے کمرے میں چھے کہ بجائے سات افراد ٹھونس دئیے گئے تھے۔ بد قسمتی سے مکہ میں آخری دن  تک اس صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی اور ہم سات لوگوں کو ایک ہی کمرے میں گذارا کرنا پڑا۔

 

بہرحال  چونکہ ہم حالتِ احرام میں تھے لہٰذا  کمرے میں سامان رکھا اور عمرے کے لئے حرم جانے کا قصد کیا۔ ہمارا ہوٹل  ‘روضہ ‘  ڈسٹرکٹ میں تھا اور حرم سے تقریباً 2.5  کلومیٹر دور تھا۔  ہوٹل نے حرم جانے کے لئے کوچز کا انتظام کیا ہوا تھا جو ہر نماز سے پہلے حرم لے جاتی تھیں اور نماز کے کچھ دیر بعد ہوٹل واپس لے آتی تھیں۔ عموماً لوگ جب حرم جاتے تھے تو ایک سے زیادہ نمازیں پڑھ کر ہی واپس آتے تھے۔ خصوصاً  مغرب اور عشاء  کی نمازیں  ایک ہی چکر میں اداکر لیا کرتے تھے۔

 

بہر کیف! مغرب کی نماز کے وقت ہم حرم پہنچے ۔ نماز اور دعاؤں کے بعد مطاف  (صحنِ کعبہ) میں طواف شروع کیا۔ مطاف میں حسبِ معمول بہت زیادہ ہجوم تھا۔   اگر خانہ کعبہ  میں طواف کے مناظر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ حجر اسود کے سامنے زیادہ ہجوم ہوتا ہے اور  اس کے مخالف سمت حطیم  کی طرف کم۔


  اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ہر شوط  (چکر)  شروع کرنے سے پہلے معتمرین ایک لمحے کو رک کر حجر اسود کی طرف رخ کرتے ہیں اور  (استلام)  اللہ اکبر کہہ کر طواف  جاری رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اس مقام پر رک کر دعائیں کرنے لگتے ہیں  جو یہاں ہجوم کا باعث بنتا ہے۔  دوسری وجہ یہ ہے کہ معتمرین    رکنِ یمانی  سے حطیم  کے درمیان جمع ہوجاتے ہیں، ان مقامات کو بوسہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔  تیسری وجہ یہ ہے کہ معتمرین  حجرِ اسود کے سامنے   سے طواف کے لئے داخل ہوتے ہیں اور طواف ختم ہونے پر وہیں سے  باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  اس طرح وہ  طواف کرنے والوں کے راستے میں  رکاوٹ بنتے  ہیں۔ طواف سے باہر نکلنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ طواف کے اختتام  پرآگے مقامِ ابراہیم کی جانب  چلتے رہیں اور آہستہ آہستہ  مطاف سے باہر نکلیں۔ حجراسود کے سامنے  سے لوگوں کا راستہ کاٹتے ہوئے باہر نہ جائیں۔    

 

ہجوم کی وجہ سے مطاف میں طواف کرنا مشکل ہو رہا تھا۔  ہم تیسرے شوط (چکر) میں  ہجوم میں پھنس گئے۔ سو فیصلہ کیا کہ باقی چکر پہلی منزل پر مکمل کئے جائیں۔  پہلی منزل پر طواف کا فاصلہ خاصا بڑھ جاتا ہے لیکن فائدہ یہ ہے کہ یہ  منزل مکمل طور پر ائر کنڈیشنڈ ہے۔  ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے طواف اتنا بھاری نہیں لگتا اور ہجوم مطاف کی نسبت کم ہوتا ہے۔  لیکن  ایک مسئلہ یہاں بھی ہے۔ پہلی اور دوسری منزل پر پیدل طواف کے علاوہ مقامی لوگ  150 سے 500 ریال کے عوض وہیل چئیر پربھی طواف کرادیتے ہیں۔ ان افراد کی کوشش  ہوتی ہے کہ جلد از جلد طواف مکمل کرائیں اور اگلا گاہک ڈھونڈیں۔  نتیجتاً ہجوم سے نکلنے کی عجلت میں معتمرین کے پیروں سے وہیل چئیر ٹکرا کر ان کے پیروں کو زخمی کردیتے ہیں۔  جب  شکایت کی جائے تو جواب میں حاجی صبر حاجی صبر کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔  لہٰذا طواف کرتے ہوئے پیچھے سے آنے والی    وہیل چئیرز سے محتاط رہیں۔

 

بہرحال! ہم نے پہلی منزل پر طواف مکمل کیا اور اسی منزل پر مقامِ ابراہیم کے پیچھے نوافلِ طواف ادا کئے۔  خوب آبِ زم زم پیا اور سعی کے لئے چل دئیے۔ سعی کے سات چکروں کا فاصلہ تقریباً ساڑھے  چار کلومیٹر ہے۔  ہمارے لئے سعی کرنا ایک چیلنج بن گیا۔ سعی کے پہلے چکر میں ہی تھکن سے پیروں کی حالت خراب ہو گئی۔ پاؤں سوجنے لگے اور تلوےزمین پر رکھنے سے ٹیسیں اٹھنی شروع ہو گئیں۔ بمشکل سعی پوری ہوئی اور ہم سوچنے لگے کہ باقی حج  کیسے مکمل ہو گا؟ نہ صرف ہمارے پیر سُوج گئے بلکہ پیر کی کھال  بھی بری طرح خراب ہو گئی۔ مجھے صحیح طرح اندازہ نہیں لیکن اس کی ایک وجہ  گیلے فرش پر لاکھوں افراد کا  ننگے پیر چلنا  بھی ہو سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے پیروں کی fungus   ایک سے دوسرے پیر تک منتقل ہو سکتی ہے۔  دوسری وجہ، جو کہ  محض ایک اندازہ ہے ،  کہ مسجد الحرام کا فرش دن میں  کئی دفعہ مختلف محلول  (solvent) استعمال کر کے دھویا جاتا ہے۔ ممکن ہے  کہ کچھ لوگوں کی جِلد اس  محلول کو برداشت  نہ کر سکتی ہو اور ان کے پیروں کی کھال خراب ہو جاتی ہو۔ بہرحال  یہ دونوں صرف اندازے ہیں اور ان پر تحقیق کی ضرورت ہے  ۔

 

سعی  کے آغاز میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگ سینڈل اور  چپل پہن کر سعی کر رہے ہیں۔ شروع میں ان کی  یہ ادا اچھی نہ لگی۔ لیکن جب پیروں سے چلنا مشکل ہو گیا تو اس عمل کی افادیت سمجھ آئی۔ بعد میں ہم نے نئی چپلوں کا ایک جوڑا طواف اور سعی کے لئے مختص کر دیا۔  چپلیں پہن کر طواف اور سعی خاصے آسان ہو گئے اور پیروں کے چھالوں  اور سوجن کا مسئلہ حل ہو گیا۔   اگرچہ  یہ چپلیں نئی اور پاک صاف تھیں لیکن چپل پہن کر مطاف میں جانے کے لئے دل نہیں مانا۔ لہٰذا حج میں باقی تمام طواف  چھت پر کئے۔  مسجد کی چھت کے فرش  پر ٹائلز نہیں لگے ۔یہاں پر حرم کا عملہ جوتے پہن کر چلتا ہے۔ اور معتمرین کو  بھی چپل پہن کر چلنے کا مشورہ دیتا ہے۔  اس کے علاوہ مسجد کے  اندر تمام ایسکیلیٹرز  (escalators) پر بھی جوتے یا چپل پہن کر سوار ہونے کی ہدایات لگی ہوئی ہیں۔  یہاں میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ ننگے پیر طواف کا رواج بہت پرانا نہیں ہے۔ بلکہ خانہ کعبہ میں ماربل کا فرش بننے سے  پہلے لوگ چپل یا جوتے پہن کر طواف  کرتے تھے۔  حجۃ الوداع میں نبی پاک ﷺ نے اونٹنی پر بیٹھ کر طواف ادا فرمایا۔ ویسے بھی  مسعٰی (صفا اور مروہ) تو حرم سے باہر تھے وہاں تو چپل پہننا کسی بھی طرح معیوب نہیں تھا۔

 

 ایک سوال جو حجاج کو بہت پریشان رکھتا ہے کہ احرام کی حالت میں کس طرح کی چپل پہننا جائز ہے۔ تمام علماء ہوائی چپل کو  جائز قرار دیتے ہیں۔ کچھ علماء سینڈل کو بھی جائز قرار دیتے  ہیں  کیونکہ یہ زیادہ محفوظ اور آرام دہ ہوتے ہیں۔  اگر آپ ان  علماء کے اجتہاد سے مطمئن ہوں تو  احرام کی حالت میں سینڈل  کو ترجیح دیں۔ اگر  حالتِ احرام میں  ہوائی چپل پہنیں  تب بھی احرام  اتارنے کے بعد سینڈل استعمال کریں۔  کوشش کریں کہ حج کے دوران بند جوتے نہ پہنیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔  

۱۔ حج کے دوران پیر سُوجنا  ایک عام بات ہے۔ اس صورت میں عام جوتے پہننا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن سینڈل کے پٹے (straps) کا سائز تبدیل کر کے اسے پہننا آسان ہو جاتاہے۔ 
۲۔  بار بار  وضو کے لئے جوتے  اتارنا اور پہننا مشکل  امرہے
۳۔ وضو کے بعد گیلے پیروں پر موزے اور جوتے  پہننے سے پیروں میں    fungus ہونے کا امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

 

ہم رات گئے عمرے سے فارغ ہوئے۔ حرم کے سامنے ہی کلاک ٹاور کے نیچے درجنوں سالون (salon)  ہیں جہاں بال کٹوائے جا سکتے ہیں۔میں نے ایک دکان سے 10 ریال دے کر قصر کرایا یعنی بال بہت چھوٹے کروائے ۔ ویسے بھی چند دن بعد حج میں تو حلق یعنی سر منڈوانا ہی تھا۔   اس وقت تک پیروں کی حالت خراب ہو چکی تھی ۔ اور ہوٹل تک مزید 2.5 کلومیٹر چلنے کی سکت نہیں تھی لہٰذا حرم سے واپسی کے لئے ٹیکسی لی۔   ٹیکسی ڈرائیور عربی بول رہا تھا۔ اس نے اتنے کم فاصلے کے لئے 50 ریال مانگے اور 30 ریال میں  راضی ہو گیا۔ لیکن وہ ہوٹل  سے واقف نہیں تھا ۔ اس نے راستہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہمیں ہوٹل پہنچایا ۔  میں نے اسے 100 ریال  کا نوٹ دیا۔ اس نے بہت ساری عربی بولنا  شروع  کردی۔ 30 کے بجائے 40 ریال کاٹے۔اور  اس سے پہلے کہ میں بقایا گن سکوں،  اڑن چھو ہو گیا۔ بعد کے تجربوں سےپتہ چلا کہ اردو بولنے والے ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنا چاہئے۔ ان سے  بھاؤ تاؤ کرنا آسان ہوتا ہے اور اگر آرام سے بات کی جائے تو وہ مناسب پیسوں پر راضی بھی ہو جاتے ہیں۔  بعد میں یہی سفر ہم نے 5 ریال فی مسافر کے حساب سے بھی کیا اور اس ہی فاصلے کے لئے  15 سے 20 ریال  میں پوری ٹیکسی بھی  کرائے پر لی۔


اگلے دن پہلی ذی الحج تھی۔  مکہ میں موسم خوشگوار تھا۔ لیکن   پچھلے 24 گھنٹے کے مستقل سفر اور پرتکان  عمرے کے باعث ہم نے  تھوڑا سا آرام کرنے کا فیصلہ کیا ۔ فجر اور ظہر کی نمازیں ہوٹل میں ہی ادا کیں۔ تمام ہی   حج پیکیجز میں کھانا   شامل ہوتا ہے۔ ہمارے  ہوٹل میں کھانے اور چائے کا عمدہ انتظام تھا۔  کھانے کے تو مقررہ اوقات تھے۔لیکن چائے کے سماوار ہمہ وقت تیار رہتے۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد وقت بے وقت evaporated milk  والی چائے تازہ دم کر دیا کرتی۔

دوپہر کےکھانے کے بعد  گرما گرم، دودھ پتی جیسی چائے   پی کر سستی دور کی۔ اور نماز عصر کے لئے حرم روانہ ہو گئے۔  نماز عصر و مغرب حرم میں ادا کیں ۔ یہ ایک پرکیف تجربہ تھا۔ ایک نماز کے بعد  دوسری نماز کا انتظار،  جس کے درمیان تمام دنیاوی معاملات سے بےفکری،  اس نعمت پر اللہ تعالیٰ سے ممنویت اور احساسِ شکر  ، خود بخود دل سے جاری ہونے والی عبادت،  اور پھر بھی کچھ وقت بچ جائے تو  دیدارِ کعبہ  میں محویت۔   بعد از مغرب ‘جدید حج’ کا لازمی رکن ‘طعام البیک’ ادا کیا  (آسان الفاظ میں ۔۔۔البیک کا برگر کھایا) ۔ یہاں ایک  چھوٹا سا مسئلہ ہوگیا۔ مغرب کی نماز کے بعد حجاج اور  مقامی بڑی تعداد میں حرم میں نماز ادا کرنے آتے ہیں۔ مشرقِ بعید کے حجاج بھی عموماً رات کو طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ مغرب سے عشاء کے درمیان بہت کم وقفہ ہوتا ہے۔  ان تمام وجوہات کی بناء پر جب ہم کھانا کھا کر واپس آئے تو حرم میں اتنا ہجوم تھا کہ اندر بھی نہ جا سکے۔ نمازِ عشاء کے  بعد حرم سے ہوٹل تک پیدل سفر کیا۔  ہوٹل پہنچے تو رات کا ایک بج رہاتھا۔

مشورہ:   دوران حج، مسجدالحرام میں  مغرب اور عشاء کی نمازوں میں بے تحاشا لوگ ہوتے ہیں۔ اور جیسے جیسے حج قریب آتا ہے لوگ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ مسجد،  نمازِ مغرب سے کچھ پہلے ہی بھر جاتی ہے اور مسجد کے دروازے عارضی رکاوٹیں لگا کر بند کر دئیے جاتے ہیں ۔  لہٰذا بے شمار افراد مسجدالحرام کے باہر، چاروں اطراف میں نماز ادا کرتے ہیں۔ مسجد الحرام کی وضو گاہیں  بھی ان صحنوں میں بنی ہوئی ہیں۔  جب ہجوم بڑھ جائے تو نماز سے 15 یا 20 منٹس پہلے یہ وضو گاہیں بند کردی جاتی ہیں۔  کوشش کریں کہ ان کے بند ہونے سے پہلے ہی وضو وغیرہ  سے فارغ ہو جائیں۔  اگر آپ حرم کے اندر ہوں تو مغرب اور عشاء کی نماز یں پڑھنے  کے بعد ہی باہر آئیں ۔  مغرب  اور عشاء کے درمیان کھانا کھانے کے لئے کافی وقت  نہیں ملتا۔ بہتر ہے کہ کھانا عشاء کے بعد ہی کھائیں۔

 

۲ ذی الحج۔ اگلے دن موسم نسبتاً گرم تھا اور درجہ حرارت 43  ڈگری تک چلا گیا تھا۔ بہرحال وہاں کے لحاظ سے بہتر تھا۔ نمازِ فجر مقامی مسجد  ’مسجد الامیرہ منیرہ‘(Princes Munira Mosque) میں ادا کی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے پاکستان میں کوئی مسجد کسی موجودہ زمانے کی خاتون کے نام سے  دیکھی ہو۔  مسجد مکمل طور پر بھری ہوئی تھی۔ جو لوگ نماز سے کچھ ہی قبل پہنچے انہیں مسجد میں جگہ نہ مل سکی۔  جیسے جیسے حج قریب آتا گیا مسجد میں ہجوم بڑھتا گیا۔ بعد میں ہمارے گروپ نے ، جب ہوٹل میں ہوتے، تو ہوٹل کی مسجد میں ہی نماز ادا کرنی شروع کر دی ۔  ہر نماز سے  کچھ پہلے  بچے اور خواتین مسجد کے باہر فٹ پاتھ پر چادریں بچھا کر عبایہ، حجاب اور اسی انواع کی سستی اشیاء بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی قسمت کا رزق  ہزاروں میل دور سے ،حجاج کرام کے ذریعے  سے انہیں ڈھونڈتا ہوا   ان تک  پہنچ  جاتا ہے۔

 

نماز کے بعد کچھ دیر آرام کیا۔  آج کپڑے دھونے کا ارادہ تھا ۔ ویسے تو مقامی لانڈری سے کپڑے 15  سے 20 ریال فی جوڑا  دھلوائے جا سکتے  ہیں۔ لیکن اس قیمت میں تو نئے  disposable کپڑے  بھی خرید ے جا سکتے ہیں۔ کئی ہوٹلز مسافروں کے غسل خانہ میں کپڑے دھونے پر اعتراض نہیں کرتے ۔ کچھ ہوٹلز کی چھت پر کپڑے سکھانے کے لئے اچھا خاصا انتظام ہوتا ہے۔  ہمارے ہوٹل کی چھت پر واشنگ مشین موجود تھی جس کا ہم نے خوب فائدہ اٹھایا اور آسانی سے کپڑے دھو لئے۔ اور وہاں موجود الگنی پر کچھ ہی دیر میں کپڑے سوکھ گئے۔

 

حج کی مخصوص عبادتیں 8 ذی الحجۃ سے شروع ہوتی ہیں۔  اس سے پہلے جتنے طواف، اور عمرے کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ وگرنہ کوئی لازمی رکن یا عباد ت نہیں ہے۔اگر آپ حج تمتع کر رہے ہوں تو  لازمی ارکان یہ ہیں۔

·        مکہ آمد ۔ عمرہ (طواف، سعی، اور حلق یا قصر)

·        7ذی الحجۃ ۔  شام کو منیٰ روانگی اور منیٰ میں قیام

·        8ذی الحجۃ ۔ منیٰ میں قیام

·        9  ذی الحجۃ ۔وقوفِ عرفات اور مزدلفہ میں قیام

·        10 ذی الحجۃ ۔منیٰ واپسی ،  رمی، قربانی، ختم احرام،  
طوافِ زیارت کعبہ(۱۱ اور ۱۲ کو بھی کر سکتے ہیں)، منیٰ واپسی

·        11 ذی الحجۃ ۔ رمی، قیام منیٰ

·        12 ذی الحجۃ ۔ رمی اور مکہ واپسی

·        مکہ سے رخصت ۔ طوافِ وداع

 

چونکہ8 ذی الحج تک کوئی خصوصی عبادت نہیں تھی۔لہٰذا ہم حرم جاتے، نمازیں ادا کرتے،  دعائیں کرتے، اور طواف کرتے رہے۔ کوئی اضافی عمرہ کرنا ہے تو  مسجدِ جعرانہ  یا مسجدِ عائشہ (آپ جس فتوے پر عمل کرنا چاہیں)جاکر احرام  باندھے اور عمرہ ادا کر لے۔ ہم نے اضافی عمرہ نہیں کیا کیونکہ ہم اپنی توانائی ایامِ حج کے لئے بچانا چاہتے تھے۔ 

 

۳    سے ۷ ذی الحج ۔  نمازِ فجر حرم میں ادا کی۔ باہر جا کے ناشتہ کیا۔ اور پہلی بار حرم کی چھت  پر طواف کرنے کا ارادہ کیا ۔ صبح ساڑھے سات بجے موسم خوشگوار تھا۔ حرم کی چھت تقریباً خالی تھی۔ ہم نے 50 منٹ میں باآسانی طواف مکمل کرلیا۔ مکمل طواف کا فاصلہ 3.68 کلومیٹر بنا جو کہ ایک صحت مند انسان کے لئے بہت زیادہ نہیں۔ حرم کی چھت پر طواف  کا فاصلہ، مطاف میں طواف سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن چھت پر ہجوم نہ ہونے کی وجہ سے  فطری رفتار سے پیدل چلنا ممکن ہو جاتا ہے۔ مطاف میں ہجوم کی وجہ سے  چلنے کی رفتار  بہت کم ہوتی ہے۔اس ہی وجہ سے چھت پر اور مطاف میں طواف کرنے پر تقریباً ایک جتنا وقت ہی صرف ہوتا ہے۔  اس تجربے کے بعد ہم نے بقیہ تمام طواف حرم کی چھت پر ہی کئے۔

 

حجاج   عموماً حرم کے سیکیورٹی اسٹاف (شرطہ) کے سخت رویّے کے شاکی ہوتے ہیں ۔ میں  80، 90، 2000 اور 2010 کی دہائیوں میں حرم کی زیارت کا شرف حاصل کر چکا ہوں۔ دو دہائیاں قبل  تک حرم  کے عملے کا دنیا سے اس طرح کا  رابطہ نہیں تھا جس طرح آج کل ہے۔ وہ  صرف عربی بولتے اور سمجھتے تھے ۔ انہیں کبھی بھی   آج کل کی سیاحتی مزاج کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔  ان  کا خیال تھا کہ وہ حرم میں  خدمات کے لئے نہیں بلکہ نفاذِ قانون کے لئے آئے ہیں۔  لیکن وقت کے ساتھ  حرمین میں کام کرنے والوں کی تعداد اور سہولیات سینکڑوں گنا بڑھ گئی ہیں۔ حرمین  دنیا کی آرام دہ ترین عمارتوں  میں شامل ہوگئے ہیں جس سے کام کرنے والوں کے مزاج میں بھی فرق پڑا ہے۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ   اب حرمین میں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ عملے کو تعینات کیا جاتا ہے۔ ماضی کے برعکس شُرطوں کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے بہت سے  چھٹیوں کے دوران کالج اور یونیورسٹیز سے آئے ہوئے تھے اورعارضی طور پر یہ ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ ان کا رویّہ ماضی کے شُرطوں کی نسبت خاصا نرم اور دوستانہ تھا۔  اگر ان سے مسکرا کر، آرام سے بات کی جائے تو یہ حاجیوں کی حتی الامکان مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی  لوگ تھوڑی بہت انگریزی بھی  سمجھ لیتے ہیں۔  لہٰذا  ان سے بات چیت بھی ہو سکتی ہے۔ ایک  مثال دیتا ہوں  کہ میں نے مکۃ المکرمہ سے غطرہ خریدا اور حرم میں ایک شرطہ سے کہا کہ وہ مجھے غطرہ پہننا سکھا دے۔ اس نے انتہائی خوشی سے مجھے غطرہ پہنایا اور اس کا طریقہ بھی سکھایا۔ اس کے  بعد میرے پیچھے  پڑ کر میرا موبائل فون لیا اور زبردستی میری تصویریں بنائیں۔ میں نے منع کیا  کہ میں حرم میں تصویر نہیں بنانا چاہتا ۔ پھر بھی اس نے مجھے حرم کے دروازے کے پاس کھڑا کر کے کئی تصویریں بنائیں۔  مجھے یاد ہے کہ 90 کی دہائی تک تو  حرم کی حدود میں کیمرا لے جانے کا تصور ہی محال تھا۔ اگر کیمرا پکڑا جاتا تو شرطے کیمرا توڑ دیا کرتے تھے۔  آج تو حالت  یہ ہے کہ

حرم کی سیکیورٹی   والے بھی موبائل فون میں لگے ہوتے ہیں ۔ کئی دفعہ وہ لوگ فون پر اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں خبر ہی نہیں ہو تی کہ سامنے سے کون گذر گیا۔

 

پچھلے چند برسوں  میں مسجد الحرام کے حفاظتی اقدامات میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ چند سال پہلے حرم میں کسی بھی قسم کا بیگ لے جانا منع تھا ۔ اب ایک مناسب سائز کا  بیگ ( ruck sack)  لے جانے کی اجازت ہے۔اس میں ضرورت کا سامان اور جوتے رکھ کر مسجد میں لے جائے جا سکتے ہیں۔ اس سہولت کا فائدہ وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے برسوں پہلے حج کیا ہو۔ پہلے مسجد میں سامان لے جانے کی اجازت نہیں تھی ۔  جوتے، چپل    یا تو حرم کے باہر ریک پر رکھ کر جاتے یا اندر  موجود ریکس پر رکھ دئیے جاتے۔

اب اس میں دو  مشکلات ہوتی تھیں. ایک تو یہ کہ آپ جس دروازے  پر جوتے چپل چھوڑ کر اندر آتے تھے اس ہی دروازے سے  واپس جانا پڑتا تھا۔ چاہے واپسی میں مسجد کی دوسری طرف  ہی جانا ہو ۔  چپلیں ساتھ رکھنے کی وجہ سے  اس زحمت  کا خاتمہ ہو گیا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ کئی دفعہ  لوگ  بھول جاتے تھے کہ انہوں نے اپنی چپل کہاں رکھی ہے۔  ایسی صورت میں نیک طینت لوگ تو  تپتی زمین پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے نئی چپلیں خریدنے  کے لئے بھاگتے۔ لیکن کچھ   ڈیڑھ ہوشیار دوسروں کی چپل پہن  کر نکل جاتے۔شکر ہے کہ اب اس مشکل کا خاتمہ ہو گیا ہے۔   بیگ لے جانے کی سہولت کا استعمال ہم نے  اس طرح کیا کہ ہم مسجد پہنچ کر اپنے جوتے بیگ میں رکھ لیتے اور مسجد کے لئے مختص چپل  پہن لیتے۔

 

اس ہی طرح دوسری سہولت مسجد میں موبائل فون لے جانے کی اجازت ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے   اپنے گروپ سے بچھڑنے ، ہوٹل کا راستہ بھولنے کے واقعا ت بہت کم ہو گئے ہیں۔ مسجد نبوی میں خواتین اور مردوں کے لئے الگ  حصے ہیں۔ وہاں  موبائل فون ایک بہت بڑی نعمت محسوس ہوتا ہے۔  کیونکہ آپ اپنی بیگم سے رابطہ کر کے ان سے مسجد سے باہر آنے یا مسجد سے باہر ملنے کا مقام طے کر سکتے ہیں۔ لیکن مسجد میں موبائل فون کیمرے  کا استعمال؟ اس پر کیا  تبصرہ کریں.

‘ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے’  

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا  کہ حرم کے حفاظتی عملہ کا رویہ خاصا دوستانہ ہے  لیکن بعض معاملات میں انہیں سختی بھی کرنی پڑتی ہے اور ان کے سخت رویے کا سبب حجاج کرام کی اپنی حرکتیں ہوتی ہیں۔ مسجد حرام میں وسیع و عریض راہداریاں بنی ہیں جس  کا مقصد لاکھوں نمازیوں کو بآسانی مسجد میں آنے جانے کے  راستے فراہم کرنا ہے۔ مسجد کا عملہ ہمہ وقت کوشش کرتا ہے کہ لوگ راہداریوں میں بیٹھ کر راستہ تنگ نہ کریں۔ لیکن لوگ اتنی وسیع راہداری دیکھ کر شاید یہ سوچتے ہیں کہ 'میرے  بیٹھنے سے اتنے بڑے راستے پرکیا  اثر پڑ سکتا ہے' اور  پھر ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا۔ اس طرح راستے میں صفیں بنتی چلی جاتی ہیں جو کہ راستوں میں رکاوٹ کا باعث بنتی  ہیں۔ مسجد کا عملہ ان  لوگوںکو   'طریق طریق، حاجی طریق' (راستہ) کہہ کر ہٹاتا نظر آتا ہے۔ بیشتر لوگ  اپنی غلطی محسوس کرکے فوراً ہی اٹھ جاتے ہیں لیکن کچھ  وہاں سے اٹھنے میں پس و پیش کرتے ہیں جس پر مسجد کا عملہ ان سے سختی سے پیش آتا ہے۔  پھریہی  لوگ عملے  کی سختی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔  وہاں جانے سے پہلے ایک اور لفظ 'حرِّک' (move) بھی یاد کر لیں جو کہ آپ اکثر مسجد کے عملے سےسنیں گے۔

 

گرچہ مجھے حجاج کی تربیت اور ان کے رویوں سے خاصی شکایتیں ہیں لیکن پچھلے 35 سال میں کئی دفعہ حرم میں حاضری کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ آہستہ آہستہ لوگوں کی تربیت ہو رہی ہے۔ ضرورت سے کم ہے لیکن  پھر بھی آج کے حجاج مجموعی طور پر 35 سال پہلے کے حجاج سے  بہترلگتے  ہیں۔

  

مسجد الحرام میں ملک عبداللّٰہ کا توسیعی منصوبہ جاری ہے۔ یہ سعودی حکومت کی طرف سے حرم کی تیسری توسیع ہے جس سے حرم کی گنجائش دوگنے سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ اس مضمون میں اس توسیع کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر موقعہ ملے تو وہاں جانے سے پہلے اس موضوع پر انٹرنیٹ پر موجود دستاویزی فلمز ضرور دیکھیں۔

 

مسجد الحرام کے اطراف میں پرانی عمارتیں،  اس زمانے کے رواج کے مطابق، شہری منصوبہ بندی کے بغیر بنی تھیں، جس کی وجہ سے اس علاقے  میں جدید سہولیات کی فراہمی ایک مشکل امر تھا۔ سعودی حکومت آہستہ آہستہ پرانی عمارتوں کو نئی کثیر المنزلہ عمارتوں سے بدل رہی ہے۔ اس کی مثال کلاک ٹاور کی عمارت ہے۔ پرانی دکانیں  اور ریستوران،  ان عمارتوں میں بنے شاپنگ پلازا اور فوڈ کورٹس میں منتقل ہوتے جا رہے ہیں جو نہ صرف زیادہ  جدید اور صاف ستھرے  نظر آتے ہیں بلکہ ان کے  لئے حرم سے زیادہ دور بھی نہیں جانا پڑتا۔سنہ 2000 میں جب میں عمرے  کے لئے گیا تو ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرا  تھا۔ اس کی جگہ  آج کلاک ٹاور  جیسی پرشکوہ عمارت کھڑی ہے ۔

 

6 ذی الحج۔ جمعۃ المبارک۔ اس حج کے دوران آج پہلا جمعہ تھا۔ ہمارے حج کے  ایک ساتھی نے کچھ معلومات حاصل کر رکھی تھی ۔ انہوں نے مشورہ دیا  کہ خواتین   ہوٹل  کی مسجد میں نماز پڑھیں۔  حج کے دنوں میں جمعہ کے دن صبح  ہی سے حرم کی طرف جانے والے راستے گاڑیوں کے لئے بند کردیئے جاتے ہیں  لہٰذا پیدل جانا اور آنا پڑے گا۔ انہوں نے صبح نو بجے ہی مجھے مسجد الحرام چلنے کا حکم دے دیا۔ ہم دس بجے کے قریب مسجد الحرام پہنچ گئے اور نماز جمعہ کا انتظار کرنے لگے۔ دس بجے سے ایک بجے تک  میرے جیسے گنہگار کتنی عبادت کرسکتے ہیں؟  بارہ بجے کے قریب میں اونگھنے لگا۔ کچھ دیر بعد دیکھا تو میرے ساتھی کا بھی یہ حال تھا۔ اب مسئلہ یہ کہ نماز سے پہلے وضو کیسے کریں؟  مسجد مکمل طور پر بھر چکی تھی۔ اگر باہر نکلتے تو واپس  آنے کے اجازت نہیں ملتی۔   بڑی مشکل سے حرم کے اندر، تہہ خانے میں ایک وضو کی جگہ تلاش کی۔ وضو کر کے نمازِ جمعہ ادا کی۔ واپسی میں شدید گرمی  اور دھوپ میں پیدل  ہوٹل آنا تھا۔  راستے میں جگہ جگہ  پانی کی بھری ہوئی بوتلیں پڑی تھیں۔ میں نے وہ بوتلیں اٹھائیں اور اپنے اوپر پانی چھڑکتا ہوا  ہوٹل واپس پہنچ گیا۔

 

حج کے دنوں میں حکومت جس طرح  حجاج میں پانی کی بوتلیں تقسیم  کرتی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس  سخاوت  میں مقامی بھی حکومت سے  کسی طرح کم نہیں ہیں۔  جگہ جگہ کھانا اور پانی کی بوتلیں تقسیم ہو رہی ہوتی ہیں۔ سڑک پر  گذرتی گاڑیاں  آہستہ ہوتی ہیں اور ڈرائیوز، پیدل چلنے والوں کی طرف ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اچھالتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کو راستوں میں مہر بند  پانی کی بوتلیں پڑی ملیں گی جو  راہگیر پکڑ نہیں سکے اور انہوں نے  بعد میں اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ حج کے دنوں میں صرف مقامی افراد ہی نہیں بلکہ کاروباری ادارے بھی اس کارِخیر میں حصہ لیتے ہیں۔ وہاں ایک سپر اسٹور قلعہ مستہلکسے خریداری کی تو انہوں نے اپنی بیکری کے بنے ہوئے تازہ بریڈ رولز کے پیسے نہیں لگائے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ حج کے دوران بریڈ رولز مفت دیے جاتے ہیں۔


 

منیٰ

اتوار  19 اگست 2018

ہمارا ہوٹل منٰی کی حدود یعنی جمرات سے ڈیڑھ کلومیٹر اور  منیٰ میں ہمارے کیمپ 50 سے تقریباً چھے کلومیٹر کے فاصلے پرتھا۔  منٰی کے قیام کی شرائط میں آٹھ ذی الحج کو وہاں پہنچنا اور پانچ نمازیں (ظہر سے اگلی فجر) ادا کرنا افضل ہے۔  ہمارے حج آپریٹر نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم سب سات ذی الحج کو ہی منٰی چلے جائیں کیونکہ آٹھ تاریخ سے اس علاقے میں ٹریفک بند ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اگلے چار دن سوائے مخصوص گاڑیوں کے کوئی سواری منٰی میں داخل نہیں ہو سکتی۔ ان کا مشورہ صائب تھا لہٰذا کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا اور سات تاریخ کی شام کو  لباسِ احرام پہن لیا۔ انہوں نے ہمیں منٰی کیمپ تک پہنچانے کے لئے نجی بس کا انتظام کیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے حجاج کو ہوٹل سے پیدل منٰی جانے کی بھی ترغیب دی۔ کئی پرجوش حجاج نے ان کی پیشکش قبول کر لی اور عشاء کے بعد منٰی کے لئے پیدل ہی روانہ ہو گئے۔ ہم نے بس کے انتظار کو ترجیح دی۔ رات کو تین بجے  کے قریب بس آئی اور تقریباً چالیس منٹس میں ہمیں منٰی میں ہمارے کیمپ تک پہنچا دیا۔  وہاں پہنچ کر ان ساتھیوں سے ملاقات ہوئی جو پیدل یہاں تک پہنچے تھے اورڈھائی گھنٹے تک پیدل چلنے کے بعد  تھکے تھکے نظر آ رہے  تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا پیدل قافلہ منٰی کے اس راستے کے اوّلین قافلوں میں شامل تھا لہٰذا ان کو سڑکوں پر زیادہ بھیڑ نہیں ملی۔ اس کے باوجود بھی انہیں  یہاں پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے سے زیادہ لگ گئے۔ اگر وہ کچھ اور دیر سے نکلتے تو وقت اور محنت بڑھنے کے امکانات تھے۔

مشورہ: اگر آپ  کا ہوٹل منٰی کیمپ سے چار کلومیٹر سے زیادہ دور ہے،  اور آپ کے حج آپریٹر نے ہوٹل سے منٰی جانے کے لئے  سواری کا انتظام کیا ہے تو سواری  کا استعمال بہتر ہے۔ 

 

منٰی کا کیمپ 50 جو کہ یوروپین افراد کے لئے ہے، مکہ اور جمرات سے خاصی دور ہے بلکہ یوں کہئے کہ منٰی کے آخر میں واقع ہے۔ یہاں پر اسٹیل کے بڑے بڑے ڈھانچے بنے ہیں۔ جن کے اوپر  کئی مخروطی چھتیں بنی ہوئی ہیں۔ اسٹیل کے ڈھانچوں کو ،پردوں کی مدد سے، ضرورت کے مطابق چھوٹے یعنی ایک چھت، یا بڑے یعنی دو، چار چھتوں کے سائز کے کمروں/ ہال میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

 

یہاںVIP (ممیّز) خیمے ائرکنڈیشنڈ ہیں اور باقی میں ائر کولرز لگے ہیں۔ رات یا صبح کے اوقات میں تو ائر کولرز کی کارکردگی کسی حد تک بہتر  ہوتی ہے۔ مگر دن کے وقت ان سے کچھ زیادہ راحت کی توقع  نہ رکھیں ۔ ممیّز خیمے زیادہ مہنگے پیکیجز میں شامل ہوتے ہیںَ۔ ان میں زیادہ آسائشیں ہوتی ہوتی ہیں۔ مثلاً کھانے کے لئے الگ خیمہ جسے ڈائننگ ہال کہا جا سکتا ہے ۔کھانے کی اشیاء میں اسنیکس، کولڈ ڈرنک، جوس، آئسکریم،  چائے، کافی، تازہ پھل  اور بے شمار اشیاء  24 گھنٹے مہیا ہوتی ہیں۔ ناشتہ اور  کھانے اس کے علاوہ ہیں۔ ٹوائلٹس  زیادہ آراستہ ہوتے ہیں اور لوگ کم ہونے کی سے ان کی حالت بھی بہتر ہوتی ہے۔  اس سے زیادہ مہنگے پیکیجز میں   attached bath بھی  مل سکتے ہیں۔    خیموں کے باہر راہداری میں بھی قالین بچھے ہوتے ہیں اور خدام کی تعداد بھی عام خیموں سے زیادہ ہوتی ہے۔

 

تمام خیموں میں قالین کا فرش ہوتا ہے۔ یوروپین خیموں میں صوفہ بیڈ مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ صوفےتقریباً  ساڑھے چھے فٹ لمبے اور ڈھائی فٹ چوڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے بالکل ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس بستر پر سونے کی ایک ہی ترکیب ہے کہ جس طرح لیٹیں ویسے ہی سونے کی کوشش کریں۔ کروٹ بدلنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ خیموں میں عمدہ معیار کے صاف ستھرے تکیے اور دبیز چادریں وافر مقدار میں مہیا کی جاتی ہیں۔  لہٰذا حج کے لئے جاتے ہوئے یہ دونوں چیزیں لے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

 

خیمے کی ہر مخروطی چھت کے نیچے تقریباً 8 فیٹ کی اونچائی پر بجلی کے 2 ملٹی ساکٹ لگے ہوتے ہیں جن میں برطانوی، امریکن، یوروپین اور پاکستانی پلگ لگ سکتے ہیں۔ ان سے  220Vبجلی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ ساکٹ فون چارج کرنے کے لئے آئیڈیل ہیں۔ عام خیمے میں 20 سے 30افراد رہتے ہیں جن کے لئے   2ساکٹ کم پڑ جاتے ہیں۔ ہو سکے تو 8 یا10 فیٹ لمبی ایکسٹینشن بوکس  ساتھ لے جائیں۔ آپ کے ساتھ دوسروں کے بھی کام آئیگا۔

 

عام پیکیجز والے خیموں کے درمیان پتلی پتلی راہداریوں  میں آپریٹرز نے میزیں لگا کر چائے بنانےکا انتظام کیا  ہوتا ہے جہاں  ہم جیسے عاشقانِ چائے دن بھر چائے  پیتے رہتے ہیں۔ حج آپریٹر نے بتایا کہ حج کے پانچوں دن  (۸ سے ۱۲ ذی الحج) یعنی منٰی اور عرفات  میں خوراک، وزارت حج  کی جانب سے مہیا کی جاتی ہے۔  ہر کیمپ میں ایک کچن ہوتا ہے جہاں پورے کیمپ کے لئے تازہ کھانے تیار ہوتے ہیں۔  یہ کھانے پیکٹس کی صورت میں حجاج کو مہیا کئیے جاتے ہیں۔ کھانے کا معیار  عمدہ اور مقدار وافر ہوتی تھی۔ مانگنے پر ایک سے زیادہ پیکٹ بھی مل جاتا تھا۔ لیکن شاید ہی کسی کو اس کی ضرورت پڑتی ہو۔ خیموں کے باہر   آئس باکس میں پانی کی بوتلیں اور جوس کے ڈبے برف میں رکھے رہتے تھے  اور ختم ہونے سے پہلے ہی دوبارہ بھر دیئے جاتے۔ ہمارے کیمپ میں پاکستانی انداز کا کھانا مہیا کیا جاتا تھا لیکن ایک دن البیک کی فرائیڈ چکن سے بھی  تواضع کی گئی۔ کچھ لوگ احتیاطاً زیادہ کھانا لے لیتے ہیں کہ اگر بعد میں بھوک لگی تو کام آئے گا۔ لیکن اکثر  اس سے پہلے ہی  اگلا تازہ کھانا  آجاتا ہے۔  اور پچھلا کھانا  ضائع ہو جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ زائد کھانا  یا مشروبات نہ لئے جائیں۔ 

 

 خیموں  کے  ہر بلاک کے  ساتھ ٹوائلٹ اور وضو گاہوں کے بلاکس  بنے ہوئے  ہیں ۔  اگرچہ ان کی تعداد  بہت ہے لیکن حجاج کی تعداد کے لحاظ سے کم  پڑ جاتے ہیں۔ ان کی صفائی کا معیار بھی بس گذارے لائق ہے لہٰذا مفت اور فراواں چائے اور پانی دستیاب ہونے کے باوجود آپ کو اپنی اشتہاء پر قابو پانا پڑتا ہے۔  میرا مشاہدہ ہے کہ ایشیائی  خیموں اور ٹوائلٹس  میں  صفائی کا معیار اتنا اچھا نہیں تھا جتنا  یورپی خیموں  میں تھا۔ ویسے ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ ٹوائلٹ اور شاور ایک ہی کیبن میں ہوتے ہیں۔ اس تصویر کو دیکھ کر اندازہ لگا لیں۔ اتنی سی جگہ میں اوپر شاور لگا ہے۔ جس کی وجہ سے  اطمینان سے نہانا مشکل امر ہے۔  

 

مشورہ: ایک خام اندازے کے مطابق تقریباً 50 افراد کے لئے ایک ٹوائلٹ ہوتا ہے لہٰذا نماز سے پہلے جب تمام لوگ وضو کرنے نکلتے ہیں تو وہاں لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ نماز سے آدھے گھنٹے پہلے ہی ضروریات سے فارغ ہوکر وضو کرکے بیٹھ جائیں۔ ورنہ شدید گرمی میں قطار میں کھڑے ہونے کی زحمت اٹھانی پڑے گی اور جماعت  ضائع ہونے کا احتمال بھی رہے گا۔

 

منیٰ میں عموماً لوگ اپنے خیمے میں ہی جماعت بنا کر نمازیں ادا کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ بڑے خیموں میں جاکر بڑی جماعت میں بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کے خیمے میں جماعت ہو چکی ہو تو جس خیمے میں بھی جماعت جاری ہو، بلاتکلف وہاں داخل ہو جائیے  (سوائے خواتین کے خیمے کے)  اور جماعت میں شریک ہو جائیے۔ کچھ لوگ صبح اور شام کی نمازیں خیموں سے باہر بھی جماعت بنا کر ادا کرتے ہیں۔

 

خیموں میں صوفہ بیڈ کا آئیڈیا بظاہر بہت اچھا لگتا ہے اور تصاویر میں بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہ صوفے تقریباً ایک فٹ موٹے  (دو تہہ ) اور خاصے آرام دہ ہوتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ لوگ دن بھر انہیں تہہ کرکے صوفے کی طرح استعمال کرتے ہونگے۔ اس طرح دن میں خیمے میں چلنے پھرنے  اور نماز ادا کرنے کی جگہ بن جاتی ہوگی اور رات کو سونے کے لئے انہیں کھول لیاجاتا ہوگا ۔ لیکن یہ صوفے دن بھر کھلے رہتے تھے اور ہم جیسے کاہل لوگ ان پر پڑے رہتے تھے۔ اس وجہ سے خیمے میں چلنے پھرنے کی جگہ  بہت محدود ہوتی  تھی۔ نماز کے وقت  افراتفری میں   یہ صوفے نیم دلی سے تہہ کئے جاتے اور ایک دوسرے پر ڈھیر کر دیئے جاتے۔  نماز کے فوراً بعد یہ صوفے پھر کھل جاتے اورخیمہ ایک بار پھر ریلوے پلیٹ فارم کا منظر پیش کر رہا ہوتا تھا۔

 

منٰی میں جگہ جگہ ڈسپنسریز بنی ہیں جہاں عام بیماریوں کے تدارک کا عمدہ انتظام ہے۔ اس کے علاوہ مکمل اسپتال بھی ہیں جہاں زیادہ سنجیدہ نوعیت کی بیماریوں کا علاج بھی  ممکن ہے۔ علاج اور دوائیں حکومت کی طرف سے مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ سب اسپتال اور شفاخانے سال میں صرف پانچ دن استعمال ہوتے ہیں لیکن سہولیات دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ صرف پانچ دن کے لئے بھی اس قدرعمدہ انتظامات کئے جا سکتے ہیں۔ ان اسپتالوں میں مختلف قومیتوں کے افراد کام کر تے ہیں جن میں پاکستانی ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ البتہ نرسنگ اسٹاف زیادہ تر مشرق بعید یا عرب  کا نظر آیا۔

 

مشورہ: سعودی عرب میں فارمیسی (الصیدلیہ) میں دواؤں کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ مثلاً کھانسی کا شربت 50 ریال،  درد کش گولیاں 20 ریال  وغیرہ اور آپ جو بھی دوا مانگیں وہ آپ کو دے دی جاتی ہے چاہے وہ آپ کی  بیماری  میں فائدہ مند ہو یا نہ ہو۔ بہترہے کہ ڈسپنسری یا اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں چلے جائیں۔ وہاں صحیح تشخیص اور صحیح دوا دونوں مفت مل جائیں گے۔   (اگر مصروف اوقات میں جائیں گے تو طویل انتظار کرنا پڑ سکتا ہے)

 

منیٰ کے تمام علاقے میں وسیع سڑکیں اور پل بنے ہوئےہیں۔ ایام حج میں یہاں عام ٹریفک بند ہوتی ہے۔  اور یہ سڑکیں حجاج کے پیدل چلنے کے کام آتی ہیں ۔ ایام حج میں صرف سیکیورٹی، اسپتال ، آگ بجھانے والا عملہ اور مددگار عملہ کو ہی مختلف گاڑیوں اور موٹرسائیکلز پر گشت کی اجازت ہوتی ہے۔

 

منٰی میں  تقریباً تمام خیمے ایک جیسے ہوتے ہیں ۔  وہاں  اپنے خیمے کا راستہ بھول جانا بہت عام  ہے۔ اس ہی لئے وزارتِ حج نے حجاج کی رہنمائی کے لئے بہت عمدہ انتظامات کئے ہوئے ہیں۔  جگہ جگہ سڑکوں پر منٰی کے  بڑے بڑے نقشے لگے ہیں۔  اگر حجاج کو اپنے کیمپ کا نمبر یاد ہو تو وہ باآسانی وہاں سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر کیمپ کا نمبر یاد نہ ہو یا نقشہ نہ پڑھ سکتے ہوں تو وزارتِ حج کا مہیا کردہ، کلائی پر باندھنے والا  پٹہ یا ہینڈ بینڈ کام آتا ہے۔ اس پٹے پر  آپ کے کیمپ کا نمبر اور ایک کیو آر کوڈ (QR code)  چھَپا ہوتا ہے۔ راستے میں کسی بھی اسکاؤٹ سے راستہ پوچھ لیجئے۔ وہ اپنے موبائل فون سے کوڈ  پڑھے گا اور آپ کی فوری اور صحیح رہنمائی کر دے گا ۔ زیادہ تر اسکاؤٹ  صرف عربی  بولتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ وہ ایک کاغذی نقشہ پر آپ کے موجوہ مقام اور آپ کی منزل کونشان زد کردے گا۔ اب آپ باآسانی نقشے کے مطابق چلتے ہوئے اپنے کیمپ پہنچے سکتے ہیں۔ 

 

مشورہ: حج سے پہلے اپنے اسمارٹ فون پرگوگل نقشے  میں منٰی کا نقشہ ڈاؤن لوڈ کرکےجائیے۔ منٰی  میں اپنے  کیمپ پہنچ کر اسے پسندیدہ  مقامات میں محفوظ کر لیں۔ اگر منٰی میں اپنے کیمپ کاراستہ بھول جائیں تو گوگل نقشے سے رہنمائی لے لیجئے۔

 

آٹھ ذی الحج کو منٰی میں کوئی  خاص عبادت نہیں ہوتی۔ نمازیں ادا کیجئے، نوافل پڑھئے، زیادہ سے زیادہ تلبیہ پڑھتے رہیئے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو 9 اور 10 ذی الحج کے لئے ذہنی اور جسمانی طورپر تیار کرتے رہئے  کیونکہ یہ دونوں دن جسمانی  مشقت طلب ہیں۔

 

ہم نے حج آپریٹر کے مشورے اور انٹر نیٹ پر ریسرچ کے مطابق منٰی کے لئے  سامان تیار کیا تھا  ۔  لیکن وہ  منصوبہ بالکل ناکام ثابت ہوا۔ ہمارے خیال میں ہمیں منٰی اور عرفات میں مجموعی طور پر ساڑھے  چار دن گزارنے تھےجن میں 8، 9 اور 10ذی الحج کو لباسِ احرام پہننا تھا۔ دس تاریخ کو احرام کھول  کر عام لباس پہننا تھا۔ 11اور 12ذی الحج منٰی میں گذار کر واپس ہوٹل آنا تھا لہٰذا ہم نے اپنے سامان میں ایک اضافی احرام، دو جوڑے کپڑے، سینڈل، اور تین دن کے حساب سے سامان  رکھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم صرف ایک اضافی احرام اور مزدلفہ کے لئے فوم کی شیٹ اپنے ساتھ عرفات لے جائیں گے اور بقیہ سامان منٰی میں اپنے خیمے میں چھوڑ جائیں گے۔ لیکن  9 ذی الحج کو منٰی سے عرفات روانگی کے وقت حج آپریٹر نے خبردار کیا کہ کوئی  اپنا سامان منٰی کے خیمے میں نہ چھوڑ ے کیونکہ ان خیموں میں سامان چوری ہونے کا امکان ہے۔  لہٰذا تین دن کا  فالتو سامان اپنے کندھوں پر لادے سوئے عرفات روانگی ہوئی۔

 

عرفات

پیر 20 اگست 2018

ہمیں اتوار کو ہی مطلع کر دیا گیا تھا کہ پیر 9  ذی الحج  کو ہمیں کوچز کے ذریعے عرفات کے کیمپ نمبر 50 پہنچا دیا جائے گا۔ چونکہ ہم اس کیمپ کا محل وقوع نہیں جانتے تھے  اور غیر متوقع طور پر  منٰی سے سارا سامان لے جانے کی وجہ سے پیدل جانا ویسے بھی  قابلِ عمل نہیں تھا  لہٰذا  ہم نے کوچز کے انتظار کو ترجیح دی۔  یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق  تقریباً 30 لاکھ افراد ہر سال حج کرتے ہیں اور 9 ذی الحج کو تمام 30 لاکھ حجاج کو صبح منٰی سے عرفات پہنچنا ہوتا ہے۔ اگر تمام افراد کو ایک ہی وقت کوچز کے ذریعے عرفات پہنچایا جائے تو  کم از کم  50 ہزار کوچ ٹرپس (coach trips)کی ضرورت پڑے گی۔ اتنی بسیں تو برطانیہ جیسے بہترین بس سسٹم رکھنے والے ملک میں بھی دستیاب نہیں ۔ اگر یہ کوچز صبح منٰی اور عرفات کے درمیان پانچ چکر بھی لگائیں تب بھی تقریباً دس ہزار کوچز کی ضرورت پڑے گی جو کہ کسی بھی ملک  کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ پھر ان کوچز کو وسیع سڑکوں کی بھی ضرورت پڑے گی ورنہ سڑک پر ٹریفک میں ہی پھنسی رہیں گی۔ چند برس پہلے  ایسا ہی ہوتا تھا۔ 80 کی دہائی میں  جب پہلا حج کیا تو اس وقت یہی سننے کو ملتا تھا کہ اگر جلدی عرفات، یا مزدلفہ پہنچنا ہے تو پیدل چلے جاؤ۔

 

سعودی عریبیہ کی حکومت کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے   اعلیٰ ترین منصوبہ بندی کی اور دل کھول کر حج کے انتظامات پر پیسہ لگایا ۔ منٰی جو سال میں صرف  چار دن اور عرفات جو سال میں صرف ایک دن کے لئے آباد ہوتا ہے، وہاں ایسے انتظامات کئے ہیں کہ تیس لاکھ افراد ایک مقام سے دوسرے مقام تک انتہائی سہولت سے منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ بہرحال  یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام عمل میں کئی گھنٹے صرف ہوتے ہیں اور حجاج کو صبر سے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔  میرا دوسرا مشاہدہ یہ  ہے کہ جہاں جہاں بھی ہمیں کوچز مہیا کی گئیں، چاہے وہ نجی بس ہو یا وزارت حج کی جانب سے آئی ہو، سب  بہت عمدہ حالت میں تھیں،  نشستیں صاف اورائرکنڈیشنر صحیح کام کر رہے تھے۔ تمام ہی کوچز بڑی اور انٹر سٹی بسیں تھیں جن میں  45 سے 50 نشستیں تھیں۔  امید ہے کہ باقی کیمپس میں بھی اس ہی طرح کی کوچز دی گئی ہوں گی۔

 

منٰی سے عرفات زیادہ دور نہیں اور اگر عام دنوں میں کار یا کوچ سے سفر کیا جائے تو شاید دس منٹ سے زیادہ وقت نہ لگے لیکن حج کے دوران بے تحاشا ٹریفک کی وجہ سے منٰی سے عرفات جانے میں تقریباً آدھا گھنٹا لگ جاتا ہے۔ تمام حجاج کو منٰی سے عرفات پہنچانے میں تقریباً  چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔  عرفات پہنچانے کا سلسلہ  نمازِ فجر کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے۔ ہر کیمپ کے لئے کچھ کوچز مخصوص ہوتی ہیں جن پر اس کیمپ کا نمبر لکھا ہوتا ہے۔ مثلاً  منٰی میں ہمارے کیمپ کا نمبر 50 تھا تو  کوچز ، منٰی کے کیمپ 50 سے  حجاج کو عرفات کے کیمپ 50 تک پہنچا رہی تھیں۔  ہر کیمپ میں ایک سے زیادہ حج آپریٹرز کے گروپ قیام پذیر تھے۔ یہاں آپ کے حج آپریٹر کا  رسوخ  کام آتا ہے۔  جیسا کہ ہمارے حج آپریٹر کو صبح پہلے یا دوسرے نمبر پرکوچز مل گئیں اور باقی گروپس کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا۔ ہمارے  حج آپریٹر نے پہلے تمام خواتین کو عرفات بھیجا پھر ہماری باری آئی۔ 

 

عرفات پہنچے تو سب کو ایک کشادہ پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا۔  اس پلیٹ فارم پر قالین بچھے تھے اور جگہ جگہ لگے پنکھوں سے پانی کی پھوار جاری تھی. میرا پہلا خیال تھا کہ ہمیں اس پلیٹ فارم پرتمام  دن دھوپ میں گزارنا ہو گا۔  سامنے ہی خیمے بھی لگے تھے   لیکن میں سمجھا کہ ہمارے حج  آپریٹر کو خیموں میں جگہ نہیں ملی اس لئے  ہمیں کھلے آسمان تلے دن گذارنا ہوگا۔ سامنے ہی چائے کے اسٹینڈزلگے تھے۔ دیکھ کر تھوڑا حوصلہ ہوا کہ  چائے پیتے پیتے دن گذر ہی جائے گا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد  پتہ چلا کہ یہ پلیٹ فارم صرف  ہر کیمپ سے آئے ہوئے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے لئے تھے۔  جب ہمارے کیمپ کے تمام لوگ جمع ہو گئے تو  انہیں تقریباً سو میٹر دور خیموں   میں پہنچا دیا گیا۔ یہ وسیع ائرکنڈیشنڈ  خیمے تھے ۔  خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ خیمے تھے۔ ہر خیمہ سو  سے زائد لوگوں کے لئے کافی تھا۔ سب کو اتنی جگہ مل گئی کہ پاؤں پھیلا کر لیٹ سکیں۔  پھر یہی ہوا کہ ہر ایک اپنی جائے نماز یا چٹائی بچھا کر  نیند پوری کرنے لگا۔  اس  وسیع خیمے  میں  سکون سے سونا تو مشکل تھا لیکن عمدہ ائرکنڈیشننگ کی وجہ سے پورا دن آرام  سے گذر گیا۔  یہاں پر دوپہر کا کھانا اور شام کو پھل مہیا کئے گئے۔ کھانا اتنا  وافر تھا کہ اگلی رات تک بھوک کا احساس نہیں ہوا۔

 

آج  کا سب سے اہم رکن  ظہرین  (ظہر اور عصر )کی نماز یں ادا کرنا اور خطبہ سننا تھا۔ فقہ حنفیہ کے مطابق اگر آپ مسجد نمرہ کے امام کے پیچھے نماز ادا نہ کر رہے ہوں تو ظہر اور عصر الگ الگ ادا کرنی چاہئے۔ ہمارے خیمے میں دونوں نمازیں الگ الگ ادا کی گئیں۔ کچھ خیموں میں دونوں نمازیں ملا کر بھی ادا کی گئیں۔ اس دن کا حاصل دعائیں ہیں۔ سب ہی نے خوب دعائیں مانگیں اور مغرب تک تا وقتِ روانگی دعائیں مانگتے رہے۔  یقینِ واثق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ہونگی۔

 

مغرب  کی نماز عرفات میں ادا کرنے کی ممانعت ہے بلکہ مغربین ( مغرب اور عشاء )  مزدلفہ میں پڑھنی چاہیئں۔ مغرب کے وقت مزدلفہ روانگی کی تیاری شروع ہوگئی۔  ہمارے حج آپریٹر کا رسوخ ایک بار پھر کام آیا اور اس نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا کہ ہمارے  گروپ کا  روانگی کے لئے دوسرا نمبر ہے۔ ہم  نے تقریباً آدھا گھنٹا اپنے  خیموں میں ہی گذارا اور پھر بس اسٹاپ کے پلیٹ فارم  پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ کوچ پر جگہ حاصل کرنے کے لئے تقریباً ایک گھنٹا اور لگے گا۔ بجائے قطار میں کھڑے  ہونے  اور ہجوم میں اضافہ کرنے کے، ہم  آرام سے پلیٹ فارم پر بچھے قالینوں پر بیٹھ گئے۔ مجھے  پتہ چلا تھا کہ مزدلفہ میں ٹوائلٹس اور وضوکی سہولیات  نسبتاً کم تعداد  میں  ہیں۔  جب ہمارے گروپ کی  کوچ کی قطار تھوڑی رہ گئی تو ہم نے وضو کر لیا۔ رات کو تقریباً ساڑھے دس بجے مزدلفہ پہنچے  ۔ اور سکون سے دونوں نمازیں ادا کیں۔

 

مشورہ: عرفات میں اپنے حج آپریٹر سے پوچھ لیجئے۔ اگر آپ کے گروپ کا نمبر چوتھا یا پانچواں  بھی ہے تو بھی سواری کو ترجیح دیجئے۔ کیونکہ مزدلفہ   میں سونا مشکل  کام ہے۔ اور اگلے دن بے تحاشا چلنا  بھی پڑتا ہے۔  اس لئے غیر ضروری طور پر چلنے یا تھکنے کی ضرورت نہیں۔بہتر ہے کہ عرفات میں آرام سے  ائر کنڈیشنڈ خیمے میں بیٹھے رہیں یا  تھوڑی دیر کے لئے سو جائیں۔   جب تک آپ کے گروپ کا نمبر نہ آئے ، بلاوجہ بس اسٹاپ پر جا کے ہجوم میں اضافہ نہ کریں ۔ جب آپ کے گروپ کا نمبر آنے والا ہوگا تو آپ کا حج آپریٹر خود آپ کو بس اسٹاپ لے جائے گا۔

 

مزدلفہ

پیر 20 اگست 2018

ہمیں کوچ سے مزدلفہ پہنچنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا۔ مزدلفہ  کے بارے میں میرا تصور تھا کہ یہ صرف ایک وسیع  اور چٹیل میدان ہوگا لیکن دورِ حاضر کی تعمیرات نے اس علاقے کا نقشہ تبدیل کردیا ۔ مزدلفہ میں تعمیر کیے جانے والی سڑکوں نے مزدلفہ کو کئی بڑے میدانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہمیں جس جگہ لے جایا گیا تھا وہاں قریب ہی پیدل چلنے والوں کے لئے طویل پل  بنا ہوا تھا۔ لہٰذا  سامنے ایک طویل اور  تقریباً چالیس فیٹ اونچی دیوار کھڑی تھی۔ پیچھے کی طرف مرکزی شاہراہ تھی۔ اسی طرح دائیں اور بائیں طرف  چھوٹی سڑکیں تھیں۔  جس کی وجہ سے مزدلفہ کا وہ ٹکڑا  کچھ الگ تھلگ سا لگ رہا تھا۔  اس کا جو فائدہ ہوا اس کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔ تا حد نظر اونچے اونچے کھمبوں پر طاقتور روشنیاں لگی تھیں ۔ تمام علاقہ بقعۂ  نور بنا ہوا تھا۔ مزدلفہ کے اس ٹکڑے میں ٹوائلٹس کا انتظام خاصا بہتر تھا لیکن  حسبِ توقع  ان کی تعداد ضرورت سے کم تھی۔ بہر حال سال میں صرف ایک بار،  دس گھنٹوں کے لئے اس قدر انتظام بھی قابلِ ستائش ہے۔

 

وزارتِ حج کی جانب سے مزدلفہ  میں جگہ جگہ کنکریوں کے ڈھیر لگا دیئے جاتے ہیں  تاکہ حجاج   کو کنکریاں چننے میں  دقت نہ ہو۔ یہ ڈھیریاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی صورت میں نہیں ہوتی بلکہ تقریباً چار فیٹ چوڑے لمبے لمبے ڈھیر لگا دئیے جاتے ہیں۔ اس طرح  کنکریاں چننے کے لئے ہجوم نہیں بننے پاتا۔ ایک دلچسپ مشاہدہ یہ تھا کہ کئی حجاج ان ڈھیریوں پر بستر لگائے سو رہے تھے۔ جس کی وجہ سے ان ڈھیریوں کا مقصد ہی فوت ہو گیا تھا۔ کنکر کی ڈھیریوں کے علاوہ وہاں پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھی کنکریاں بانٹی جا رہی تھیں تاکہ آپ اس چھوٹی سی زحمت سے بھی بچ جائیں۔   

 

اگر منٰی میں تین دن قیام کرنا ہو تو رمی    جمرات کے لئے اننچاس  کنکریوں کی  ضرورت ہوتی ہے اور اگر چار  دن قیام کا ارادہ ہے تو ستر کنکریوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بیشتر حجاج تین دن بعد ہی منٰی سے واپس چلے جاتے ہیں۔ بہرحال جتنے دن بھی منٰی میں قیام کا ارادہ ہو،   ضرورت سے کم  از کم  دس کنکریاں زیادہ چن لیں۔ جمرات  پر ہجوم میں کنکریوں کا ہاتھ سے  گر جانا  ایک عام سی بات ہے۔ مختلف لوگ کنکریاں رکھنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ کوئی کپڑے کی تھیلیاں لے جاتا ہے، کوئی پلاسٹک کی تھیلی استعمال کرتا ہے اور اگر آپ کے پاس کوئی انتظام نہ ہو تو عرفات اور مزدلفہ میں  پانی کی بے  شمار خالی بوتلیں بکھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان بوتلوں میں کنکریاں رکھنا آسان اور جمرات کے ہجوم میں گن کر کنکریاں نکالنا اس سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔

 

مزدلفہ میں رات کھلے آسمان تلے گذاری جاتی ہے۔   ہو سکے تو رات کو نیند پوری کرلیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو  یہ وقت دعاؤں  اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب  کرنے میں گذارا جائے۔ مزدلفہ  میں قیام حج کے سخت ترین مراحل میں سے ایک ہے۔ مہنگے پیکیجز لینے والوں کے لئے مزدلفہ میں  الگ احاطے بنے ہوتے ہیں۔ جہاں قالین بچھے ہوتے ہیں۔ اور  ہر حاجی کے لئے گدے، کمبل، چادریں وغیرہ مہیا کی ہوتی ہیں۔   ہر حاجی کو کنکریوں کی تھیلی  بھی پیش  کی جاتی ہے۔  لیکن عام  پیکیجز میں یہ سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔

 

عام حجاج کو کھلے میدان میں زمین پر سونا ہوتا ہے۔ یہاں (شاید)  ہر سال پھیلائی جانے والی کنکریوں کی وجہ سے  صرف چادر بچھا کر زمین پر لیٹنا  ممکن نہیں۔  بہتر ہے کہ اپنے ساتھ کم از کم ایک انچ موٹی فوم کی شیٹ  ضرور لے جائیں۔  یہ شیٹ آپ اپنے ملک سے بھی لے جا سکتے ہیں اور  مکہ سے بھی خرید سکتے ہیں۔  زیادہ تر لوگ سستی  فوم شیٹ لاتے ہیں اور صبح مزدلفہ  میں  ہی چھوڑ کر  چلے جاتے ہیں۔  بہتر ہے کہ آپ اوڑھنے کے لئے ایک چادر لے جائیں۔ تکیے کی جگہ آپ اپنا بیگ استعمال کر سکتے ہیں۔ حفاظت کی حفاظت اور سامان  بھی کم۔  کچھ لوگ مکہ  سے فوم والی نرم  جائے نماز،  جس میں ٹیک لگا کر بیٹھنے کا انتظام  ہوتا ہے، خرید لیتے ہیں۔ اور مزدلفہ میں اسے بطور  بستر استعمال کرلیتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑے  بہت کنکر برداشت کر سکیں تو یہ بھی  ایک عمدہ انتخاب ہے ۔ 

 

کچھ لوگ اپنے ساتھ  چھوٹے چھوٹے پوپ اپ ٹینٹ (pop up tent)  بھی لائے تھے  لیکن وہاں ان کا فائدہ نظر نہیں آیا۔ اس کے علاوہ جو لوگ سلیپنگ بیگ (sleeping bag)  لائے تھے وہ بھی انہیں  صرف گدّے کی طرح استعمال کر رہے تھے۔

 

ہمارے حج آپریٹر نے ہمیں پہلے ہی  بتا دیا تھا کہ وہ  مزدلفہ میں کھانا یا پانی  فراہم نہیں کرے گا۔ اس کے باوجود ہم  سے اندازے کی غلطی ہوئی اور ہم فی کس صرف ایک پانی کی بوتل لے کر عرفات سے نکل آئے۔ مزدلفہ میں محض ایک گھنٹے میں ہی ہمارے پاس پانی ختم ہو گیا۔ ممکن ہے کہ بس اسٹاپ کے پاس مفت پانی تقسیم کیا جا رہا ہو لیکن میں نے وہاں جاکر چیک نہیں کیا۔ جہاں میں نے اپنا بستر لگایا تھا وہاں ایک اسٹال پر چائے اور پانی کی بوتلیں فروخت ہو رہی تھیں۔ چائے کا کپ اور پانی کی بوتل دونوں ایک ہی قیمت یعنی پانچ ریال میں فروخت کئے جا رہے تھے۔ اتنے دن تک مفت پانی اور چائے پیتے رہنے کے بعد یہ قیمت کچھ زیادہ محسوس ہوئی۔ ہمارے برابر والے گروپ کے پاس تھرموپور باکسز میں برف لگی پانی کی بوتلیں وافر مقدارمیں موجود تھیں جو انہوں نے فراخدلی کے ساتھ ہمیں بھی استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ 

 

مشورہ: عرفات میں کوچ میں بیٹھنے سے پہلے ایک شخص کو پانی کی بوتلوں کے کریٹ کے ساتھ سوار ہوتے دیکھا۔ میرا پہلا تاثر تھا کہ ہم نہیں بدلیں گے۔ مفتا کہیں بھی ہو چھوڑنا گناہ سمجھتے ہیں۔ لیکن جب مزدلفہ پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ صاحب تو دراصل زیادہ باخبر اور حالات کے لئے زیادہ  تیار تھے۔ عرفات میں بس اسٹاپ کے ساتھ ہی کھانے پینے کی اشیاء کا خیمہ ہوتا ہے۔ جب میں رات کو دس بجے کوچ میں سوار ہو رہا تھا تب بھی اس خیمے میں ہزاروں پانی کی بوتلیں بچی ہوئی تھیں۔  تو میرا مشورہ یہی ہے کہ اگر آپ کا حج آپریٹر مزدلفہ میں خوراک نہیں فراہم کر رہا تو احتیاطاً  آپ عرفات سے پانی کی بوتلوں کا ایک کریٹ لے لیجئے۔ مزدلفہ میں خود بھی پئیں اور دوسرے حجاج  میں بھی  تقسیم کریں۔

 

مزدلفہ میں سب سے خوبصورت منظر نمازِ فجر کا تھا۔ جگہ جگہ بڑی بڑی جماعتیں ہو رہی تھیں۔ ہمارے سامنے بھی طویل اور بلند دیوار کے سائے میں ایک بڑی جماعت ہوئی۔ کسی گروپ کے پاس لاؤڈ اسپیکر سسٹم بھی تھا جسے امام نے قرأت کے لئے استعمال  کیا۔ کھلے آسمان کے نیچے ، اتنی بڑی جماعت کے ساتھ نمازِ فجر ادا کرنا ایک خوبصورت تجربہ تھا۔

 

منٰی روانگی سے پہلے میں چائے خریدنے گیا۔  اسی وقت ایک اور صاحب نے کئی چائے، پانی کی بوتلیں، کیک پیس اور بسکٹ کے پیکٹ خریدے اور چائے والے سے  کچھ رعایت دینے کے لئے کہا۔ چائے بیچنے والے بنگالی بھائی نے صاف انکار کر دیا۔   میں نےچائے والے کو سمجھایا کہ جو مل رہا ہے اسے غنیمت سمجھے ورنہ پندرہ منٹ بعد یہاں بندے کی صورت نظر نہیں آئے گی اور اگلے سال تک  سامان سینت کر بیٹھنا پڑے گا۔ پتہ نہیں کیسے اس کے دماغ میں بات بیٹھ گئی اور اس نے سب  سے چائے کے دو ریال لینے شروع کر دیئے جو حج کے دوران چائے کا  ایک عام  نرخ ہے۔

 

اب مزدلفہ سے منٰی روانگی کا مرحلہ تھا۔ حج آپریٹر کی بریفنگ ایک بار پھر کام آئی۔  اس نے ہمیں بتا دیا تھا کہ تیس لاکھ لوگ ایک ساتھ اشراق کے بعد مزدلفہ سے منٰی روانہ ہوں گے تو کوچز کے ذریعے منٰی جانے میں خاصی دیر لگ سکتی ہے۔ ہمارا کیمپ مزدلفہ کی سرحد پر ہی تھا اور ہماری جائے قیام سے تقریباً ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پر تھا ۔ لہٰذا ہم نے پیدل چلنے کو ترجیح دی۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ایک درست فیصلہ تھا کیونکہ جب پیدل چلنے والے راستوں پر ہجوم بڑھنے لگا تو لوگ جنگلے پھلانگ کر سڑکوں پر پیدل چلنے لگے، سڑکیں بلاک ہوگئیں  اور کوچز کی رفتار پیدل سے بھی کم رہ گئی۔

 

ہجوم کی وجہ سے  راستے میں  جگہ جگہ چلنے کی رفتا ر کم کرنی پڑی ۔ منٰی کی سرحد پر تو  پولیس کو ایک اضافی سڑک بھی پیدل چلنے والوں کے لئے کھولنی پڑی۔  ہجوم کی وجہ سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ میرے پاس ایک یو ایس بی والا پنکھا تھا جسے میں نے فون کے پاور بینک سے منسلک کر کے چلادیا۔ پسینے پر جب ہلکی ہلکی ہوا لگتی تو تبخیر (evaporation)  کی وجہ سے خاصا سکون ملتا۔ پنکھا تو چل ہی رہا تھا۔ میں  باری باری اپنے ساتھ چلنے والوں  پر، جن کی حالت پسینے کی وجہ سے خراب تھی،  پنکھے کا رخ کردیتا۔    وہ  اللہ کے  نیک بندے بہت خوش ہوتے اور دعائیں دیتے ۔ کئی لوگ اپنے ساتھ اسپرے بوتلوں میں پانی بھر کر لائے تھے۔ جب میں نے ان پر پنکھے کا رخ کیا تو جواباً انہوں نے مجھ پر پانی  اسپرے کر دیا۔ پانی اسپرے کرنے کے بعد پنکھے کی ہوا  زیادہ بہتر لگتی ہے۔ آزما کر دیکھئے گا۔

 

منیٰ پہنچتے پہنچتے ہمارے پاس پانی ختم ہو گیا ۔ لیکن منٰی میں کیمپ اس طرح بنے ہیں کہ ہر کیمپ کے دونوں طرف وسیع  سڑکیں گذرتی ہیں۔  ہر کیمپ کے باہر یعنی سڑک کی طرف واٹر کولرز اور ٹوائلٹس بلاکس بنے ہوتے ہیں۔ یعنی  منٰی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے  ان دو معاملات کی فکر نہیں ہوتی۔  ہم جب منٰی کی حدود میں داخل ہوئے تو پانی  پیا اور بوتلیں بھرکر ساتھ رکھ لیں۔  منٰی میں اگر آپ چلتے چلتے تھک جائیں تو  کیمپ کی باہر کی دیواروں پر  جو تقریباً ڈھائی فیٹ بلند ہوتی ہیں، بیٹھ کر سانس درست کر سکتے ہیں اور کولرز سے پانی پی کر آگے روانہ ہو سکتے ہیں۔  


پھر سے منٰی

منگل    21 اگست 2018

منٰی  میں کیمپ پہنچ کر اپنا سامان رکھا۔ ارادہ تھا کہ شام کو  کنکریاں مارنے جائیں گے اور احرام  ختم کر کے رات کو طوافِ زیارت کریں گے۔  میرا خیال تھا کہ دوپہر تک  جمرات پر بے تحاشا ہجوم ہو گا اور شام کو وہاں کم لوگ ہوں گے۔

 

لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بہتر انتظام کیا ہوا تھا۔ ہمارے ایک پیارے سے حج کے ساتھی نے ہمیں آرام کرنے کا موقع نہیں دیا اور فوری طور پر جمرات روانگی کا حکم سنا دیا۔  ہمارا ہوٹل جمرات کے قریب ہی تھا۔ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کچھ سامان ہوٹل منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمرات جاتے ہوئے ہم نے ایک رک سیک بھر کے سامان اٹھا لیا۔ جمرات میں ٹرالی بیگ یا سوٹ کیس لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔  جو کہ ایک احسن اقدام ہے۔ لیکن رک سیک ، جو کہ ایک بڑا کمپیوٹر بیگ تھا، لے جاتے ہوئے  بھی ڈر  لگ رہا تھا  کہ کہیں اس کے سائز کی وجہ سے بیگ اندر جانے سے روک نہ دیا جائے۔ بہر حال  ہم نے خطرہ مو ل لیا اور جمرات کی طرف روانہ ہو گئے۔

 

ملک فہد روڈ پر تقریباً ایک کلومیٹر چلنے کے بعد جمرات کی سرنگوں ( نفق)   کا نشان نظر آ گیا۔  جمرات میں پیدل چلنے کی سرنگیں بہت وسیع اور  ائرکنڈیشنڈ ہیں۔ درمیان میں واکنگ کنوئر بیلٹ لگے ہیں۔  جو کہ ضعیف حجاج کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ لیکن میں نے جمرات کے تینوں دن انہیں چلتے نہیں دیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ اب چلنا شروع ہو گئے ہوں۔   ان سرنگوں میں اسکاؤٹس اور شرطوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جو ہجوم کو قابو  میں رکھتی ہے اور ضروری ہدایات دیتی رہتی ہے۔ یہ تمام  اقدامات جمرات میں چند سال پہلے ہونے والے حادثے کو دوبارہ  ہونے سے روکنے کے لئے ہیں۔ اور بظاہر خاصے موثر نظر آتے ہیں۔

 

ایک بہت دلچسپ بات  یہ تھی کہ بہت سے  اسکاؤٹس  کے پاس مختلف قسم کے اسپرئیرز تھے جس سے وہ حجاج پر پانی چھڑک رہے تھے۔ کچھ کے پاس بڑے بڑے ٹینک والے اسپرئیر تھے جن میں ایک بار ہوا بھرنے سے کئی منٹ تک پانی اسپرے ہو سکتا تھا۔ لیکن زیادہ تر کے پاس  چھوٹی  اسپرے بوتلیں تھیں، جنہیں ہم کپڑے استری کرتے ہوئے پانی چھڑکنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی آدھے لٹر کی  بھری ہوئی بوتل کو اسپرے کرتے ہوئے خالی کریں۔ یقین کیجئے کہ آدھی بوتل خالی ہونے سے پہلے ہی ہاتھ میں درد شروع ہو جائے گا ۔ مگر وہ نوجوان ہنستے مسکراتے ، گھنٹوں ، حجاج پر پانی اسپرے کرتے رہتے ہیں تاکہ حجاج گرمی سے بے حال نہ ہو جائیں۔ میں جب دوسرے دن جمرات گیا تو ایک پانی کی بوتل میں چھوٹا سا سوراخ کر کے اسے اسپرے بوتل بنا لیا۔ جب بھی کوئی اسکاؤٹ مجھ پر اسپرے کرتا تو میں بھی ہنستے ہوئے اس کا شکریہ ادا کرتا اور جواباً  اس پر پانی اسپرے کردیتا۔ حیرت انگیز طور پر وہ سارے لڑکے ہنس دیتے اور کسی نے بھی جواباً کوئی اشتعال انگیز بات نہیں کی۔

 

پیدل افراد کے لئے جمرات جانے والے  پلوں  اور سرنگوں کے ڈیزائین کی تعریف نہ کرنا  زیادتی ہوگی۔ مختلف  اطراف سے آنے والے افراد خود بخود  مختلف پل اور سرنگوں کے ذریعے جمرات کی مختلف منزلوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ہم منٰی کے جس حصے میں تھے وہاں سے جانے والی سرنگ جمرات کی تیسری منزل پر ختم ہوتی تھی۔ جمرات پر ہونے والے ہجوم کو تقسیم کرنے کے اس انتظام کی جس قدر تعریف کی جائے، کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ رمی کے تینوں دن ہمیں تینوں ستونوں پر اس قدر کم ہجوم ملا کہ ہمیں اب تک یقین نہیں آرہا۔   یوم النحر (دس ذی الحج) کو ہم نے دوپہر کو تقریباً  گیارہ بجے تک رمی کرلی۔ یوم النحر میں رمی کا افضل وقت فجر سے زوال تک ہے لیکن باقی دن میں بھی جائز ہے۔  تینوں ستونوں کے پاس اس قدر کم ہجوم تھا کہ ہم باآسانی بغیر رکے ستون کے پاس دیوار تک پہنچ گئے  اور سکون سے کنکریاں مارنے کا رکن پورا کیا۔ اس دوران نہ تو ہمارے پھینکے گئے کنکر کسی کے سر پر گرے ، نہ ہی ہمارا ہاتھ پیچھے والے لوگوں سے ٹکرا رہا تھا، نہ ہی پیچھے والوں کا ہاتھ ہمارے سر پہ پڑ رہا تھا۔ حتٰی کہ دھکے بھی نہیں لگ رہے تھے۔ ناقابلِ یقین۔۔۔۔۔

 

80 کی دہائی میں جب حج کیا تھا تو میرے والد ، خواتین کو رمی کے لئے لے کر ہی نہیں گئے بلکہ ان کی طرف سے خود  رمی کی۔ وجہ یہ تھی کہ جن ستونوں پر رمی کی جاتی تھی وہ محض 3 فیٹ چوڑے اور شاید 20 فیٹ  اونچے تھے۔  اتنی چھوٹی جگہ پر جب ہزاروں لوگ  پہنچتے تو وہاں  دم گھٹنے والا ہجوم ہو جاتا۔  ہاتھ گھما کر کنکریاں پھینکنے کی جگہ ہی نہیں ہوتی۔ جب لوگ کنکریاں مارتے تھے تو  کنکریاں ستون تک پہنچنے سے پہلے ہی دوسروں کو جا لگتیں۔

 

کئی حادثوں کے بعد، سنہ 2004  میں جمرات کو مکمل طور پر نئے سرے سے بنانے کا کام شروع کیا گیا۔ سنہ 2016، 2017 میں جمرات  کا کام مکمل ہوا۔ جس کے بعد اس کی گنجائش  5 لاکھ  حجاج   فی گھنٹے  تک پہنچ گئی ہے۔ تینوں ستونوں کی اونچائی 5 منزلہ اور چوڑائی تقریباً 100 فیٹ تک بڑھا دی گئی۔ ستون اس طرح ڈیزائن کئے گئے ہیں کہ  حجاج پر سامنے سے پھینکی ہوئی کنکریاں نہ پہنچ سکیں۔ اس کے علاوہ ستونوں کے گرد بنائی گئی حفاظتی دیوار پر فوم  کے گدے (foam padding) لگائے گئے ہیں تاکہ ہجوم  میں کوئی دیوار سے ٹکرا کر زخمی نہ ہو۔

 

ایک وڈیو لنک  حاضر ہے جو میں نے یو ٹیوب پر ڈھونڈی ہے۔ آپ کو دیکھ  کر بھی شاید یقین نہ آئے کہ حج کے دنوں میں اس طرح بھی رمی ممکن ہے۔  https://www.youtube.com/watch?v=Ges9Q3bYFUg

 

 جمرات کی عمارت کا عظیم الشان ڈیزائن  مجھ جیسا مبتدی  الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اگر آپ پہلی دفعہ حج کرنے جا رہے ہیں تو السعودیہ بن لادن گروپ کی طرف سے جاری کی گئی یہ دستاویزی فلم ضرور دیکھئے۔ اس سے آپ کو اس عظیم الشان پروجیکٹ کے بارے میں کچھ اندازہ ہو جائے گا۔

https://www.youtube.com/watch?v=_VgWfr1G63o

 

بہت سے حجاج سنتِ نبوی  کو مدنظر رکھتے  ہوئے  نمازِ ظہر سے مغرب کے دوران رمی  کرنے کو ترجیح دیتی ہے لہٰذا ان اوقات میں جمرات میں ہجوم زیادہ ہوتا ہے۔ ہم نے  موجودہ دور کے علماء کے اجتہاد پر اعتبارکرتے ہوئے دن کے پہلے حصے میں ہی رمی کر لی جس کی وجہ سے نہ صرف ہمیں آسانی ہوئی بلکہ  دوپہر کو جمع ہونے والے ہجوم میں کم از کم دو لوگوں کی کمی تو ہو ہی گئی۔

چلیں ری وائنڈ کرتے ہیں۔ واپس یوم النحر یعنی دس ذی الحج   پر چلتے ہیں جو کہ ہمارے لئے حج کا مصروف ترین دن تھا۔ جیسے کہ اوپر بیان کیا کہ مزدلفہ سے واپسی  پر منٰی میں اپنے کیمپ گئے۔ وہاں سے کچھ سامان لیا ۔ رمی ادا کی جس میں صرف جمرات العقبہ یعنی بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں۔ رمی سے فارغ ہو کر ہوٹل پہنچے جو کہ   شارع شاہ فہد  پر مسجد الحرام کے راستے میں ہی تھا۔ وہاں کچھ دیر آرام کیا اور قربانی ہونے کی خبر کا انتظار کرتے رہے۔ دو بجے کے قریب حج آپریٹر  کی طرف سے قربانی ہونے کی اطلاع  ملی۔  خیال رہے کہ چاہے  جتنی بھی دیر ہو جائے  جب تک  حج آپریٹر ،یا جو بھی آپ کا قربانی کا وکیل ہے،  قربانی کی تصدیق نہ کردے  احرام نہ کھولیں۔ ورنہ دَم لازم ہو جائے گا۔

 

قربانی کی اطلاع کے بعد  سب نے احرام ختم کرنے کا عمل شروع  کردیا۔  کچھ لوگوں نے  ہوٹل میں ہی ایک دوسرے کے سر مونڈنا شروع کر دئیے۔ موزوں اوزاروں کی عدم موجودگی اور ناتجربہ کاری لوگوں کے سروں پہ ظاہر ہو رہی تھی۔  خادم اس معاملے میں ذرا زیادہ ہی حساس ہے۔ لہٰذا ہوٹل کے قریب ایک عمدہ معیار کا سیلون ڈھونڈ لیا جہاں  بیس ریال لے کر بکنگ  کی جا رہی تھی ۔ میں   بکنگ ٹوکن لے کر ہوٹل  واپس آگیا۔ کچھ دیر بعد   پھر سیلون  گیا تو میرا نمبر آچکا تھا۔ ایک ماہر پاکستانی حجام نے مجھے ڈسپوزایبل پلاسٹک شیٹ پہنا کر ڈسپوزایبل استرے سے چند ہی منٹ میں حجامت بنا دی۔ اگر آپ  اپنے ہوٹل میں احرام ختم کر رہے ہوں تو  باہر نکل کر دیکھ لیں۔ ہر ہوٹل کے  قریب  صاف ستھرے  سیلون مل جائیں گے۔  اناڑیوں کے ہاتھ پڑنے  سے کہیں بہتر ہے کہ 20 یا 30 ریال خرچ کر دیئے جائیں۔

 

 سعودی وزارت حج  نے  منٰی میں جگہ جگہ  اشتہارات لگائے ہوئے ہیں کہ صرف پیشہ ور حجاموں سے ہی قصر  (بال کٹوانا)اور حلق  (گنجا ہونا) کروایا جائے ۔ سڑک پر بیٹھے حجاموں سے  پرہیز کیا جائے۔  جو ایک ہی استرا کئی لوگوں پر استعمال کر کے بیماریاں پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ ایک اچھا حکم ہے ۔ اس پر عمل میں سب کا فائدہ ہے۔

 

انڈونیشیا کے حجاج  کا بال ترشوانے کا انداز باقی حجاج سے مختلف ہے۔ جس طرح خواتین احرام ختم کرتے ہوئے صرف ایک یا دو انچ  بال تراشتی ہیں تقریباً اس ہی طرح انڈونیشین مرد  حجاج بھی بالوں کی صرف ایک لٹ کو ایک یا دو انچ تراش کر احرام کھو ل لیتے ہیں۔  بہرحال ان کے پاس اپنے فقہی دلائل ہیں۔

 

ہوٹل واپس آ کر لباسِ احرام اتارا۔    نہا کر نئے کپڑے پہنے  اور طواف زیارۃ[2] کی ٹھانی۔ ہم پانچ لوگوں نے ایک ٹیکسی کی اور پانچ ریال فی فرد کے حساب سے ادائیگی کی۔ ہم بھی خوش اور ٹیکسی والے کو بھی حسبِ خواہش پیسے مل گئے۔ نمازِ عصر سے پہلے حرم پہنچے اور حسبِ معمول چھت پر طواف شروع کر دیا۔ دورانِ طواف نمازِ عصر ادا کی اور پھر طواف مکمل کیا۔  نمازِ عصر سے   پہلے مسجد الحرام کی نچلی منزلیں بھری ہوئی تھیں لیکن چھت پر بہت زیادہ ہجوم نہیں تھا ۔ نماز ِ عصر  کے  بعد  چھت پر طواف کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔ طواف کے بعد سعی کے لئے پہنچے تو وہاں خاصے لوگ تھے۔  عام دنوں کی  طرح آج بھی مشرقِ بعید کے حجاج نے  شام کو طواف اور سعی کو ترجیح دی اور اس کا نتیجہ شام میں بے پناہ ہجوم کی صورت میں نکلا ۔ یہ صرف مشرقِ بعید کے حجاج پر الزام نہیں بلکہ کئی اور حجاج بھی گرمی سے بچنے کے لئے شام اور رات میں طواف کو ترجیح دیتے ہیں۔ سعی کے دوران نمازِ مغرب  ادا کی۔ اس کے بعد سعی مکمل  کی۔ الحمدللّٰہ یوم النحر کے سارے اعمال مکمل ہو گئے۔ ہم نے نفق فیصلیہ والی سڑک سے ٹیکسی لی اور واپس ہوٹل پہنچ گئے۔

 

ہمارے لئے یوم النحر (دس ذی الحج) اب تک کا سب سے مصروف اور تھکا دینے والا دن تھا۔ صبح مزدلفہ سے منٰی تک پیدل، پھر منٰی سے جمرات اور جمرات سے ہوٹل تک پیدل چلنا جو تقریباً نو یا دس کلو میٹر تھا۔ پھر نفق فیصیلیہ  کے راستے حرم جانا بھی تقریباً 2.5 کلومیٹر بنتا ہے۔ اس کے علاوہ چھت پر طواف اور سعی ملا کر آٹھ کلومیڑ بن جاتا ہے۔ سو اب تک ہم کم از کم  بیس کلومیٹر چل چکے تھے اور ابھی ہوٹل سے منٰی کیمپ تک کا ساڑھے چھے کلومیٹر کا سفر باقی تھا۔

 

ہوٹل میں ہمارے کچھ اور ساتھی بھی منٰی جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ بھی خواتین تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ منٰی میں اپنے کیمپ تک سواری کا انتظام  کر رہے ہیں۔ اگر ہم پیسے ملائیں تو وہ  ہمیں بھی ساتھ لے جائیں گے۔ ہم  راضی ہو گئے۔ کچھ دیر خجل خواری کے بعد  مجھے اندازہ ہو گیا کہ کیمپ تک کی سواری ملنا ناممکن ہے۔ لہٰذا  میں نے ان لوگوں سے معذرت کی اور اپنی بیگم کے ساتھ پیدل ہی منٰی روانہ ہو گیا۔ اگلی صبح جب ان لوگوں سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ انہیں ایک ٹیکسی مل گئی تھی لیکن اس نے انہیں منٰی  کی حدود یعنی جمرات کے سامنے شیشہ کے علاقے میں اتار دیا۔ یہاں سے ہمارا کیمپ تقریباً پانچ کلومیٹر دور تھا۔ تماشا یہ کہ  شیشہ، جہاں ان لوگوں کو اتارا گیا تھا ، وہ ہوٹل سے صرف ایک کلومیٹر دور تھا۔

 

مشورہ:   حج کے دوران، جب حرم کے پاس   ٹیکسی ڈرائیور مونا مونا ( دراصل منٰی) کی آوازیں لگا رہے ہوں تو ان کی مراد جمرات سے تقریباً آدھا کلومیٹر  پہلے ’شیشہ‘ پر اتارنے کی ہوتی ہے۔ آپ ہمیشہ جمرات سے اپنے خیمے کے فاصلے کا تعین کریں ۔ پھر فیصلہ کریں کہ یہ ٹیکسی یا کوچ لینا آپ کے لئے فائدہ مند ہے یا محض وقت اور پیسوں کا زیاں۔ یاد رہے کہ ٹریفک کے اژدحام کی وجہ سے، حرم  سے منٰی کے درمیان، سواریاں پیدل سے زیادہ  وقت لیتی ہیں۔

 

اب ہم یوم النحر کے پیدل سفر کے آخری حصے میں تھے۔ پچھلے دو دن کی تکان اور آج تقریباً بیس کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد مزید چلنے کی بالکل بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔ لیکن  دل ایک ایسے انعام، ایک ایسی نعمت کو ضائع کرنے کو تیار نہ تھا جس کے لئے اتنے عرصے انتظار کیاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے مدد کی۔  ہم نے آہستہ آہستہ سفر کا آغاز کیا  ۔ اپنا  ذہن بنا لیا کہ جلدی نہیں کرنی۔ جہاں ضرورت پڑے آرام کرتے ہوئے اپنے کیمپ تک پہنچنا ہے۔ سو یہی کیا۔ جہاں تھک جاتے کچھ دیر آرام کر لیتے، ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیتے ، کچھ پھل کھا لیتے، اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے پھر چلنا شروع کر دیتے۔


کیمپ  کے قریب پہنچے تو تقریباً رات کے تین بج رہے تھے۔ ہمارے کیمپ کے قریب ہی منٰی ہسپتال تھا۔ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ بیگم صاحبہ کی کھانسی بڑھ رہی تھی لہٰذا ہم ہسپتال چلے گئے ۔ ہسپتال رات کے اس پہر تقریباً خالی پڑا تھا۔  جیسے میں نے پہلے بھی ذکر کیا اس ہسپتال میں نہ صرف معائنہ مفت تھا بلکہ دوائیں بھی مفت دی گئیں۔ کیمپ پہنچے تو کچھ ہی دیر میں تہجد کا وقت ہو گیا لہٰذا سونے کے بجائے  تہجد اور فجر کی نماز یں ادا کیں، اور  پھر سکون سے نیند پوری کی۔

 

اگلا دن یوم تشریق تھا۔ یعنی ایام تشریق کا پہلا دن۔ آج   ہمیں صرف رمی کرنی تھی اور منٰی میں قیام کرنا تھا۔ ہم نماز ظہر سے کچھ پہلے  رمی کرنے جمرات پہنچ گئے۔ ایک بار پھر انتہائی آسانی سے رمی  کی۔ اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ایسکیلیٹرز  کے ذریعے تیسری منزل سے نیچے پہنچ گئے۔  آج بھی ہم منٰی سے  اپنا فالتو سامان لے آئے تھے جوہوٹل پہنچانا تھا۔ جمرات سے شیشہ تک تقریباً آدھے کلومیٹر کا راستہ ہے۔ راستے میں پنکھوں کے ذریعے پانی کی پھوار برسائی جا رہی تھی جس کی وجہ سے بیچ دوپہر میں بھی دھوپ میں پیدل چلنا برا نہیں لگ رہا تھا۔  راستے میں جمرات کمپلیکس کے برابر میں KFC اور ’البیک‘ کے بڑے ریسٹورینٹ ہیں۔ لیکن ہجوم کی وجہ سے وہاں  جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ جمرات کی عمارت سے  بِن داؤد، شیشہ تک  بے شمار  واٹر کولرز لگے ہیں ۔ پھر بھی پانی کی ٹھنڈی بوتلیں بانٹی جا رہی تھیں۔

 

شیشہ کے علاقے میں ہماری سب سے بڑی دلچسپی  ’بِن داؤد ‘ اسٹور تھی۔ جب بھی یہاں سے گذرتے ، کھانے پینے کی اشیاء خرید لیتے۔یہاں عمدہ معیار کی بے شمار اشیاء مناسب دام پر مل جاتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ  ہر شے کی قیمت لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ چھوٹی  دکانوں میں اشیاء کی قیمتیں لکھی نہیں ہوتیں۔ خریداری کے بعد دکاندار دل ہی دل میں کچھ حساب کرتا ہے اور آپ سے کوئی بھی رقم مانگ لیتا ہے۔ دکان میں خریداروں کا ہجوم ہونے کی وجہ سے آپ پوچھ بھی نہیں سکتے کہ کس شے کی کیا قیمت لگائی  گئی ؟ جمع تفریق بھی صحیح کی تھی یا نہیں؟

 

ہوٹل پہنچ کر کچھ دیر آرام کیا ، نمازیں ادا کیں ، نہائے اور شام کو پھر منٰی واپس آگئے۔  آپ  سوچ رہے ہوں گے کہ ہم منٰی سے روزانہ ہی اپنے ہوٹل پہنچ جاتے تھے۔ دراصل ہوٹل کے ٹوائلٹس، منٰی کے ٹوائلٹس کی نسبت کشادہ اور صاف ستھرے ہوتے ہیں لہٰذا  وہاں نہانا دھونا زیادہ آسان اور پاکیزہ تھا۔ اوپر دی ہوئی منٰی کی تصویریں دیکھ کر اندازہ کر لیں کہ اگر اس جگہ کھڑے ہو کر نہانا ہو تو کیا حال ہوگا۔

 

ان تین  دنوں میں ہم نے پیدل  مزدلفہ سے منٰی ، منٰی سے جمرات، جمرات سے حرم  کا سفر کیا اور  واپس بھی پیدل ہی آئے۔  الحمدللہ ایک بار بھی ہم نہ تو کہیں بھٹکے اور نہ ہی کسی سے راستہ پوچھنے کی ضرورت پڑی۔  اس کی دہ وجوہات تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ حج پر جانے سے پہلے میں نے Google map پر virtuallyیہ سارا سفر کر لیا تھا۔ لہٰذا راستہ یاد ہو گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ سعودیہ جانے سے پہلے اپنے موبائل فون میں مکہ، منٰی اور عرفات کا نقشہ ڈاؤن لوڈ کر لیا تھا ۔ اگر کہیں ضرورت پڑتی، تو اپنے موبائل پر راستہ دیکھ لیتے۔ آپ بھی یہی کیجئے گا۔

 

بارہ ذی الحج  ، منٰی کے قیام کا آخری دن تھا۔ ہمیں پتہ چلا کہ منٰی میں ہمارے کیمپ سے کوچز چلیں گی جو ہمیں ہوٹل  واپس لے جائیں گی۔  اب ہمارے پاس دو راستے تھے۔ یا تو کوچ کا انتظار کرتے یا پیدل سفر کرتے۔ ہمارا تجربہ تھا کہ  کوچز کے انتظار میں کئی گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں اور لوگوں کی بدنظمی کی کوفت الگ جھیلنا پڑے گی۔ پھر 6.5 کلومیٹرز ہی کی تو بات ہے۔ ٹہلتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ ویسے بھی اتنے دن میں پیدل چلنے کی عادت پڑ چکی تھی۔ زیادہ تر سامان بھی ہوٹل پہنچ چکا تھا۔ تو جناب  ہم نے پیدل  واپسی کا فیصلہ کیا۔

 

آج حج کا آخری دن تھا اور رمی جمار اس کا آخری رکن۔ لہٰذا طبیعت بہت شاد تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بظاہر اتنے مشکل لگنے والے اعمال اس قدر آسانی سے کروا دئیے۔    پچھلے  چند دنوں میں ہم نے ایک بات سیکھی کہ بہت زیادہ جسمانی مشقت  کے دوران پھل کھانے، اور شَکَر سے بھرپور غذائیں لینے سے مشقت آسان ہو جاتی ہے۔ ہمارے پاس کچھ سیب اور انگور رکھے تھے۔ جمرات جاتے ہوئے  راستے میں ایک شاپنگ بیگ میں ٹھنڈا پانی بھرا اور انگور دھو کر اس میں ڈال دئیے۔ اب یہ شاپنگ بیگ  ہمارا چلتا پھرتا فریج  بن گیا۔ جہاں پانی تھوڑا گرم ہوتا، ہم راستے میں موجود واٹر کولر سے پھر ٹھنڈا پانی بھر لیتے۔ اس طرح راستے بھر ٹھنڈے ٹھنڈے  انگور کھاتے رہے  اور راستہ چلتے حجاج کی خدمت میں بھی  پیش  کرتے رہے۔ جو حاجی بھی انگور اٹھاتا، ٹھنڈے انگور کھا  کے  خوش ہو جاتا۔ آپ بھی یہ طریقہ آزما کر دیکھئے گا۔   جمرات پہنچے۔ اطمینان سے آخری دن کی رمی کی اور ہوٹل کی راہ لی۔

 

الحمدللہ ثم الحمد للہ آج حج کے تمام ارکان ادا ہو گئے۔

 

مشورہ:  ہم نے طوافِ زیارت یوم النحر یعنی 10 ذی الحج کو ہی کر لیا تھا۔  لیکن عرفات، مزدلفہ اور پھر  رمی کرنے کے بعد بہت تھکن ہو گئی۔  اگر مشق نہ ہو تو ایک ہی دن میں 25 سے 30 کلومیٹر چلنا عقلمندی نہیں۔ اگر طواف ِ زیارت 11 ذی الحج کو کیا جائے تو  اس کے دو فائدے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ دن کے جس حصے میں چاہیں طواف کر سکیں گے۔ دوسرا یہ کہ 25 سے 30 کلومیٹر کے سفر کو دو دن میں تقسیم  بھی کر سکیں گے۔   جس سے تھکن بھی   کم ہو گی۔ 

 

آج سے  حجاج مدینہ کے لئے روانہ ہونے لگے۔  جو پہلے مدینہ گئے تھے، اپنے گھر لوٹنا شروع ہو گئے۔   ہم حج کے لئے براہِ راست مکۃ المکرمۃ گئےتھے ۔ تو اب مدینۃ المنورۃ   روانگی کے لئے انتظار کرنے لگے۔ حج کے تمام ارکان ادا  ہو چکے تھے۔  لہٰذا   ہم نے حرمِ مکہ میں زیادہ وقت گذارنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے دن گذر رہے تھے حرم میں لوگوں کا ہجوم کم ہوتا جا رہا تھا۔

 

اگلے دن جمعۃ المبارک تھا۔ نمازِ جمعہ کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے  اور مسجدالحرام میں نمازِ جمعہ ادا کرنا ہر مسلمان  کی سب سے بڑی خواہش۔   میں پچھلے جمعے میں لوگوں کی کثیر تعداد دیکھ چکا تھا  اس لئے ہم نے نمازِ فجر کے بعد مسجد الحرام میں ہی رکنے کا ارادہ کیا کہ حرم کے اندر ہی نماز جمعہ ادا کی جا سکے۔ نمازِ فجر کے بعد ، طوافِ وداع کیا ۔  کچھ دیر بعد ناشتے کےلئے  الصفوہ  ٹاور کے فوڈ کورٹ چلے گئے۔ ناشتے کے بعد تقریباً  دس بجے دوبارہ حرم پہنچے تو باب فہد کی جانب تمام دروازے بند کئے جا چکے تھے۔ وہاں سے گھوم کر باب ملک عبداللہ پہنچے تو  صرف خواتین کو اند ر جانے دیا جا رہا تھا۔  یہی حال باقی دروازوں کا بھی تھا۔ میں نے بیگم صاحبہ کو تو مسجد کے اندر بھیج دیا ۔ اور خود باہر جگہ ڈھونڈنے لگا۔ آج شدید گرمی تھی۔ مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں جائے نماز، چھتری وغیرہ ساتھ نہیں لایا۔ کیونکہ مسجد الحرام میں ہی نماز کا ارادہ تھا۔ لیکن اب تو مسجد میں داخلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لوگ 9 بجے سے ہی وضو کر کے مسجد کے اندر جمع ہو گئے  تھے۔  آپ  بھی اس  کا خیال رکھئے گا۔ یا تو تیار ہو کے 9 بجے ہی مسجد میں بیٹھ جائیں یا پھر دھوپ  اور لُو سے بچنے کے انتظامات رکھیں۔  نماز  جمعہ کے بعد ہم  ہوٹل کی کوچ کا انتظار کرتے رہے لیکن  وہ حرم کے چاروں طرف ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے واپس نہ آ سکی۔  ہمارے گروپ نے  ایک گاڑی کرائے پر لی جو  شاید صبح سے ہی حرم کے علاقے میں تھی۔ لیکن اس کو بھی حرم سے باہر جانے کے ، حرم کے اطراف میں کئی چکر لگانے پڑے اور  ہم خاصی دیر میں ہوٹل پہنچے۔

 

آج نمازِ جمعہ کے  درمیان کسی وقت میرا موبائل فون کھو گیا۔  حالانکہ اس  پر   ایک اسٹکر بھی لگا تھا جس پر میرا نام اور حج آپریٹر کا فون نمبر لکھا تھا۔ لیکن  اگر کسی کو وہ فون ملا  تو اس نے واپس کرنے کی زحمت نہیں کی۔  اس فون میں سعودیہ کی SIM لگی تھی۔ دو دن بعد جب مدینہ پہنچا تو  اضافی پیسے دے کر Duplicate SIM نکلوائی۔ کیونکہ مدینہ میں خواتین اور مرد مسجد کے الگ الگ حصوں میں ہوتے ہیں تو بیگم صاحبہ سے رابطہ رکھنے کے لئے فون کی ضرورت تھی۔

 

اگلا دن  ہم  نے مسجد الحرام میں ہی گذارا۔ حج کے انتہائی مصروف دنوں میں بھی دن کے 24 گھنٹے حرم میں گزارے جا سکتے ہیں۔  نمازوں کے اوقات میں سب لوگوں کے ساتھ نماز ادا کیجئے۔ نمازوں کے درمیان  طواف،  نفل، تلاوت، دعا یا دیدارِ کعبہ ، کوئی بھی عبادت کرتے رہیں۔ چاہیں تو وسیع مسجد میں کہیں بھی جگہ تلاش کر کے اپنی نیند پوری کرلیجئے ۔  بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد صفائی کا عملہ  لوگوں کو ہٹا کر پورا فرش دھوتا ہے۔ جس سے آپ کی نیند میں خلل پڑتا رہے گا۔   بھوک لگے تو کلاک ٹاور کی عمارات میں،  باہر سڑکوں پر اور اوپر فوڈ کورٹس میں  کھانے کی بے شمار دکانیں ہیں ۔ وضو خانوں میں بشمول نہانے کے تمام سہولیات موجود ہیں۔ 

 

شام کو ہوٹل واپس آئے۔ واپسی میں ٹیکسی نہیں مل رہی تھی۔ اتفاق سے وہیں ایک کوسٹر حجاج کرام کو مسجد الحرام کے لئے اتار رہی تھی۔ جب سارے مسافر اتر گئے  تو میں نے دروازہ بند ہونے سے پہلے ڈرائیور سے کہا کہ ہمیں سرنگ کے دوسری طرف  اتار  دے۔ سڑک کے جس حصے پر  کوسٹر کھڑی تھی وہاں  اس کے پاس سرنگ پارکرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ ڈرائیور نے  اخلاقاً لفٹ دے  دی۔ کوسٹر میں بیٹھنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ کسی پاکستانی حج گروپ کی کوسٹر تھی اور ایک پاکستانی لڑکا اسے ڈرائیو کر رہا تھا۔ دو چار منٹ کے بعد ہم اپنے ہوٹل کے سامنے پہنچ گئے۔ میں نے ڈرائیور کو دس ریال دیےجو اس نے شکریہ ادا کر کے رکھ لیے۔   اس طرح ٹیکسی والوں کی اجارہ داری  کم کرنے کا ایک کارآمدنسخہ ہاتھ آگیا۔

  

مدینۃ المنورہ

 پیر  27 اگست 2018

ہمارے پیکیج کے حساب سے  ہمیں 25 اگست کو مدینۃ المنورۃ جانا تھاجہاں ہمیں  پانچ  دن گذارنے تھے۔ لیکن حج  آپریٹر کی مہربانی ، جس نے ہمیں 27اگست  کو مدینہ بھیجا۔ اس وجہ سے ہمیں مدینہ میں صرف تین  دن رکنے کا موقعہ ملا۔ جو اللہ تعالیٰ کی مرضی۔

 

صبح،  مدینہ  جانے سے پہلے ایک  قریبی نانبائی سے دو بڑے نان اور فَول (دال کی طرح بنے لوبیے  جس پر زیتون کا تیل ڈال دیا جاتا ہے) خرید لیا۔ قیمت  صرف پانچ ریال بنی ۔  یہ ایک لذیذ مقامی کھانا ہے  اور تازہ نان کے ساتھ انتہائی مزیدار لگتا ہے۔   مکہ پہنچے کے بعد شروع کے دنوں میں ہم یہ کھانا کھا چکے تھے ۔ سوچا کہ جاتے جاتے ایک بار پھر  چکھ لیا جائے۔

 

مکہ سے مدینے کا سفر  کوچ کے ذریعے تقریباً سات سے آٹھ گھنٹے کا ہے جس میں آدھے گھنٹے کا نماز اور کھانے کا وقفہ بھی شامل ہے۔  کار سے تقریباً  پانچ  گھنٹے اور  نئی الحرمین   ہائی اسپیڈ ٹرین سے صرف  دو  گھنٹے لگتے ہیں۔  حج  آپریٹر نے  ہمارے گروپ کے لئے ایک کوچ  بک کی ہوئی تھی جو صبح دس بجے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئی۔   کوچ بہت آرام دہ تھی اور ڈرائیور خاصی معقول ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ مکہ سے باہر نکلتے ہی چیک پوسٹ پر ہمارے پاسپورٹ سرسری طور پر چیک کئے گئے۔ تقریباً چار گھنٹے  کے بعد ایک جدید ’سروسز‘   نظر آئی جس میں ’البیک‘ اور Hardeesوغیرہ جیسی کھانے کی سہولیات موجود تھیں۔ لیکن ہماری بس  اسے پیچھے چھوڑکر ایک پرانے انداز کے ڈھابہ ہوٹل پر  جا رکی جس کا سبب صرف ڈرائیور ہی جانتا  تھا۔ یہاں مسجد، اور وضو  کا انتظام بھی تھا۔ سب نے نمازِ ظہر ادا کی۔  کھانے کے بعد ہوٹل گئے لیکن ہوٹل کا ماحول دیکھ کر وہاں کھانا کھانے کا  دل نہیں چاہا۔  اس وقت مکہ سے کھانا خریدنے کی افادیت ثابت ہوئی ۔ بس میں بیٹھ کر ہی فَول اور نان کھائے جو انتہائی مزیدار تھے۔ بعد میں ہوٹل سے چائے خرید لی جو گزاراہی تھی۔

 

سعودی عرب میں چائے کی عام دکانوں میں، جب آپ چائے مانگیں گے تو وہ آپ کو Tea bag سے بنی ہوئی چائے دے دیں گے۔ اگر اس میں چینی پہلے ہی شامل ہو تو  دو چمچے چینی ہو گی۔ بہتر ہے آپ اس سے پہلے ہی شائے ، ’نصف سکر‘ (چینی آدھی) کہہ کر چائے مانگیں۔  اگر پاکستانی انداز کی پکی ہوئی چائے پینی ہو تو پھر شائے نہیں بلکہ ’شائے  عدنی ‘ کہئے۔  ’نصف سکر‘  اس کے ساتھ بھی کہنا پڑے گا۔    2018 میں حج کے دوران چائے کی قیمت دو  ریال اور چائے عدنی کی قیمت تین ریال تھی۔

 

چند گھنٹوں میں مدینۃ المنورہ  کی حدود میں داخل ہو گئے۔  یہاں ایک بار پھر پاسپورٹ چیک ہوئے  اور سعودی حکومت کی طرف سے آبِ زم زم اور کچھ کھانے کی اشیاء پیش کی گئیں۔ مدینہ منورہ میں داخلے سے لے کر عظیم الشان مسجدِ نبویﷺ تک سارا شہر مکۃ المکرمہ کی  بہ نسبت زیادہ سر سبز ، خا صا جدید اور صاف ستھرا لگا۔ مکۃ المکرمہ  میں مسجد الحرام کے اطراف میں اب بھی بہت  سے پرانے علاقے اور مکانات موجود ہیں ۔ جن کی وجہ سے  مکہ کا تاثر ایک قدیم اور بے منصوبہ شہر کا بنتا ہے۔  لیکن مدینۃ المنورہ   پہلی نظر میں زیادہ  دلنواز لگا۔

 

میں یہاں مدینۃ المنورہ میں داخلے کے وقت  کی دلی کیفیات لکھنے کے بجائے دنیاوی تجربات کی طرف جاؤں گا کہ اگر قلم بہک گیا تو صفحے کے صفحے ، دل کا حال بیان کرنے کے لئے کم پڑ جائیں گے۔  مدینے میں داخلے کے بعد درود و سلام پڑھتے پڑھتے ہوٹل تک پہنچ گئے۔ یہ ہوٹل مسجد نبویﷺ کے باب ملک فہد کے بالکل سامنے والی سڑک پر تقریباً آٹھ منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔ اس بار ہوٹل کا کمرہ صرف چار لوگوں کے لئے تھا جو کہ ایک  راحت  محسوس ہوئی۔ ہوٹل پہنچ کر  دربارِ نبوی ﷺ میں داخلے کے لئے تیار ہوئے، نہا دھو کر حسبِ توفیق اچھے کپڑے پہنے،  خوشبو  لگائی اور آقا کے دربار میں سلام کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ اگلے دو دن یہی مصروفیت تھی کہ جتنا بھی ممکن ہوتا، دربارِ نبوی ﷺ میں  وقت گزارتے۔ 

 

مدینہ منورہ میں نماز پڑھتے ہوئے  احساس ہوا کہ یہاں نماز بہت سکون سے  ادا کی  جاتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان  کم از کم ۱۵ منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔ مکۃ المکرمہ میں نماز عصر اور نماز عشاء (جن نمازوں میں فرض سے  پہلے سنت غیر مؤکدہ ہوتی ہیں)  کی اذان کے فوراً بعد ہی اقامت ہو جاتی ہے۔ پھر مدینہ منورہ میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد  اگلی سورۃ سے پہلے توقف کیا جاتا ہے جبکہ مکۃ المکرمہ میں سورۃ فاتحہ کے فوراً بعد ہی اگلی سورۃ کی تلاوت شروع کر دی جاتی ہے۔  ممکن ہے کہ حج کے دنوں میں مکۃ المکرمہ میں خصوصی طور پر ایسا کیا جاتا ہو۔ انشاءاللہ جب عمرے پر جانا ہوا تو  دوبارہ اس کا مشاہدہ کروں گا۔

 

مدینہ کے  ہوٹل میں کھانے کا انتظام مکہ کی طرح نہیں تھا لہٰذا ہم نے زیادہ تر باہر ہی کھانا کھایا۔ حرم کے اطراف  کے عام  ریسٹورینٹس میں  کھانا  بس واجبی سا  لگا لیکن  ریسٹورینٹس کے عملہ اور  دکانداروں کا اخلاق  مکہ کے دکانداروں سے  بہت بہتر لگا۔ اگرچہ ہمارے دکاندار اب تک اسلام کے بتائے ہوئے کاروبار کے معیار تک نہیں پہنچ سکے ۔ اشیائے صرف کا معیار دیکھنا اور پرکھنا اب بھی  خریدار ہی کی ذمہ داری ہے لیکن  دکانداروں کی خوش اخلاقی کی وجہ سے ، خریدی گئی اشیا ء کے نقص بھی گوارا ہو گئے۔ 

 

مدینۃ المنورہ میں مسجدِ نبوی ﷺ کے چاروں اطراف مختلف شاپنگ سینٹرز میں ہر طرح کی دکانیں موجود ہیں جہاں ہر طرح کی سوغاتیں بآسانی دستیاب ہیں۔ قریب ہی ایک تمر (کھجور) مارکیٹ بھی ہے جہاں کھجوریں نسبتاً سستی اور بہتر معیار کی مل جاتی ہیں لیکن ہم نے وقت کی کمی کی وجہ سے ہوٹل کے برابر میں واقع دوکان سے ہی کھجوریں اور دیگر تحائف خرید لئے۔ اگر آپ کے پاس مناسب وقت ہو تو مسجدِ نبوی ﷺ کے سامنے واقع ہوٹلز کے نیچے واقع شاپنگ مالز سے حسبِ منشا خریداری کر سکتے ہیں۔

 

 مدینۃ المورۃ میں کچھ زیارتیں بہت ضروری ہیں۔ نبی پاک ﷺ باقاعدگی سے مسجدِ قبا تشریف لے جایا کرتے تھے۔ غزوہ احد کے بعد آپ ﷺ کے  متواتر میدانِ احد  تشریف لے جانے کی احادیث  بھی موجود ہیں۔  لہٰذا  ان مقامات پر  ضرور جائیں۔ مدینۃ المنورہ کی زیارات ہمارے پیکیج میں شامل تھیں سو ہم نے    ان مقامات ، مسجد ذوالقبلتین اور سبع مساجد ، مسجد قبا اور میدان احد میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔  ویسے یہ تمام مقامات مسجدِ نبوی ﷺ سے زیادہ دور نہیں ہیں ۔ چند گھنٹوں میں ان تمام مقامات کی زیارت  بھی ہو سکتی ہے اور  ہر جگہ نوافل ادا کئے جا سکتےہیں۔ عموماً حج پیکیج میں یہ زیارات شامل ہوتی ہیں۔   لیکن  آپ چاہیں تو خود بھی زیارات کر سکتے ہیں۔ حرم کے قریب جگہ جگہ ٹیکسی والے زیارات کی آوازیں لگاتے ہوئے ملیں گے۔ لیکن یہ آپ سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کرنے کی کوشش کریں گے۔ مسجدِ نبوی ﷺ کے باب فہد ( ۲۵ نمبردروازے) سے باہر نکلیں اور اس سڑک پر ہوٹلز ختم ہونے تک چلتے رہیں تو وہاں کوچ والے زیارۃ زیارۃ کی آوازیں لگا رہے ہوں گے۔   حج  کے دوران یہ پچیس ریال فی سواری لے رہے تھے۔ اگر آپ چار یا پانچ لوگوں کا گروپ ہوں  اور 150 ریال تک ٹیکسی  مل جائے تو بھی برا نہیں۔  لیکن ٹیکسی والے  500 ریال سے بات شروع کرکے 250 ریال تک چارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  

گھر واپسی

بدھ 29 اگست 2018

نمازِ عشاء کے بعد ہم نے اپنا سامان جدہ جانے والی کوچ میں رکھوایا اور عازمِ جدہ ہوئے۔ راستے میں ایک بار پھر ڈرائیور صاحب  نے ہمیں ایک ایسی سروسز میں اتارا جو بھوت نگر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ مسجد اور وضو کی جگہ بس  پارکنگ سے کوئی 200 میٹر دور تھیں۔ رات کے دوسرے پہر وہاں جانا اور پھر خواتین کا حصہ جو  صحرا کی طرف تھا، وہاں پہنچنا کوئی خوشگوار تجربہ نہیں تھا۔ راستے میں آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور خطرہ تھا کہیں وہ پیچھے ہی نہ لگ جائیں۔ بہرحال ایسا نہیں ہوا اور سب لوگ خیریت سے نماز ادا کر کے، اور پیٹ پوجا کرنے کے بعد کوچ میں پہنچ گئے۔  صبح فجر کے وقت ہم جدہ ائرپورٹ پہنچے۔  ٹرمینل بلڈنگ میں ٹرالی ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن  قریب میں ٹرالی نہیں ملی۔ میرے پاس موجود تمام  صندوقوں میں پہیئے لگے تھے لہٰذا میں ٹرالی کی تلاش میں ہلکان ہونے کے بجائے جلد ہی واپس آگیا۔ آتے ہی ایک پورٹر صاحب مل گئے۔ انہوں نے ایک ٹرالی   پر ہمارا سامان رکھا۔ پھر ٹرمینل بلڈنگ کے باہر  آبِ زم زم کے اسٹال پر لے گئے جہاں  ساڑھے سات ریال فی بوتل  پیکنگ چارجز وصول کر کے  5 لٹر کی بوتلیں ہمارے حوالے کر دی  گئیں۔  بعد میں ان صاحب نے ہمیں ٹرمینل بلڈنگ کے اندر پہنچا کر پیسے مانگے۔ ان کی قمیض پر 10 ریال فی پھیرا کا طغرہ آویزاں تھا۔ میں نے ان کو 15 ریال دیئے جو انہیں پسند نہیں آئے اور انہوں نے بنگالی زبان میں مجھ سے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا۔ بہرحال میں نے 20 ریال دے کر معاملہ ختم کیا۔

 

ائرپورٹ ٹرمینل کشادہ اور اچھا بنا ہوا تھا۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔  عام حج آپریٹر ناگہانی حالات سے بچنے کے لئے مسافروں کو  فلائٹ سے تقریباً سات گھنٹے  قبل ائرپورٹ پہنچا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے  مسافروں کی ایک بڑی تعداد بلاوجہ وہاں جمع ہو جاتی ہے۔ اور وہاں موجود سہولیات ان کے لئے کم پڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ائرپورٹ ٹرمینل پر وافر مقدار میں کرسیاں  لگی تھیں ۔ لیکن کچھ لوگ ایک سے زیادہ کرسیوں پر دراز ہو کر نیند پوری کر رہے تھے ۔ جن کے حصے میں ایک کرسی آئی وہ بھی پانچ سے چھے گھنٹے کرسی گھیرے بیٹھے  رہے۔  باقی لوگوں کی طرح ہم  نے بھی  پانچ گھنٹے تک دو  کرسیاں اور ایک ٹرالی گھیرے رکھی۔  اگر تمام لوگ فلائٹ سے ایک یا دو گھنٹے پہلے آتے تو کسی کو بھی یہ پریشانیاں نہ ہوتیں۔ 

 

نمازِ فجر ہم نے ٹرمینل بلڈنگ میں ہی پڑھی۔  حسبِ توقع وہاں وضو اور نماز کا عمدہ انتظام تھا۔  کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد ہماری فلائٹ کا وقت آیا تو ہم امیگریشن ہال میں داخل ہو گئے۔ سعودیہ میں امیگریشن کا نظام کسی حد تک سست ہے پھر بھی ہمیں وہاں بہت زیادہ وقت نہیں لگا۔  سامان جمع کروانے کے لئے جب مڈل ایسٹ ائرلائین کے کاؤنٹر پر پہنچے تو ایک صاحب ہمارا راستہ کاٹتے ہوئے کاؤنٹر پر پہنچ گئے۔ ابھی میں غصہ ہونے ہی والا تھا کہ کاؤنٹر پر موجود افسر نے مسکرا کر مجھ سے معذرت کی۔ اس نے بتایا کہ اس شخص کی بکنگ ہو چکی ہے اور  ایک ڈاکیومنٹ  دینے آیا ہے۔ سعودی عرب میں مسکرا کر معذرت کرنا ایک نایاب عمل ہے۔ لہٰذا میرا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ قصہ مختصر، سامان کی بکنگ سے لے کر پاسپورٹ کنٹرول تک کوئی شکایت نہیں ہوئی۔

 

بورڈنگ  گیٹ پر پہنچے تو وہی منظرتھا۔ لوگ ایک سے زیادہ نشستوں پر استراحت فرما تھے اور بعد میں آنے والے کھڑے رہنے پر مجبور تھے۔  چونکہ  دوپہر کے کھانے کا وقت بھی ہو چلا تھا تو میں نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور بورڈنگ ہال میں موجود البیک سے برگرز خرید لیے۔ حیرت انگیز طور پر سعودیہ کا مشہور ترین  برانڈ ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بورڈنگ ہال میں موجود دوسری کھانے کی دکانوں سے کہیں کم تھیں۔ ان کے بڑے برگر کی قیمت  شاید 11 ریال تھی۔ اس کے علاوہ  ونیلا آئس کریم کا خاصا بڑا کپ 2 ریال اور چاکلیٹ آئس کریم کا کپ 3 ریال میں مل رہا تھا۔ ہم نے کھانا کھانے کے بعد ان کے ڈائننگ ہال میں بیٹھے رہنے کو ترجیح دی اور بورڈنگ شروع ہونے کے بعد بورڈنگ گیٹ پر پہنچے۔

 

حسبِ توقع مڈل ایسٹ ائر لائنز کی فلائٹ اچھی تھی۔ بیروت ائرپورٹ پر ایک دفعہ پھر اس سست رَو اسکیننگ مشین سے واسطہ پڑا ۔ لیکن اس دفعہ ائرپورٹ پر ایک نیا ، ناخوشگوار تجربہ ہمارا منتظر تھا۔  تقریباً سب مسافر لندن کی فلائٹ  لینے بورڈنگ ہال میں پہنچ   چکے تھے اور کرسیوں پر بیٹھے فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔اچانک  ایک نئی سیکیورٹی    ٹیم ہال میں داخل ہوئی۔ ان کے پاس کچھ صندوق تھے جس میں کچھ مختلف  طرح کے اسکینرز تھے۔   انہوں نے سب مسافروں کو ہال سے باہر نکل کر قطار بنانے کا حکم دیا۔ اور ایک بار پھر ہر ایک کی تفصیلی تلاشی لینے کے بعد انہیں ہال میں بیٹھنے کی اجازت دی۔

 

ہم بورڈنگ ہال سے نکل کر بجائے قطار میں لگنے کے، سامنے والے دوسرے بورڈنگ ہال میں بیٹھ گئے۔ جب قطار ختم ہو گئی  تو ہم اٹھ کر  اپنے بورڈنگ ہال میں  واپس آئے، تلاشی دی اور ہال میں بیٹھ گئے۔ لیکن اس کوفت کا ازالہ فلائٹ میں ہو گیا۔  اللہ تعالیٰ کے کرم سے رات گئے  خیریت سے ہیتھرو ائرپورٹ پہنچ گئے۔ جلد ہی سارا سامان بھی آگیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم ٹیکسی میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے جو میں نے حج پر جانے سے پہلے ہی بک کرالی تھی۔  

 


 

حج کا مسافتی نقشہ

 


Source: https://thewahyproject.com/tag/where-is-hajj/

سوال جواب

 

 سوال ۔ حج کی تیاری کب شروع کی جائے؟

جواب ۔ اس کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے۔ میں نے تو تقریباً آٹھ مہینے پہلے ہی تیاری شروع کر دی تھی۔ جتنی جلدی تیاری شروع کر دیں اتنا ہی اچھا ہے۔

 

سوال ۔ حج کی کون سی خاص تیاری  کرنا چاہئے؟

جواب۔ کوشش کریں کہ آپ کو حج کے ارکان زبانی یاد ہو جائیں۔ یہ زیادہ مشکل نہیں ہے کیوں کہ حج کے بہت کم ارکان ہیں۔ اگر روانگی سے ایک یا دو مہینے پہلے آپ انٹرنیٹ پر وڈیو لیکچرز دیکھنا شروع کر دیں تو یہ بآسانی یاد ہو جاتے ہیں۔  اپنے موبائل فون پر حج سے  متعلق  ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ یہ حج کے دوران بہت کام آئیں گی۔

 

اس کے علاوہ چلنے کی مشق شروع کر دیں۔ ایک انسان کے چلنے کی اوسط رفتار 5 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اگر آپ کو چلنے کی عادت نہیں ہے تو حج سے دو یا تین مہینے پہلے روزانہ  آدھا گھنٹہ چلنا شروع کر دیں اور اس کو ایک گھنٹہ روزانہ تک بڑھا دیں۔  اس طرح آپ کو 5 کلومیٹر روزانہ چلنے کی عادت ہو جائے گی۔ جو کہ نہ صرف حج کے دوران کام آئے گی بلکہ اس سے آپ کی صحت بھی بہتر ہوجائے گی۔ 

 کوشش کریں کہ اپنے ساتھ لے جانے  والے سامان کی فہرست پہلے ہی بنا لیں اور ضروری چیزیں بر وقت خرید لیں۔ انٹرنیٹ پر بہت سے  لوگوں نے اپنے تجربات اور ضروریات کے مطابق  سامان کی فہرستیں رکھی ہوئی ہیں۔ انہیں پڑھ کر اپنے مطلب کی ایک فہرست بنائیں اور اس کے مطابق سامان جمع کر لیں۔

 

سوال ۔ حج پر جاتے ہوئے کون سے کاغذات لے جانے چاہئیں؟

جواب۔ اپنا پاسپورٹ، ویزا،  ویکسینیشن سرٹیفیکٹ اور ان کی کم از کم دو، دو فوٹو کاپیاں ضرور لے جائیں۔

 

سوال ۔ حج پر جانے کے لئے ریال کہاں سے خریدیں؟

جواب ۔  آپ کو سعودیہ  میں داخلے سے لے کر ہوٹل پہنچنے تک پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ یہ سارے انتظام حج آپریٹر ہی کرتا ہے لیکن اگر آپ  ائرپورٹ سے  موبائل فون کی سم خریدنا چاہتے ہیں تو تقریباً ۱۰۰ ریال  فی موبائل کنکشن اپنے پاس رکھیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ ۱۰۰ ریال فی کس اپنے پاس رکھ لیں تو اگلے دو یا تین دن کے خرچے کے لئے کافی ہوں گے۔ اس دوران آپ مسجد الحرام کے پاس کسی بھی صراف ( کرنسی ڈیلر) سے ریال خرید سکتے ہیں۔ چونکہ سعودی عریبیہ میں ریال کی قیمت حکومت مقرر کرتی ہے لہٰذا  مختلف صراف کے پاس ریال کی قیمت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ 

مدینہ منورہ میں بھی مسجد نبوی کے اطراف میں کئی صراف ہیں لہٰذا مکہ اور مدینہ میں اپنی ضرورت کے مطابق ہی ریال خریدیں۔

 

سوال ۔ دورانِ حج پیسے کہاں رکھیں؟

جواب ۔ کئی مہنگے ہوٹلز میں کمروں میں  چھوٹی چھوٹی تجوریاں مہیا کی جاتی ہیں جہاں ہوٹل میں قیام کے دوران  پیسے رکھے جا سکتے ہیں۔  اگر آپ کے ہوٹل میں یہ سہولت نہیں ہے تو پھر سب سے بہترین جگہ پیسوں والی بیلٹ ہے۔  میں نے اپنےپیسوں کے تین حصے کر دیےتھے۔ دو حصے بیلٹ کی دو جیبوں میں رکھےتھے  اور ایک حصہ اس چھوٹے سے رک سیک میں رکھا تھا جس میں میں حرم جاتے ہوئے چپلیں اور موبائیل فون وغیرہ رکھ لیا کرتا تھا۔

 

کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پیسوں والی بیلٹ بھی اس رک سیک میں ہی ڈال دی۔ میں جب بھی حرم میں وضو کرتا تھا، رک سیک پہنے رہتا تھا اور نماز کے دوران رک سیک سامنے ہی پڑا ہوتا تھا۔ اس طرح ہر وقت بیلٹ پہننے کی الجھن سے بھی بچت ہو جاتی  اور پیسے بھی محفوظ رہتے۔ 

 

سوال ۔ موبائل فون کی  SIM  کہاں سے لی جائے؟

جواب ۔ موبائل فون کی SIM   ائرپورٹ پر ٹرمینل بلڈنگ سے  نکلتے ہی خریدی جا سکتی ہے جہاں  موبائل فون کمپنیز کے پتھارے (Kiosk) لگے ہوتے ہیں۔ اگر  وہاں وقت نہ ملے تو حرم کے پاس بھی جگہ جگہ پتھارے لگے ہیں جہاں موبائل فون کی  SIM فروخت کی جا رہی ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ موبائل فون کی  SIM  خریدنے کے لئے آپ کے پاس پاسپورٹ کی فوٹو کاپی ضرور ہونی چاہئے۔

 چند سال پہلے تک موبائل فون کی سم، کمپنیز کے بڑے بڑے دفتروں سے ہی خریدی جا سکتی تھی جس کی وجہ سے وہاں گھنٹوں قطاریں لگتی تھیں لیکن  ا ب ان پتھاروں پر درجنوں لڑکے دستی فنگر اسکینرز اور موبائل فون  میں موجود ایپلیکشن استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر ہی موبائلSIM  بیچ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مکۃ المکرمہ  یا مدینۃ المنورہ پہنچ کر SIM خریدنا کوئی دشوار امر نہیں رہا۔

 

سوال ۔ کیا سعودی عرب میں IMO  یا Whats App  استعمال کیا جا سکتا ہے؟

جواب۔ سعودی عرب میں یہ دونوں Apps  استعمال کی جا سکتی ہیں۔ لیکن What’s App پر صرف  تحریری پیغامات بھیجے اور وصول کئے جا سکتے ہیں۔  اگر آپ  Whats App  پر کال کرنا چاہیں تو اس کے لئے اپنے فون پر VPN app  چلانی پڑے گی۔ اس کے استعمال سے  Whats App  کی تمام  سہولیات کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔

  



[1] احرام ،عمرے اور حج کے دوران عائد پابندیوں کو کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے  لفظ حالتِ احرام استعمال ہوتا ہے۔  احرام کی شرائط میں سے ایک شرط بغیر سلے ہوئے لباس پہننا ہے۔ یعنی دو  بغیر سلی چادریں  احرام نہیں ہیں۔ بلکہ حالتِ احرام   کا لازمی لباس ہیں۔   اس کو اس مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ خواتین   حالتِ احرام میں سلے ہوئے لباس اور پیروں کو ڈھانپنے والے  جوتے پہن سکتی ہیں۔

[2]  طوافِ زیارۃ ، ایامِ تشریق میں کسی بھی دن کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ۱۰، ۱۱ یا ۱۲ ذی الحج میں سے کسی بھی دن کیا جا سکتا ہے۔ اپنے تجربے کی روشنی میں میرا مشورہ یہ ہوگا کہ ۱۱ تاریخ کو طوافِ زیارۃ کرلیں۔ اس وقت تک عرفات اور مزدلفہ کی تھکن اتر چکی  ہو گی۔ اور حرم میں ہجوم بھی نسبتاً کم ہوگا۔ 

Comments

Popular posts from this blog

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

  گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچی کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روایت ختم نہ

ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات

  ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات   بہت انتظار کے بعد ڈنکی فلم ریلیز ہو گئی۔ راج کمار ہیرانی کے پرستار بہت عرصے سے اس فلم کا انتظار کر رہے تھے۔ میری اس فلم کے انتظار کی دو وجوہات تھیں، راج کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور فلم کا غیر روایتی موضوع۔ یہاں شاہ رخ خان کا نام نہ لینے پر ان کے پرستار ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی باکس آفس پر کامیاب ترین مگر احمقانہ فلموں پٹھان اور جوان نے کم از کم میرے لئے خان کے جادو کو زائل کر دیا۔ ویسے تو شاہ رخ خان اور راج کمار ہیرانی کی جوڑی سے سب کو ایک شاہ کار کی امیدیں تھیں۔ لیکن بڑی توقعات اکثر بڑی ناکامیوں پر ہی منتج ہوتی ہیں۔   اس فلم کا موضوع بہت اچھا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کی کہانی بھی اچھی ہے۔ فلم کے پہلے حصے میں ہنستے کھیلتے جس طرح فلم کی کہانی بُنی گئی ہے وہ بہت دلکش ہے۔ فلم کے پہلے حصے کا اختتام ایک خود کشی پر ہوتا ہے جس میں ہدایت کار اور اداکار کی پرفارمنس عروج پر ہے۔ لیکن خود کشی کے فوراً بعد ساتھی کرداروں کی تقریریں اور سچویشن سراسر اوور ایکٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم کا دوسرا حصہ اگرچہ نسبتاً بوجھل ہے لیکن راج کمار ہیران

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقریب کے بعد اساتذہ کے