Skip to main content

شہر بر آب - سفرنامہ وینس


 

ایک نیا دبئی   تو پچیس سال میں بھی بن سکتا ہے

لیکن

نیا وینس  بنانے میں کم از کم ایک ہزار سال لگیں گے

 

 


 

یہ سفرنامہ کتابی صورت میں، تصویروں کے ساتھ  پڑھنے کے لئے گوگل ڈرائیو سے ڈاؤنلوڈ کیجئے 

https://drive.google.com/file/d/1rCwesJipvXLMUCr4Bpja6XlitfMDNxO2/view?usp=share_link

Download from here

 


 

 

 

فہرست

شہر بر آب

سودؔا جو تیرا حال ہے ایسا تو نہیں وہ

سفر آغاز سے پہلے

آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں

اک نگری سبز امنگوں کی  -  اک زندہ شہر خزینوں کا

وینس کی نہرِ عظیم

اک رستہ روشن زینوں کا

راہبوں کا رستہ

وینس کی پہچان

نشان راہ ملے بھی یہاں تو کیسے ملے

سان مارکو پیازا

باسلیکا   ڈی  سان  مارکو

سینٹ مارک باسلیکا  کے گھوڑے

پلازو   ڈُکالے

سِسکیوں کا پل

سان مارکو کا گھنٹہ گھر

فنکاروں کا پل

دِلوں کے تالے

ہر تمنائے سکون ساحل - الجھی الجھی رہی سیلابوں میں

وینس کی شام

خونِ غریباں

وینس کے عروج کی داستان

ہر کمال کو زوال ہے

 




 

 

 

گوگل فلائٹس پر گھومتے  پھرتے وَینِس کی فلائٹ پر نظر پڑی۔ وینس کا نام پڑھتے ہی نہروں اور ان میں  تیرتے خوبصورت گنڈولا کی تصویریں  ذہن میں گھومنے لگیں۔ سوچا کہ اس نادر شہر کی  سیاحت تو ضروری ہے۔    گوگل فلائٹس پر تفصیل دیکھنے پر پتہ چلا کہ بجٹ ائر لائن پر ٹکٹس بھی خاصی مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔ بر سبیلِ تذکرہ یہ بھی سن لیں کہ بجٹ ائرلائن کیا ہوتی ہے۔ یہ ائرلائنز چھوٹے فاصلوں  کے لئے چھوٹے اور نسبتاً غیر آرام دہ  جہازوں پر سستے ترین نرخ پر  فلائٹس چلاتی ہیں۔ لیکن   منافع کمانے کے  لئے دوسرے  طریقے اختیار کرتی ہیں۔ مثلاً  مفت سامان ساتھ لے جانے کی کوئی سہولت نہیں ہوتی۔ اگر جہاز پر کھانا   کھائیں تو خرید  کر کھانا پڑتا ہے۔ اور نشستیں بالکل کراچی کی مشہورِ زمانہ ویگن W11 جتنی چھوٹی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود بھی یہ ائرلائنز اس لئے کامیاب ہیں کہ ان کے کرائے اکثر اوقات بس کے  کرائے سے بھی کم ہوتے ہیں۔   کئی دفعہ   درونِ ملک بس   کا کرایہ زیادہ ہوتا ہے اور بجٹ ائرلائنز سے بیرونِ ملک جانے کا کرایہ کم۔

بہرحال سستے کرائے دیکھ کر  سوچا کہ ایک دو دن کے لئے تاریخی شہر وینس کی سیر کئے لیتے ہیں۔ فٹافٹ دو ائر ٹکٹس بک کروائے۔ ہوٹل بک کیا۔ برطانوی شہری ہونے کی وجہ سے ویزے کی ضرورت نہیں تھی۔  لہٰذا  اس جھنجٹ سے بچت ہو گئی۔

وینس جانے میں ابھی کئی دن تھے۔ سوچا کہ اس   خوبصورت شہر  کے بارے میں کچھ معلومات جمع کر لی جائیں تاکہ جب وہاں جائیں تو   وہاں کی تاریخ کے بارے میں کچھ علم ہو اور  ان مقامات  سے بھرپور لطف اندوز ہوا جائے۔   فی زمانہ کسی بھی علاقے کی تاریخ یا جغرافیہ جاننے کے لئے یو ٹیوب  سے  بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ سو ہم  نے بھی یو ٹیوب کی مدد سے بہت سی   معلومات حاصل کیں جن میں سے کچھ  کا ذکر یہاں  بھی کریں گے۔  

 

وینس عزمِ انسانی  کی نادر مثال ہے۔ اٹلی کے شمال  میں ایک چھوٹا سا شہر جس کی تاریخ الف لیلۃ کی داستان سے کم نہیں۔ ایک شہر، جس کا آغاز دربدَری  کی الم ناک  داستان سے ہوتا ہے،   بعد میں تاریخ  کی امیر ترین ریاست کے طور پر سامنے آتا ہے۔   گو کہ اب یہ شہر اپنی آب و تاب کھو رہا ہے اور سمندر بُرد ہو کر معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔  لیکن آج بھی اس شہر کی سینکڑوں سالہ پرانی عمارتوں میں ہزاروں کہانیاں پنہاں ہیں۔  شہر میں کتنے ہی ایسے علاقے ہیں جو وقت کو  صدیوں پیچھے پھیر کر  مسافر کو تاریخ کے پرستان میں لے جاتے ہیں۔  وینس دنیا کے منفرد ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ ایسا  شہر جہاں زندگی سڑکوں پہ نہیں نہروں پر رواں دواں ہے۔ اس شہر کا نام سنتے ہی ذہن میں دو چیزیں آتی ہیں نہریں اور ان میں تیرتے خوبصورت گنڈولا۔  لیکن  میرے خیال میں سیاحوں کی یادوں میں اس کے تاریخی اور خوبصورت پُل   زیادہ دیر تک جگمگاتے رہتے ہیں۔ یہاں تقریباً ہر قابل ذکر گلی   میں ایک نہر ہے اور پستہ قد پُل ( پُلیا )  ان گلیوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔  دن رات ان پُلوں کے نیچے سے چھوٹی کشتیاں  اور گنڈولا گذرتے رہتے ہیں ۔ جب  پستہ قد پلوں کے نیچے سے گنڈولا  کے ملاح جھک کر  اپنا سر بچاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ پل کو سلامی دے رہے ہوں۔

 

اب یہ شہر  بقیہ اٹلی  سے ایک طویل سمندری  پُل  کے ذریعے منسلک ہے جس پر ریل، بس،  اور   نجی  کاریں چلتی ہیں۔ لیکن یہ تمام سواریاں وینس کے   مغربی کنارے  سے آگے نہیں جا سکتی۔ بقیہ شہر میں    آج بھی یا  تو پیدل  یاترا کرنی پڑتی ہے  یا کشتیوں پر ہی سفر کیا جا سکتا ہے۔  وینس میں بس یا ٹیکسی نہیں ہوتیں بلکہ وہاں آبی بس یا آبی ٹیکسیاں چلتی ہیں جو کہ مختلف طرح کی کشتیاں ہی ہوتی ہیں۔

سفر سے  پہلے ایک اہم مرحلہ تھا سامان کی پیکنگ۔  لیکن کہنا پڑے گا  کہ زندگی میں کسی غیر ملکی سفر کے لئے اس سے آسان پیکنگ کبھی بھی نہیں کی۔  اس کی دو وجوہات  تھیں۔ ایک تو یہ کہ  سفر ہی دو دن کا تھا۔  لیکن زیادہ اہم بات یہ کہ وینس ایسا شہر نہیں جہاں بہت سارا سامان لے کر جایا جا سکے۔   ائرپورٹ سے وینس جانے کے دو طریقے ہیں۔ عوامی کشتیوں کے ذریعے یا بس اور ریل کے ذریعے۔



 

وینس کو بقیہ اٹلی سے جوڑنے والا پل

اگر بس یا ریل کے ذریعے شہر آئیں تو یہ سواریاں وینس کے مغربی کونے میں سینٹ لُوچیا اسٹیشن کے علاقے میں اتار دیتی ہیں۔ وہاں سے  چھوٹے بڑے پل عبور کرتے ہوئے  پیدل ہوٹل تک پہنچنا پڑتا ہے۔ بھاری یا زیادہ سامان لے کر تنگ راستوں سے گذرنا، پل سے سامان  چڑھانا اتارنا کوئی آسان کام نہیں۔  اور  پہیوں والے سوٹ کیس بھی زیادہ  کارآمد نہیں کیونکہ پل پر  تو سامان اٹھا کر  ہی لے جانا پڑے گا۔  گلیاں  پتھروں اور اینٹوں سے بنی ہوتی ہیں۔  پہیوں والے سوٹ کیس چلاتے ہوئے اتنا شور ہوتا ہے کہ سیاح شرمندگی کے مارے سوٹ کیس اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔  وہاں قلی (porter)  بھی مل جاتے ہیں  لیکن ان  کی اجرتیں ترقی پذیر ممالک کے سیاحوں کے بجٹ سے میل نہیں کھاتیں۔   تو انگریزی کا محاورہ (Trave light)    اس شہر  پر سو فیصد لاگو ہوتا ہے۔

دوسرا طریقہ ہے کہ کشتی کے ذریعے شہر پہنچا جائے۔  وینس  کے چاروں طرف اور درمیان میں بھی کشتیوں کے لئے گھاٹ بنے ہوئے ہیں۔  اگر آپ کا ہوٹل گھاٹ سے قریب ہے تو  زائد سامان  کے ساتھ بھی  ہوٹل پہنچا جا سکتا ہے  ورنہ پھر وہی الجھن۔  ہاں اگر آپ   کسی مہنگے ہوٹل میں ٹھہرے ہوں اور  آبی ٹیکسی کے ذریعے ہوٹل پہنچیں تو آپ براہِ راست ہوٹل میں اتر سکتے ہیں۔  انگریزی فلم  ( The Tourist ) دیکھ لیں اور اگر بجٹ اجازت دے تو یہ برا خیال نہیں۔  

 

 

سودؔا جو تیرا حال ہے ایسا تو نہیں وہ[1]

اس شہرِ بے مثال کی تعریفیں تو  جاری رہیں گی لیکن

خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

جتنا خوبصورت یہ شہر تصویروں میں نظر آتا ہے کچھ لوگوں کو اتنا ہی مایوس بھی کرتا ہے۔ لہٰذا   وہاں جانے سے پہلے کچھ  مشکلات کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔   وینس جانے کے لئے  صحیح موسم کا انتخاب بہت ضروری ہے چاہے وہ سیاحتی موسم ہو یا قدرتی۔  یہ شہر ہر سال   کچھ مہینے سَیلِ سیاح  میں ڈوبتا ہے تو کچھ مہینے سیلاب  کی وجہ سے غرقِ آب ہوتا ہے۔  وینس کی آبادی   ڈھائی لاکھ سے کچھ ہی اوپر ہے اور سال بہ سال اس میں کمی واقع ہو رہی ہے۔  جبکہ یہ شہر سالانہ  تقریباً  اڑتالیس لاکھ لوگوں کی مہمانی کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ  سیاحتی موسم میں ہر جگہ سیاحوں کے  ہجوم کی صورت میں نکلتا ہے۔ تنگ گلیوں میں پیدل چلنا یا مشہور مقامات کی تصویریں کھینچنا محال ہو جاتا ہے۔

  
وینس کی ایک چیز، جو تصویروں میں  نظر نہیں آتی، وہ ہے شہر کے کچھ حصوں میں کھڑے پانی کی بُو۔ پرانی عمارتوں کی بنیادوں میں جمی کائی ایک طرف قدامت کا  انوکھا تاثر پیدا کرتی ہے  تو دوسری طرف ایک مستقل بساندھ کا باعث بھی بنتی ہے۔ جو کہ کچھ لوگوں کے طبع نازک پر گراں گزرتی ہے۔1990 ؑسے  قبل  وینس کی نہریں غلاظت سے بھری ہوتی تھیں اور پورے شہر میں ناقابلِ برداشت بُو پھیلی رہتی تھی۔ لیکن جب  90 کی دہائی میں ایک بہت بڑے منصوبے کے تحت تمام نہروں کی صفائی کی گئی، قوانین پر عمل درآمد کو  سخت کیا گیا  تو  نہروں کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا اور شہر کے  زیادہ تر حصوں میں تعفن  کا مسئلہ حل ہو گیا۔

وینس دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔    خوراک، رہائش، کرائے  یا    میوزیم ٹکٹس، سب  کی قیمتیں  آسمان  سے باتیں کرتی ہیں۔  ایک مشہور  سیاحتی ویب سائٹ[2]  کے مطابق  جتنے پیسوں میں آپ اٹلی کے کسی اور شہر میں بہترین کھانا کھا سکتے ہیں اتنی قیمت میں وینس میں صرف  گزارے لائق کھانا  ہی ملتا ہے۔     اس کے بعد بھی ریستوران   یا کیفے کے بل میں 10 سے 20 فیصد تک سروس چارجز علیحدہ سے وصول کئے جاتے ہیں۔  یہی حال بقیہ سہولیات  کا بھی ہے۔ ہوٹلز کے کمرے  قدیم اور گورِ موذی کی طرح تنگ۔ بہت سے ہوٹلز میں باتھ روم کمروں سے باہر ہوتے ہیں۔  لیکن   کوئی بات نہیں آگے چل کر  آپ کو پیسے بچانے کی کچھ ترکیبیں بھی  بتائیں گے۔

وینس ایک چھوٹا سے جزیرہ ہے  جس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک محض چند گھنٹوں میں پیدل پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن مصروف دنوں میں اگر آپ  آبی بس استعمال کرنے کا سوچیں تو ممکن ہے کہ آپ کو آدھا  گھنٹہ صرف بس کی قطار میں ہی گزارنا پڑے۔  انتہائی زیادہ کرایوں  (75  منٹ  کا ٹکٹ 9€ اور پورے دن  کا ٹکٹ 25€) کے باوجود اس طرح کی ٹرانسپورٹ بہت سے سیاحوں کے لئے مایوسی کا باعث بنتی ہے۔


سفر آغاز سے پہلے

وینس  کا مرکزی اور بین الاقو امی ائرپورٹ  وینس کے مشہور  تاجر اور مہم جُو مارکو پولو کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔   یہ وینس کے جزیرے  پر نہیں بلکہ  اٹلی کے ساحلی علاقے میں بنا ہوا ہے جسے  وینس کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ ائرپورٹ سے شہر جانے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا،  نان اسٹاپ ائرپورٹ  بس جو کہ صرف 15 منٹس میں شہر پہنچا دیتی ہے اور اس کا کرایہ بھی بہت مناسب ہوتا ہے۔ دوسرا،  کشتی جو تقریباً 50 منٹس میں شہر تک پہنچاتی ہے۔ اس کا کرایہ گرچہ خاصا زیادہ ہے لیکن وینس   کا اصل مزہ  تو   گہرے ، اتھلے پانیوں کی سطح   پر تیرتی کشتیوں میں ہی ہے ۔  ایک تیسرا طریقہ بھی ہے جو ذرا  زیادہ مہنگا  ہے  ور وہ ہے  آبی ٹیکسی۔ یعنی آپ پوری کشتی کرائے پر حاصل کر لیجئے اور اگر آپ کسی مہنگے ہوٹل میں ٹھہرے ہوں تو وہ  آپ کو ہوٹل کے گھاٹ  لے جائے گی۔

ائرپورٹ سے وینس  (بس یا کشتی) کے ٹکٹ  انٹرنیٹ سے بھی خریدے جا سکتے ہیں اور وہاں موجود ٹکٹ گھر سے بھی۔ انگلش کے  عالمی زبان بننے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ٹکٹ مشینوں میں لاطینی اور انگریزی دونوں زبانوں    کی سہولت موجود  ہوتی ہے۔

اگر   وینس آنے سے پہلے انٹرنیٹ سے ٹکٹ خریدے جائیں تو آپ کے پاس خاصا وقت ہو گا کہ آپ مختلف ذرائع رسل  کی قیمتوں اور وقت  کا موازنہ کر لیں۔ اور اپنی پسند کے مطابق ٹکٹ خرید لیں۔ ویسے تو وینس ائرپورٹ  پہنچ کر بھی  ٹکٹ  خریدا  جاسکتا ہے لیکن  عین ممکن ہے کہ آپ جلدی میں موزوں ٹکٹ کا انتخاب نہ کر سکیں۔

وینس  میں شہری  ٹرانسپورٹ کا مرکزی نظام  موجود ہے جس  میں کشتیاں، بس اور ٹرینز شامل ہیں۔ اس ہی وجہ سے  ٹکٹ مشین اتنے زیادہ  options   دیتی ہیں کہ سیاح الجھ جاتے ہیں اور  بعض اوقات غلط ٹکٹ خرید لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ  یومیہ ٹکٹ  میں  بہت سے routes شامل نہیں ہوتے جو کہ جلدی میں ٹکٹ مشین پر  سمجھنا  یا پڑھنا بہت مشکل  ہے۔  عین ممکن ہے کہ یومیہ ٹکٹ خریدنے کے بعد آپ کسی آبی بس ( Vaporetto ) میں سوار ہوں اور پتہ چلے کہ وہ   روٹ آپ کے یومیہ ٹکٹ  میں شامل نہیں۔ اور اس سفر  کے لئے اضافی کرایہ  ادا کرنا پڑے۔  بہتر  یہی ہے کہ  گھر سے نکلنے سے پہلے ہی وینس کے ٹرانسپورٹ نظام کو سمجھ لیں۔ یا تو انٹرنیٹ  سے ہی ٹکٹ خرید لیں ۔ ورنہ کم از کم  منصوبہ بندی کر لیں  کہ کس دن کون سے ٹکٹ خریدنے ہیں۔  اس سے  وقت اور پیسوں کی اچھی خاصی بچت   ہو جائے گی۔


آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں  [3]

آخرِکار سفر کا دن آ گیا۔  ہم نے گھر کے قریب گیٹ وِک ائرپورٹ سے مارکو پولو  ائرپورٹ  کی فلائٹ لی۔ تقریباً  دو گھنٹے  بعد ہم وینس پہنچ گئے۔ اٹلی میں داخل ہونے کے بعد وینس تک جس طرح  آب پاشی کے لئے  نہروں کا جال بچھا تھا، وہ صرف  نظر نواز  ہی نہیں بلکہ حیرت انگیز بھی تھا۔ حد نگاہ تک سبز کھیت  اور ان کے درمیان گزرنے والی نہروں  کا پانی ، پگھلی ہوئی چاندی کی طرح  دھوپ کو  منعکس کر رہا تھا۔  نہروں کا جال کچھ  اس طرح بنُا ہوا تھا جیسے قدرت کے سبز ہاتھ پر  روپہلی رگیں نمایاں ہوں۔  منزل پر  پہنچنے سے پہلے ایک شاندار نظارہ  اس وقت ہوا جب  ہمارے جہاز  نے وینس کے اوپر سے پرواز کی۔   پورا وینس ایک تصویری نقشے کی طرح  ہمارے قدموں میں بکھرا ہوا تھا۔  سمندر کے بیچوں  بیچ  سرخ چھتوں  سے اٹا جزیرہ جہاں قدیم کلیساؤں کے قد آور مینار، سبز پڑتے ہوئے، تانبا چڑھے عظیم الشان گنبد،   شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی دلکش نہر   اور جا بجا تیرتی چھوٹی بڑی کشتیاں پہلی نظر میں ہی  دل میں اتر گئیں۔

وینس دیکھتے ہی میرے ذہن میں شہر کی تاریخ گھومنے لگی۔ اس کی تاریخ کا آغاز 568 عیسوی میں رومی سلطنت کے زوال کے ساتھ ہوتا ہے جب لومبارڈ  حملہ آوروں نے شمالی اٹلی کے باشندوں کو ان کے علاقوں سے باہر دھکیل دیا۔ مقامی باشندے اپنے جان بچانے کے لئے اٹلی سے  متصل  سمندری جھیلوں پر مشتمل دلدلی علاقوں (Lagoons) میں  پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔

ان  چھوٹے،  چھوٹے  بے نام جزائر پر مچھیرے اور سمندری نمک بنانے والے افراد رہتے تھے۔  یہ علاقہ کسی بھی طرح شہر  آباد کرنے کے قابل نہ تھا۔  اکثر سمندری پانی چڑھتا   اور یہ علاقے  سمندر برد ہو جاتے ۔ سمندر اترنے کے بعد سب جزیرے دلدلی علاقوں  میں بدل جاتے ۔یہی وجہ تھی کہ لومبارڈ حملہ آوروں نے اس علاقے پر حملہ نہیں کیا اور  پناہ گزینوں کو اپنی جان بچانے کا موقع مل گیا۔ یہ پناہ گزین ہنر مند تھے  لہٰذا   وقت کے ساتھ انہوں نے وینس کو ترقی  دے کر ایک شہر کی  حیثیت  سے مستحکم کر دیا۔ اور آج یہ  تاریخی شہر میری نظروں کے سامنے تھا۔



اک نگری سبز امنگوں کی - اک زندہ شہر خزینوں کا   [4]

 مارکو پولو ائرپورٹ پر لینڈ کرنا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ ہوائی اڈا سمندر کے کنارے پر بنا ہوا ہے۔  سمندر کے ساتھ،  ساتھ     لینڈ کرتے ہوئے بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمارا جہاز کسی ائر کرافٹ کیرئیر پر اتر رہا ہو۔ مارکو پولو ائرپورٹ ایک چھوٹا سا لیکن جدید اور صاف ستھرا ائرپورٹ ہے۔  ائرپورٹ کی دیواریں اور فرش اٹلی کی نوادرات  اور مجسموں کی  قدآور تصاویر  سے مزئین ہیں  جن کی وجہ سے ائرپورٹ پر  قدیم اور جدید کا حسین ملاپ نظر آتا ہے۔ یورپی اور امریکی سیاحوں کے لئے ڈیجیٹل پاسپورٹ کنٹرول تھا لہٰذا وہاں لمبی قطاریں نہیں تھیں۔  لیکن یہاں اطالویوں نے اپنی مشرقیت کا ثبوت دیا کہ  ڈیجیٹل پاسپورٹ گیٹ کے باہر دو اہلکار بیٹھے تھے جو ہر پاسپورٹ پر داخلے کی مہر لگا رہے تھے۔ ائرپورٹ کے دروازے سے نکلتے ہی خصوصی ائرپورٹ بسیں قطار بنائے کھڑی تھیں۔ ہم نے  انٹرنیٹ کے ذریعے وینس جانے والی بس کی بکنگ کروا لی تھی  اس لئے  وینس جانے والی پہلی بس میں سوار ہو گئے۔   اس بس نے ہمیں ’آزادی پل‘   (Ponte Della Libertà) کے راستے 15 منٹس میں وینس کے مرکزی بس اڈے  (Piazzale Roma) پر اتار دیا۔  وینس جزائر پر مشتمل شہر ہے جس کا باقی اٹلی سے کوئی زمینی رابطہ نہ تھا۔ 1846 ؑ میں وینس اور  اٹلی کے علاقے ماسترے کے درمیان ایک  3.6 کلومیٹر لمبا ریلوے پل بنایا گیا  ۔ اس طرح پہلی دفعہ اٹلی سے  زمینی راستے کے ذریعے وینس جانا ممکن ہو سکا۔  یہ پل آج  بھی جدید ترین ٹرینوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔  1933 ؑ میں   اس کے ساتھ ہی ایک اور پل کی تعمیر مکمل ہوئی جسے یوجینو میوزی نامی انجینئر  نے ڈیزائن  کیا اور مشہور ڈکٹیٹر مسولینی نے اس کا افتتاح کیا۔  پہلی جنگِ عظیم  کے بعد آمریت کے خاتمے اور نازی قبضے کے اختتام کی یادگار کے طور پر اس کا نام ’آزادی پل‘  رکھ دیا گیا۔ اس پر  ٹرام، بس/ کار،  سائیکل اور پیدل چلنے کے الگ،  الگ  راستے  بنے ہیں۔

پیازالے روما  بس اڈے پر اترتے ہی  ایسا لگا جیسے کسی جلوس میں پھنس گئے۔ چاروں طرف  بسیں، ٹرام اور ہر طرف چلتے دوڑتے لوگ۔ بالکل ایسا لگا جیسے کراچی کے صدر بازار پہنچ گئے۔ لیکن  کچھ  دیر میں اندازہ ہوا کہ (there is a method in madness) اس دیوانگی میں بھی فرزانگی کے آثار ہیں۔ ہر بس   کی اپنی پارکنگ کی جگہ  مقرر تھی  جہاں اس  کے روٹ کی مکمل تفصیل  بورڈز  پر موجود تھی۔  بس اڈے کے درمیان سے ٹرام  بھی گذرتی ہے لیکن   لوگوں کے  پیدل چلنے کے لئے راستے بنے ہوئے ہیں اور زیبرا کراسنگ  بھی بنی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہاں ایسی ہڑبونگ نہیں تھی جیسی پاکستان کے بس اڈوں پر نظر آتی ہے۔

بس اڈے کے بالکل ساتھ  شہر کو تقسیم کرنے والی نہرِ عظیم (Grand Canal) اور  اس پر بنا  ہوا پل ِ دستور (Ponte della Costituzione)  تھا۔ اصولی طور پر تو  ہمیں اپنی سیاحت کا آغاز  وہیں سے کرنا چاہئے تھا لیکن  اس وقت ہمارے لئے  پیٹ پوجا زیادہ ضروری تھی ۔  ہم نے پہلے ہی   گوگل کی مدد سے کچھ حلال کھانے کی جگہیں نشان زد کر لی   تھی۔  ان میں قریب ترین (Pizzeria fantasia) نام کی حلال  کھانے کے دکان تھی۔ اس دکان کا  (Calzone)  اچھا تھا لیکن اس دکان پر کام کرنے والی بنگالی لڑکی کی باتیں اس سے زیادہ مزے دار تھیں۔ جب اسے پتہ چلا کہ ہم  پاکستانی ہیں تو اس نے  انڈین گاہکوں کی ستم ظریفیوں کی داستانیں  سنانی شروع کر دیں۔  چونکہ  ہمارا ارادہ ایک نئی انڈو-پاک جنگ شروع کروانے کا نہیں تھا  اس لئے ہم نے اس  کا غصہ ٹھنڈا کیا اور اپنا کھانا ختم کرکے باہر نکل گئے۔  اب شہر کی سیاحت شروع کرنی تھی اور اس کے لئے  وینس کی مرکزی نہر سے بہتر جگہ کون سی ہو سکتی  تھی؟

 

وینس کی نہرِ عظیم

وینس کا حسن، اس کی شان،  پہچان   اور اس کی شہ رگ  ہے  اس کی  نہرِ عظیم۔ انگریزی میں Grand Canal، لاطینی میں  Canal Grande اور مقامی لوگوں کے لئے صرف کنالازو   ( Canalazzo) ۔

 نہرِ عظیم،  شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔  تین ڈسٹرکٹ  شمال مشرق میں اور تین ڈسٹرکٹ جنوب مغرب میں۔ جبکہ  شہر کو  جوڑنے کی ذمہ داری چار مشہور پُلوں  نے اٹھائی ہوئی ہے  جن  کا ذکر آگے  آئے گا۔ یہ نہر  چار کلومیٹر لمبی ہے۔ کہیں یہ    100 فیٹ چوڑی ہے اور کہیں  اس کی چوڑائی 225 فیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔  جبکہ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی  16 فیٹ ہے۔ کہتے ہیں کہ چودھویں صدی عیسوی میں  یہاں ایک  ایسا زلزلہ آیا جس  سے اس نہر کا پانی چھلک کر سمندر میں چلا گیا اور   کچھ عرصے کے لئے نہر ایک دلدلی شاہراہ  بن کر رہ  گئی۔  لیکن جب سمندر چڑھا تو  نہر میں پانی واپس آ گیا اور وہ اپنی اصل شکل  میں واپس آگئی۔ یہی نہیں بلکہ  یہ نہر کبھی کبھار سردیوں   کا بھی لحاظ کر لیتی ہے۔ آخری بار 2012 ؑ میں سردیوں میں یہ نہرِ جم گئی تھی ۔

 کنالازو کو شہر کی(    High Street)   کہا  جا سکتا ہے۔ نہر کے دونوں طرف  قدیم اور شاندار  عمارتیں قطار اندر قطار بنی ہوئی ہیں۔ ہر عمارت کی ایک تاریخ ہے اور کئی داستانیں۔   یہ ساری عمارتیں نہ تو  کشتی کے  ایک  چکر میں دیکھی جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کی تاریخ سے  لطف اٹھایا  جا سکتا ہے۔  اگر وقت اور وسائل  ہوں تو  اس  خوبصورت نہرِ کی بار،  بار    یاترا  کو  واجب  ہی سمجھیں۔

وینس اگر چہ نہروں کا شہر ہے لیکن اسے  بجا طور پر پُلوں  کا شہر بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس شہر میں 391  پل  ہیں جو  150 نہروں کو عبور کرنے  کے کام آتے ہیں [5]۔  لیکن ان میں سب سے مشہور  وہ چار پل ہیں جو نہر عظیم پر بنے ہوئے ہیں۔  ہم نے بھی  شہر کی   سیر کا آغاز  نہرِ عظیم پر بنے سب سے نئے پل سے کیا۔


اک رستہ روشن زِینوں کا

 وینس کے بس اڈے    رومی میدان (Piazzale Roma)  کے برابر میں  مرکزی نہر کا پہلا اور جدید پل نظر آتا ہے جو 2008 ؑ  میں مکمل ہوا۔ اس  ہی سال اطالوی آئین کی ساٹھویں سالگرہ  منائی جا رہی تھی اس  لئے اس کا نام ’دستوری‘   پُل   (Ponte della Costituzione)  رکھا گیا۔ لیکن مقامی لوگ اسے ’کالاٹراوا ‘پل (Ponte Di Calatrava)  کہتے ہیں۔ اس پل کی خاص بات اس  کی شیشے سے بنی دیواریں  ہیں، جو نہر کے رنگ  میں رنگی نظر آتی ہیں۔ اور دوسری خاص بات اس کی  دودھیا شیشے سے بنی سیڑھیاں ہیں ۔  دیواروں اور سیڑھیوں  کے نیچے   فلوریسینٹ لائٹس لگی  ہیں۔ جن کی وجہ سے رات میں  جگمگاتا ہوا  پل بہت خوبصورت لگتا ہے۔  اس پل کے ایک طرف وینس کی مرکزی نہر ہے اور دوسری طرف کھلے سمندر کا راستہ ہے۔  ایک طرف ہلکورے لیتی نہر ہے تو دوسری طرف  سمندر کی عظیم الجثہ  موجیں۔  ایک ہی جگہ اتنا خوبصورت تضاد کم  ہی نظر آتا ہے۔


 ’دستوری‘  پل سے آگے وینس  کا ریلوے اسٹیشن سانتا لُوچیا  (Venezia Santa Lucia)  ہے۔  باہر سے سادہ اور خوبصورت نظر  آنے والی عمارت اندر سے اتنی ہی وسیع اور  پُرشکوہ  ہے۔  اس اسٹیشن میں 23 پلیٹ فارم ہیں  جہاں سے انتہائی جدید، آرام دہ اور تیز رفتار ٹرین چلتی ہیں۔   اس اسٹیشن پر شاپنگ سینٹر بھی ہے اور  ساتھ ہی سیاحوں کا سامان رکھنے کی بہت عمدہ سہولت بھی موجود ہے ۔

اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی ایک بڑا سا میدان ہے جس کے پرے، نہر کے پار سینٹ سائمن  کا گرجا   (Chiesa di San Simeon Piccolo) جسے دیکھ کر سیاح مبہوت رہ جاتے ہیں۔  یہ  گرجا 1738 ؑ میں مکمل ہوا۔ اس کا سامنے کا حصہ نیوکلاسیکل طرز تعمیر   کی ابتدائی شکل ہے تو اس کا گنبد  اور درمیانی  گرجا کا حصہ سان مارکو کلیسا   کا رنگ لئے ہوئے ہے۔  اپنے عظیم الشان گنبد کی وجہ سے یہ  گرجا اپنے اصل سے کہیں  بڑا دکھائی دیتا ہے۔  یہ گرجا ، سانتا کروچے (مقدس صلیب) کے علاقے میں ہے جو شہر کے کونے میں ہونے کی وجہ سے ایک زمانے میں غریب علاقہ شمار ہوتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ  اس علاقے کے سامنے پہلے ٹرین اسٹیشن  بنا۔ پھر بس اور ٹرام اسٹیشن۔  اور پھر دستوری پل نے اسے کیناریجیو ضلع  (جہاں بس اور ٹرین اسٹیشن ہیں)سے اس طرح ملا دیا کہ اب یہ شہر کے مصروف علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ 


راہبوں کا رستہ 

سانتا لوچیا اسٹیشن سے چند قدم کے فاصلے پر  مرکزی نہر کا دوسرا پل   (Ponte degli Scalzi)  آ جاتا ہے جس کا مطلب ہے ننگے پَیر راہبوں کا پل۔  مقامی ماربل سے بنا  یہ خوبصورت پل   1934 ؑ میں مکمل ہوا ۔  اس سے پہلے یہاں آسٹرین سلطنت کا بنایا ہوا  ایک لوہے کا  پل تھا   جو وینس کے طرزِ تعمیر سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ لیکن نئے پل کا طرز تعمیر اطراف کی عمارات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور منظر کا فطری حصہ محسوس ہوتا ہے۔ اپنے قدیمی طرز تعمیر کے باعث یہ پل سیاحوں میں ’ستوری‘ پل سے زیادہ مقبول ہے۔



اس پل کے بعد  مرکزی نہر کے ساتھ چلنے کا کوئی راستہ نہیں۔  اس لئے اگلے پل تک کا سفر  وینس کی پیچ در پیچ گلیوں  میں کرنا پڑا۔ وینس کے رازدان کہتے ہیں کہ وینس کو جاننا اور سمجھنا ہے تو اس کی گلیوں میں کھو جاؤ ، اس کی قدامت کو محسوس کرو۔  اصل وینس  آج بھی ان گلیوں میں چھُپا ہے۔ آج بھی کئی گلیاں ایسی ہیں جہاں بجلی کی روشنی بند کرکے  چراغ جلا دیئے جائیں تو جدید   زمانے  کا کوئی سراغ ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔ سو ہم نے بھی اپنے آپ کو ان گلیوں میں کھونے کے لئے آزاد چھوڑ دیا۔


وینس پتلی،  پتلی  پیچ در پیچ گلیوں پر مشتمل شہر ہے۔ کچھ گلیاں  مشہور سیاحتی مقامات کو جوڑتی ہیں۔ ان گلیوں میں  ہمہ وقت چہل پہل رہتی ہے۔ سیاحوں کا شور سنائی دیتا ہے۔ اور اس سے زیادہ  مقامیوں کے زور،  زور  سے باتیں کرنے کی آوازیں ۔ قدم ، قدم پر کیفے، ریسٹورینٹ، اور ہمہ اقسام کی دکانیں نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی میلے میں آئے ہوئے ہیں۔  لیکن جیسے ہی  ان کے پیچھے  شاخ در شاخ، چھوٹی گلیوں میں نکل جائیں، آوازیں معدوم ہو تی جاتی ہیں۔ ایک سکون کا احساس سیاح کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ ایسے قدیم مکانات  کے درمیان، جن کی بنیادوں سے پلستر جھڑ رہا ہوتا ہے اور  بارشوں میں کھڑا ہونے والا پانی  اپنے نشان  چھوڑ گیا ہوتا ہے۔ جہاں گرمیوں میں بھی سِیلی ہوئی خنکی کا احساس ہوتا ہے۔  صدیوں پرانے مکان اور  ان  مکانوں کی کھڑکیوں پر لگی لکڑی کی چقیں  ۔ کھڑکیوں پر لگے چھوٹے،  چھوٹے   گملوں میں خوشنما پھول۔  لکڑی کے دروازے  جن کا رنگ نیچے سے اکھڑ رہا ہو۔ جن پر دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے پیتل کے شیر کی شکل والے کنڈے  لگے ہوں اور   گھر سے باہر  گھنٹی  (door bell)کے لئے  100  سال پرانی طرز کا پیتل کا سوئچ ۔ ان گلیوں  میں وقت صدیوں پہلے ہی تھم گیا  تھا ۔  اور آج بھی سیاحوں کو اپنے ساتھ اسی ماضی میں لے جاتا ہے۔

بہرحال ہم مستقل طور پر ماضی میں رہنے کو تیار نہیں تھے اس لئے سیاحوں کے جانے پہچانے رستوں  پر واپس آ گئے۔ راستے میں (Palazzo Mora)میں European Cultural Centre  نام کی ایک آرٹ گیلری نظر آئی جہاں فلسطینی فنکاروں کے کام کی نمائش ہو رہی تھی۔ اگرچہ ہمیں آرٹ کی سمجھ بوجھ تو نہیں لیکن فلسطینی بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے اندر چلے گئے۔ اندر فلسطینیوں کے علاوہ اور بھی  کئی ملکوں کے فنکاروں کا کام رکھا ہوا تھا۔ کچھ سمجھ آیا اور کچھ  پر غصہ آیا کہ یہ کس قسم کا آرٹ ہے؟ لیکن شاید وہ  ویسے ہی فنکار تھے جیسے ہم مصنف بننے کی کوشش کئے جا رہے ہیں۔

راستے میں  ایک سپر اسٹور (Despar Teatro Italia)نظر آیا۔ دیکھنے میں بڑا  رئیسانہ قسم کا اسٹور لگ رہا تھا۔ سوچا کہ یہاں سے پانی خرید لیتے ہیں۔ لیکن اندر شیلف پر پانی کی علیحدہ بوتلیں نہیں  رکھی تھیں۔  بلکہ ساری  6  کے پیک میں تھیں۔  اب ہم پانی کی  6 بوتلیں  کہاں اٹھائے پھرتے لہٰذا وہاں سے پانی نہیں خریدا۔  بعد میں پتہ چلا کہ وینس  کے اسٹورز میں  6 بوتلوں کے پیک بغیر کھولے  ہی شیلف پر رکھ دئیے جاتے ہیں۔ خریدار چاہیں تو ان میں سے  ایک، ایک بوتل نکال کر بھی خرید سکتے ہیں۔ ہمیں برطانیہ کی عادت ہے جہاں شیلف پر کھلی ہوئی بوتلیں رکھی ہوتی ہیں اور انفرادی طور پر خریدی جا سکتی ہیں۔  اور اگر 6 کا پیک ہو تو وہ  پورا پیک ہی خریدنا پڑتا ہے۔ لیکن چلیں وینس کا ایک اور  راز معلوم ہو گیا۔  جس کا فائدہ بعد میں ہوا۔

 

وینس کی پہچان 

اس ہی طرح  گھومتے پھرتے شہر کے وسط میں پہنچ گئے۔ جہاں وہ  تاریخی پل ہے جسے  یقینی طور پر وینس کی نہر کے سر کا تاج  کہا جا سکتا ہے۔  اس کا نام  ریالٹو(Ponte Di Rialto)  ہے۔   یہ نہرِ عظیم پر بنا پہلا پل تھا جو سنہ 1173 ؑ میں بنا۔ پہلی بار اسے   کشتیوں پر تختے رکھ کر عارضی پل  (Pontoon bridge)   کی طرح بنایا گیا۔    اس کے بننے سے پہلی بار شہر کے دونوں حصوں میں پیدل جانا ممکن ہو سکا۔  اس کے قریب  ہی قدیم ریالٹو مارکیٹ  تھی  جس کی اہمیت میں اضافہ ہوا اور وہ شہر کی مرکزی منڈی کی حیثیت اختیار کر گئی۔ اس  کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے 1255 ؑ میں  یہاں لکڑی  کا مستقل پل بنایا گیا۔  اگلے تین سو  برس میں اس پل کو آگ لگنے سے خاصا نقصان ہوا۔ اور دو مرتبہ تو بہت زیادہ لوگوں کے جمع ہونے سے  دریا  بُرد بھی ہو گیا۔ آخرِکار 1591 ؑ میں  یہاں  پتھر اور ماربل سے  نیا پل بنایا گیا جو آج تک قائم ہے۔ اس پل کی خاص بات  یہ ہے کہ اس  کے دونوں طرف پیدل چلنے کا راستہ ہے اور درمیان میں ایک پوری مارکیٹ ہے۔ یہ پل اپنی قدامت، خوبصورت طرز تعمیر  کی وجہ سے سیاحوں میں اور افادیت کی وجہ سے مقامیوں میں  یکساں مقبول ہے۔



اس خوبصورت پل تک پہنچتے، پہنچتے  شام ہو چلی تھی۔ اور تھکن سے  ہمارا حال یہ تھا کہ ہم ریالٹو پر  صحیح طرح اپنی تصویریں بھی نہ بنا سکے۔  ہم صبح 3 بجے کے اٹھے ہوئے تھے اور اس کے بعد مسلسل سفر میں تھے۔ لہٰذا یہاں پہنچ کر ہماری ’بس‘ ہو گئی۔  ابھی ’پیازالے روما  ‘جانا تھا جہاں سے   ہوٹل کے لئے بس لینی تھی۔  تو واپسی کا سفر شروع ہوا۔  اس بار ہم نے نہر کے دوسرے کنارے پر جانے کا فیصلہ کیا۔ پھر وہی پیچ در پیچ گلیاں۔ اتنی پتلی گلیاں کہ  یقین ہی نہ آتا تھا کہ   ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں۔ لگتا تھا کہ راستہ بھول کر کسی محلے کی گلی میں پہنچ گئے ہیں اور آگے جا کر یہ گلی بند ہو جائے گی۔  لیکن وینس، وینس ہے۔ پتلی گلی کسی چوڑی گلی میں کھلتی۔ چوڑی گلی کسی میدان  تک پہنچا دیتی۔ اور وہاں سے پھر کسی پتلی گلی میں۔

  

نشانِ  راہ ملے بھی یہاں تو کیسے ملے؟  [6]

وینس جیسے راستوں کے  نشانات  دنیا میں کم ہی ملیں گے۔   ہم نے پہلی دفعہ یہ نشانات دیکھے تو سٹپٹا گئے۔ گوگل سے مدد لی۔ تب اندازہ ہوا کہ یہ نشان سو فیصد غلط بھی نہیں۔ ان  کا مطلب ہے کہ  دونوں طرف کسی بھی گلی سے نکل جائیں آگے ایک ہی بڑی گلی میں پہنچیں گے۔ لیکن  یہ نشان ایک دفعہ  تو ہر نئے سیاح کو چکرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔


گھومتے گھماتے، وینس کے کیفے سے فیضیاب ہوتے، راستے میں ایک سپر اسٹور سے 2 لٹر پانی کی دو بوتلیں بھی خرید لیں۔  اور  وہ بھی صرف 0.80€ میں۔ اس  سے پہلے کیفے اور کھانے کی دکانوں سے 2/1 لٹر  پانی کی بوتل €1.50  میں خرید رہے تھے۔  اس حساب سے تو ایک وقت میں ہی  11€ کی بچت ہو گئی۔

آخرِکار   ’پیازالے روما  ‘ پہنچے۔  ٹکٹ آفس سے بس کا ٹکٹ لیا  اور سامنے کھڑی ہوئی بس میں سوار ہو گئے۔  بسیں اس ہی معیار کی ہیں جیسی کراچی کی گرین لائن پر چلتی ہیں۔ شاید نشستیں کچھ زیادہ بہتر تھیں۔  ہماری رہائش جزیرے کے پار، اٹلی کے ساحلی شہر میں تھی۔ یہ سارا علاقہ بھی وینیزیا کہلاتا ہے اور وینس  کی شہری حکومت  کے تحت آتا ہے۔  اس کو زیادہ آسانی سے کچھ ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ وینس، منوڑہ کی طرح ایک جزیرہ ہے۔ اور وینیزیا کے علاقے کراچی کی طرح ایک مکمل شہر جو کہ باقی اٹلی سے زمینی طور پر ملا ہوا ہے۔  15 سے 20 منٹ کے اندر بس نے ہمیں ماسترے  (Mestre) کے ٹرین اسٹیشن تک پہنچا دیا جہاں ہم نے اپارٹمنٹ  لیا ہوا تھا۔

وینس دنیا کے ان چند شہروں میں سے  ہے جہاں  مقامی آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔ یہ چھوٹے، چھوٹے  جزیروں  پر مشتمل قدیم شہر ہے جس  کا رقبہ بڑھانے کا کوئی طریقہ نہیں۔  وقت کے ساتھ ،ساتھ  یہ  بڑھتی ہوئی آبادی کو  رہائش فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے ۔ اس پر شہری حکومت  کے سخت تعمیراتی  قوانین   بھی اس شہر میں مزید مکانیت پیدا کرنے میں شدید رکاوٹ ہیں۔  شہری حکومت کی اجازت کے بغیر کسی بھی عمارت  کا بیرونی  ڈیزائن  یا رنگ تبدیل نہیں  کیا جا سکتا۔ چہ جائیکہ یہاں کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی جائیں۔ لہٰذا وقت کے ساتھ،  ساتھ یہاں کی آبادی قریبی علاقے ماسترے میں منتقل ہونا شروع ہو گئی۔  یہاں کے بہت سے مکان دنیا بھر کے امیر لوگوں نے خرید لئے جہاں وہ سال میں ایک، دو بار  چھٹیاں منانے آ جاتے  ہیں ۔ اس کے علاوہ مکانات  کی بڑی تعداد ہوٹلوں  میں تبدیل ہو گئی ہے۔ جن کی آمدنی سے لوگ نہ صرف اپنا گھر چلا رہے ہیں بلکہ ماسترے  اور قریبی علاقوں میں بڑے اور جدید مکانات رکھنے کے قابل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صبح لوگوں کی ایک بڑی تعداد وینس میں داخل ہوتی ہے۔ دن بھر  اپنا رزق کماتی ہے اور شام ڈھلے جوق در جوق اس  شہر سے باہر جا رہی ہوتی ہے۔  اس  ہی لئے چھوٹے سے شہر میں داخل ہونے اور واپس جانے کے لئے  23 پلیٹ فارم والے ٹرین اسٹیشن، بس کے درجن بھر روٹ اور ٹرام جیسی عوامی سفری سہولیات  کی ضرورت پڑتی ہے۔

ہم نے ماسترے ٹرین اسٹیشن کے پاس اپارٹمنٹ  کرائے پر لیا تھا۔ جتنے پیسوں میں ہم وینس کے کسی ہوٹل میں صدیوں پرانا چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لیتے، ماسترے میں پورا اپارٹمنٹ مل گیا جس میں علیحدہ خواب گاہ، باتھ روم اور اتنا بڑا  باورچی خانہ  تھا کہ   اس میں بڑی کھانے کی میز  بھی رکھی تھی۔ اپارٹمنٹ کے دونوں طرف بالکونی تھی جو کسی ہوٹل میں ملنا ممکن نہیں  تھیں۔  شام کا کھانا ہم نے ماسترے  میں کھایا۔   ویسے تو   ماسترے  ٹرین  اسٹیشن کے  قریب  بہت  عمدہ   ریسٹورینٹ موجود تھے  لیکن  حلال ریسٹورینٹ  محض چند ایک تھے۔ ہم قریبی حلال ریسٹورینٹ (Brother Fast Food Donor kebab)  چلے گئے۔ یہاں  کے عملے میں خیر سے سارے   ہی ایشیائی مل گئے۔ پاکستانی، انڈین، بنگالی اور افغانی۔   ان کا افغانی پلاؤ بہت لذیذ تھا۔ گائے کا گوشت اتنا ہی نرم اور گلا ہوا تھا جیسا کہ افغانی پلاؤ میں ہونا چاہئے اور یہی خوبی چاولوں کی بھی تھی۔  ان کا شاورما، ترکی کے   ڈونر کباب سے خاصا مختلف تھا۔ گوشت ، ڈونر کی طرح سخت نہیں تھا بلکہ نرم ، رسیلا اور بہت لذیذ تھا۔  شاورما کی روٹی خستہ  تھی اور کھانے میں آسان۔ انہوں نے ہم سے پیسے تو کچھ زیادہ لے لئے لیکن کھانا اتنا مزے دار تھا کہ ہم نے  اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔


  

رات کے آٹھ بج چکے تھے۔  صبح تین بجے اٹھ کر فلائٹ لینے کے بعد ہم وینس میں پورا دن چلتے رہے۔  گوگل  صحت (Health) پر دیکھا تو پتہ چلا کہ صبح سے 15 کلومیٹر پیدل چل چکے ہیں۔  پہلے تو کافی پینے کا ارادہ تھا لیکن مزید کہیں بیٹھنے کی ہمت نہیں تھی۔ لہٰذا اپارٹمنٹ پہنچے اور سیدھا بستر میں چھلانگ لگا دی۔  کچھ یاد نہیں کہ نیند آنے میں کچھ سیکنڈ لگے یا  بستر پہ گرنے سے پہلے  ہی سو چکے تھے۔  بس اتنا یاد ہے کہ  پوری رات خواب  میں بھی ٹانگوں میں درد ہوتا رہا۔ بہر حال نیند دنیا کی  سب سے  بہترین دوا ہے۔ صبح اٹھے تو  تازہ دم ہو چکے تھے۔ تیار ہوئے اور ناشتہ کرنے نکل گئے۔  ماسترے اسٹیشن کے   کیفے ریسٹورینٹ میں ناشتہ کیا۔ اسٹیشن کے سامنے (Soul Kitchen Café)کیفے میں (Lavazza)  کافی دستیاب  تھی۔ یہاں مقامی لوگ بڑی تعداد میں بیٹھے تھے۔  ہم نے بھی وہاں اچھی سی کافی پی۔  سیاحت کا سنہری اصول یہ ہے کہ جس جگہ جائیں، دیکھیں کہ مقامی کہاں سے کھانا کھا رہے ہیں اور وہ جگہ کتنی مصروف ہے۔  اگر کسی  ریسٹورینٹ میں مقامی لوگوں   کا ہجوم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کھانا مزے دار ہوگا اور قیمت مناسب  ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کے برابر موجود (Ristorante Da Tura)  کو نظر انداز کیا حالانکہ وہ  زیادہ خوبصورت کیفے تھا لیکن نہ تو وہاں رات کو زیادہ گاہک تھے اور نہ ہی صبح ۔

اطالوی کافی  بنانے کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ آپ کسی بھی  مقامی یا  بین الاقو امی   کیفے چلے جائیں عمدہ کافی اور  کھانے پینے کی چیزیں مل جائیں گی۔  پاکستان میں ہم جس طرح کی  ہلکی کافی پیتے ہیں  وہ یہاں Coffee Latte کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ Cappuccino  بھی ہمارے مزاج سے قریب تر ہے۔ لیکن کبھی غلطی سے بھی Espresso مت منگوا لیجئے گا کیونکہ یہ خالص تلخ کافی کا چھوٹا سا کپ ہوتا ہے جس کے عام پاکستانی عادی نہیں ہوتے۔


یہاں ایک  چھوٹا سا سبق ملا۔  میں کسی بھی ملک جاتے ہوئے  وہاں کی کچھ  مقامی کرنسی لے جاتا ہوں تاکہ پہلے دن کی ضروریات پوری ہو جائیں۔ پھر اس ہی ملک میں ضرورت کے مطابق برطانوی پاؤنڈز  بُھنواتا رہتا ہوں۔ وینس میں بھی   یہی کیا۔ لیکن جب اگلی صبح پیسے تبدیل کروانے پہنچا تو پہلی بات یہ پتہ چلی کہ دوسرے ممالک کی طرح یہاں قدم ،قدم پر صراف نہیں  ملتے۔  پیسے یا تو بینک سے تبدیل ہوتے ہیں یا کچھ خاص جگہوں پر صراف ہوتے ہیں جیسے ائرپورٹ، ریلوے اسٹیشن وغیرہ۔  میں برطانیہ سے برطانوی پاؤنڈ (£1=€1.12)  کے حساب سے لے کر آیا تھا۔ لیکن جب ماسترے اسٹیشن پر موجود صراف کے پاس پہنچا تو پتہ چلا کہ  یہاں (£1=€0.74) کے حساب سے ملے گا۔ اور اس کے اوپر £5 فیس بھی دینی پڑے گی۔  اس طرح جہاں مجھے £100 کے 112€ ملنے چاہئے تھے وہاں مجھے صرف 70€ ملیں گے۔ یہ  خاصا بڑا فرق تھا۔ میں نے اپارٹمنٹ واپس آکر انٹرنیٹ  کھنگالا تو پتہ چلا کہ اگر میں اپنے برطانوی  بینک کارڈ پر ATM سے پیسے نکلواؤں تو  مجھے 100£ کے بدلے تقریباً 95€ مل جائیں گے۔  یہ پھر بھی کم نقصان تھا  لہٰذا ATM سے ہی پیسے نکلوائے۔ ایک دوسرا راستہ یہ بھی تھا کہ میں  ہر جگہ بینک کارڈ سے ادائیگی کر دیتا۔ لیکن اس طرح مجھے ہر ادائیگی  پر بینک کو 1.50£ کی اضافی فیس  دینی پڑتی۔ حاصلِ کلام یہ کہ جب یورو زون میں جائیں تو اپنے ملک سے ہی یورو  لے کر جائیں۔ یورپ  پہنچ کر یورو  خریدنا بہت مہنگا پڑے گا۔

بہرحال یہ قصہ تمام ہوا۔ اپارٹمنٹ پہنچ کر  چیک آؤٹ کیا۔ سامان اٹھا کر ماسترے ٹرین اسٹیشن پہنچ گئے۔ ٹرین کا ٹکٹ لیا جو کہ  برطانیہ کے لحاظ سے خاصا سستا تھا۔  5 منٹ سے کم میں ہی ٹرین آگئی۔ یہ ٹرین پاکستان اور برطانیہ سے خاصی مختلف تھی کیونکہ یہ دو منزلہ ٹرین تھی۔



 ہم  نے فوری طور پر اوپری منزل پر سیٹ سنبھال لی اور ٹرین کی بڑی،  بڑی  کھڑکیوں سے  باہر کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگے۔  ماسترے کے بعد اگلا اور آخری اسٹیشن سینٹ لوچیا، وینس ہے۔   تیز رفتار ٹرین یہ فاصلہ تقریباً 10 منٹ میں  طے کر لیتی ہے۔ لیکن ان 10 منٹس میں کچھ شاندار مناظر سفر کو یادگار بنا دیتے ہیں۔ خصوصاً آزادی پل سے گذرتے ہوئے جو کہ سمندر پر بنا ہوا ہے۔  سبک رفتار ٹرین میں اس  پل سے گذرتے ہوئے ایسا  لگا جیسے  ہم ٹرین میں نہیں کسی  بڑے پانی کے جہاز (cruise ship)  میں سوار ہوں۔

 

ایک اطالوی جوڑا اپنے پوتے کو وینس کے سیر کے لئے لے جاتے ہوئے

سان مارکو پیازا 

دوسرے دن کا آغاز   ہم نے سان مارکو میدان  (Piazza San Marco) سے کیا۔ ایک روایت کے مطابق نپولین بونا پارٹ  نے سان مارکو   پیازا  کو ’یورپ کا خوبصورت ڈرائنگ روم‘ قرار دیا تھا۔ یہ مقام صدیوں تک  وینس کی سیاسی اور مذہبی قیادت  کا مرکز رہا  ۔   اور آج     سیاحوں کا مرکزِ نگاہ ہے۔  یہاں  سینکڑوں سال پرانا گرجا، سرکاری محل،  سرکاری دفاتر اور کچھ انتہائی اعلیٰ معیار کے ریسٹورینٹ ہیں جو  آج کل مرجعِ خلائق  بنے ہیں۔   یہاں وینس کے مشہور ترین گرجا  کے ایک طرف وینس کے 


۱۷۲۰ ؑ میں بنائی گئی کانالیٹو کی قدیم سان مارکو پیازا کی پینٹنگ

حکمرانوں  کا قدیم محل ہے اور دوسری طرف سرکاری  عمال  کے  خوبصورت دفاتر ۔  ایک طویل عرصے تک وینس اور مقبوضہ علاقوں پر یہیں سے حکمرانی کی گئی۔ 

سان مارکو پیازا، مرکزی کینال سے متصل ہے اور  (L) طرز پر بنا ہوا ہے۔ پیازا میں داخل ہونے کے بعد اس کی خوبصورتی اور وسعت نے ہمیں مسحور کر دیا۔  یہاں مختلف عمارتیں ، مختلف زمانوں میں بنیں اور  ان کے طرزِ تعمیر  میں اس  امر  کی جھلک  ملتی ہے۔  ان عمارتوں پر بنے صدیوں پرانے نقش و نگار،  اور مجسموں کی نفاست  آج بھی سیاحوں کو ششدر کر دیتی ہے۔ اور عمارتوں کی دیکھ بھال  کا  اعلیٰ معیار دیکھ کر پاکستانی سیاحوں کے دل احساسِ کمتری  سے بھر جاتے ہیں۔

 

ایک زمانے میں سان مارکو   پیازا  کبوتروں کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا۔ دنیا بھر کے سیاح ان کبوتروں کو دانہ کھلایا کرتے تھے۔ اس  کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیازا میں ہر طرف کبوتروں کی بھرمار ہو گئی۔  اور پیازا کی صفائی مشکل ہو گئی۔ اب بھی یہاں بہت سے کبوتر ہیں۔ لیکن  اب قانونی طور پر کبوتروں کھانا ڈالنا  منع ہے۔ سیاحوں  کو احتیاط کرنا چاہئے کیونکہ اس پر بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔


باسلیکا ڈی سان مارکو 

باسلیکا  ڈی سان مارکو   (Saint Mark’s Basilica)   صرف وینس  ہی نہیں بلکہ دنیا کےمشہور ترین گرجا   گھروں میں سے ایک ہے۔  باسلیکا  ،  گرجا   کا خصوصی درجہ ہوتا ہے جس کی منظوری  پاپائے روم  دیتا ہے۔ اکثر باسلیکا صرف عبادت گاہ ہی نہیں ہوتے بلکہ  ان میں زیارات بھی ہوتی ہیں۔  یہ باسلیکا بھی  سینٹ مارک   کی باقیات پر  بنایا گیا ہے۔  اس کی  کہانی کچھ یوں ہے کہ  وینس کے دو تاجر سنہ 828 ؑ میں الیگزینڈریا، یونان سے سینٹ مارک کی  باقیات کو چرا کر وینس کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں مسلمان علاقوں  میں تلاشی سے بچنے کے لئے سینٹ مارک  کی لاش کو  خنزیر کے گوشت کے ڈھیر میں چھپا  کر لائے کیونکہ مسلمان خنزیر  کے گوشت کو چھونے یا  اس کی تلاشی لینے سے اجتناب کرتے تھے۔سینٹ مارک کی  باقیات یہاں پہنچنے کے بعد باسیلیکا کی تعمیر شروع ہوئی اور سنہ 832 ؑ میں اس کی پہلی عمارت مکمل ہوئی۔

ابتدا میں  یہ ایک عارضی عمارت  تھی جس میں ڈوجے محل کے افراد ہی عبادت کرتے تھے ۔ سنہ 1807 ؑ  تک  اس کی حیثیت سرکاری چرچ کی   ہی رہی لیکن بعد میں نپولین کے حکم پر اسے  شہر کے کیتھیڈرل کا درجہ دے دیا گیا۔  باسلیکا کی عمارت کئی مرتبہ تباہ ہوئی۔  موجودہ عمارت  کی تعمیر سنہ 1063 – 94  ؑکے درمیان ہوئی اور بعد میں اس کی تزئین اور توسیع کا کام جاری رہا۔  باسلیکا کی آرائش کے لئے  دوسرے شہروں اور ملکوں میں  لُوٹ  مار بھی  کی گئی۔ اور  ہر نادر شے کو، چاہے اس کا تعلق عیسائیت  سے بنتا ہو یا نہیں،  باسلیکا  پہنچا دیا گیا[7]۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں چار گھوڑوں کے مجسمے (Quadriga) اور  (Tetrarchs )کے مجسمے ہیں۔

اگرچہ وینس کے لوگ  کٹر عیسائی تھے اور اپنے آپ کو عیسائیت  کے نمائندہ کے طور پر پیش کرتے تھے۔   لیکن وہ کلیسائے روم  کی شاخ ہوتے ہوئے بھی ان سے  قدرے مختلف تھے۔   کلیسائے روم طویل عرصے تک  سیاست اور امورِ سلطنت پر حاوی رہا  اور آج بھی اس کے اثرات ختم نہیں ہوئے۔ لیکن وینس   نے شروع سے ہی  جمہوریت   کا راستہ چنا اور مذہبیت پر اپنی گرفت قائم رکھی۔   گرجا کے اجلاس کے لئے   حاکم وینس  کی اجازت  لازمی تھی۔   بڑے پادری کا تقرر سینیٹ کے ذریعے ہوتا۔ بقیہ پادریوں کا انتخاب  کلیسائے وینس  کے ارکان، ووٹنگ کے ذریعے کرتے۔ اور ان پادریوں کے لئے وینس کا  پیدائشی شہری ہونا بنیادی شرط تھی۔  ان تمام اقدامات کی وجہ سے وینس کے شہری  کلیسائے روم  کے ظلم و ستم سے  محفوظ رہ کر ملکی ترقی  میں  حصہ لینے کے لئے یکسو ہو سکے۔

 

باسیلیکا میں ایک مذہبی تقریب - 1496 میں بنی جنٹیلی بینیلی کی تصویر

 سینٹ مارک باسلیکا  مشرقی اور مغربی  طرزِ تعمیر  کا حسین امتزاج ہے۔  اس  میں اک طرف بازنطینی طرز تعمیر کی جھلک ملتی ہے تو دوسری طرف یونانی اثرات نظر آتے ہیں۔ یہ  گرجا ، وینس کے  زمانہ عروج کی  دولتمندی کی ایک بڑی  مثال ہے۔ جب آپ پہلی دفعہ  گرجا میں داخل ہوں تو اس کا شاندار موزیک آپ کی آنکھیں خیرہ کر دے گا۔ اسے ترک قالین   کی شکل کا بنانے کے لئے  اس میں سنگِ مر مر اور شیشے کے چھوٹے، چھوٹے  ٹکڑوں  کو پھولوں، جانوروں اور جیومیٹرک   شکلوں میں ترتیب دیا گیا ہے۔  اعلیٰ معیار  کو حاصل کرنے کے لئے اس میں شمالی افریقہ سے لایا ہوا نایاب سنگِ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ صرف نقطہ آغاز ہے۔ جب آپ اس شاندار گرجا میں داخل ہوں تو اپنے آپ کو تاریخ کے دھاروں میں بہنے کے لئے آزاد چھوڑ دیں۔ سمے کی پابندیوں کو بھول جائیں۔ قطار اندر قطار سجے تاریخ کے ابواب میں گم ہو جائیں اور  اس کے قیمتی نوادرات کی مدح سرائی کرتے جائیں۔


سینٹ مارک باسلیکا کے گھوڑے

سینٹ مارک باسلیکا کے باہر چار گھوڑوں (Quadriga) کے عظیم الشان  مجسمے آویزاں  ہیں۔ لیکن ان خوبصورت مجسموں کے پیچھے ایک بدصورت تاریخ چھپی ہے۔  چوتھی صدی قبلِ مسیح میں قدیم یونان سے تعلق رکھنے والے عظیم مجسمہ ساز  لِسی پَس (Lysippos)   نے یہ شاہکار  مجسمے  تخلیق کئے ۔ ان مجسموں   میں جزئیا ت نگاری  اپنے عروج  پہ نظر آتی ہے۔  گھوڑوں کے دوڑنے کا انداز، ان کے تنے ہوئے عضلات، پھولی ہوئی رگیں،  ایک دوسرے   کی طرف دیکھتے  ہوئے گردن کے زاوئیے، ہر طرح  سے   کمالِ فن  کی مثال ہیں۔

 

باسلیکا کے باہر نصب        Quadriga کی نقل

ان کی تکمیل کے بعد کی  زیادہ تاریخ  نہیں ملتی لیکن ایک خیال یہ ہے کہ یونانی سلطنت کے زوال کے بعد  عیسائی افواج   انہیں لُوٹ کر بازنطینی  دارالحکومت  قسطنطنیہ  لے گئیں۔  1204 ء میں چوتھی صلیبی   جنگ میں  وینس کی افواج  نے ، جو یروشلم کو آزاد کرانے نکلی تھیں، قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا اور دیگر قیمتی   اشیاء کے ساتھ یہ مجسمے بھی  لُوٹ کر لے گئے۔ یہ مجسمے تقریباً 500 سال تک یہاں  رہے حتٰی کہ  نپولین بونا پارٹ ا نہیں  چھین کر پیرس لے گیا۔ نپولین نے اپنے دور ِ اقتدار میں پورے یورپ سے فن پارے لوٹ کر پیرس منتقل کئے۔ وہ  اپنی فوج کے ساتھ تاریخی نوادرات کے ماہرین بھی رکھتا تھا جو اس   کے لئے مفتوحہ ممالک کے نوادرات پرکھتے اور پیرس منتقل کرنے کے منتخب کرتے۔ نپولین ان نوادرات کو اپنی فتوحات کی یادگار کے  لئے بنائے گئے

 سینٹ مارک باسلیکا میوزیم میں رکھے گئے گھوڑوں کے اصل مجسمے

 میوزم میں رکھتا ۔ اس کی خواہش تھی کہ پیرس میں نوادرات کا اتنا بڑا ذخیرہ ہو جائے  کہ وہ  روم  کے بجائے یورپ کا ثقافتی دارالحکومت بن جائے۔  نپولین کی ہوس نے لوور (Louver)  عجائب گھر کو دنیا  بھر کے لوٹے ہوئے نوادرات سے بھر دیا۔ اس نے سینٹ مارک باسلیکا سے لُوٹے  ہوئے گھوڑوں کے مجسمے اور رتھ (Chariot) ، پیرس  کے بابِ فتح (Arc de Triomphe) پر نصب کروا دئیے۔  

1815ء میں نپولین  کو شکست دینے کے بعد انگریز کیپٹن ڈومیریسکوک  ان مجسموں  کو واپس وینس  لے گیا، جہاں یہ مجسمے باسلیکا کے باہر پہلی منزل پر نصب کر دئیے گئے۔  1980ء تک  یہ مجسمے وہیں رہے لیکن پھر فضائی آلودگی سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لئے اصل مجسمے باسلیکا کے اندر دوسر ی منزل پر منتقل کر دئیے گئے اور باہر ان مجسموں کی نقل نصب کر دی گئیں۔

  

پلازو ڈُکالے

سان مارکوباسلیکا کے  سامنے  ڈوجے کا محل  (Palazzo Ducale) ہے۔  ڈوجے  کو انگلش میں ڈیوک (Duke) اور اردو میں نواب  کہا جا سکتا ہے۔ لیکن   ڈوجے  کو وینس کے امراء کی جماعت منتخب کرتی تھی اور وہ اس عہدے پر تا عمر فائز رہتا۔ یہ انتظام  726ء سے 1797ء کے  درمیان چلتا رہا۔


پہلی بار جب وینس میں جمہوری  ریاست کی بنیاد پڑی تو  ڈوجے آف وینس کے لئے نویں صدی کے آغاز میں ڈوجے اگنیلو پارٹیسیپازیو نے  یہ محل تعمیر  کروایا۔ دسویں صدی کے دوران شدید آگ لگنے کے بعد ڈوجے سبسٹیانو زیانی نے اس محل  کی  دوبارہ تزئین و آرائش کی۔  اب پتھر اور اینٹوں کے کام کے علاوہ اس ڈھانچے کے بہت کم نشانات باقی ہیں۔

 

پلازو ڈوکالے کا اندرونی منظر

بارہویں اور تیرہویں صدی کے دوران  وینس کی معیشت  مضبوط ہوئی۔ یہ شہر  ایشیا اور یورپ کے درمیان  تجارتی  منڈی  کے طور پر ابھرا۔ جیسے جیسے اس کی تجارت میں اضافہ ہوتا  گیا اس کی فوجی قوت بھی بڑھتی گئی۔ اور جوں جوں اس کی فوجی قوت  بڑھتی گئی اس کی  معیشت بھی  مضبوط  تر ہوتی گئی۔  لہٰذا  ڈوجے  کے حکم پر  1340ءمیں نئے محل کی تعمیر شروع ہوئی ۔

ڈوجے کے محل  کے بیرونی حصے پر  جس طرح کے جیومیٹرک ڈیزائن ہیں وہ  فنِ تعمیر کا انوکھا امتزاج ہے، جسے بآسانی اسلامی گوتھک  طرزِ تعمیر کہا جا سکتا ہے[8]۔   1400ء کی دہائی کے دوران اس میں مزید توسیع کی گئی ۔ اگلی چند صدیوں کے دوران کئی  مرتبہ اس محل میں آگ  لگی جس نے  محل کے کئی حصوں کو تباہ کر دیا۔ لیکن ہر بار اس محل کی تزئین و آرائش  کی گئی اور تعمیر نو کے کام  میں اس کے اصل گوتھک انداز کو برقرار  کھا گیا۔ 

صدیوں کی سیاسی اتھل پتھل کے بعد  وینس کچھ عرصے کے لئےفرانس کے قبضے میں رہا۔ 1866ء میں وینس  معہ ڈوجے  کےمحل ، اٹلی کا حصہ بن گیا۔  1923ء میں اسے ریاست کے حوالے کر دیا گیا اور 1996ء  میں یہ وینس  کے عجائب گھروں  کا حصہ بن گیا۔

 

سِسکیوں کا پل

ڈوجے کے محل  کی دوسری منزل کو ایک پل (Ponte di Sospiri) ، جس کے نام کا مطلب سِسکیوں  کا پل بنتا ہے، نہر کے پار  (Ca' dei Dogi)  سے ملاتا ہے۔  ایک روایت ہے کہ جب ڈوجے محل میں قید خانے چھوٹے پڑنے لگے تو برابر  کی عمارت میں نئے قید خانے بنائے گئے۔  یہ قید خانے عمر قید کے سزاواروں کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ جب  ڈوجے محل  سے قیدیوں کو نئے قید خانوں میں لے جایا جاتا تو وہ آخری بار اس پل کی جالیوں سے وینس کے سمندر  کو دیکھ پاتے  اور پھر بقیہ عمر تعذیر خانوں میں گذار دیتے۔  کچھ مؤرخوں کے مطابق یہ ایک فرضی روایت ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصّواب۔


سان مارکو کا گھنٹہ گھر 

وینس کی سب سے اونچی عمارت  سان مارکو کا گھنٹہ گھر (San Marco Campanile) ہے۔ اس کی تعمیر 932 ؑ میں شروع ہوئی۔ لیکن اس کی موجودہ صورت کو پہنچنے میں صدیاں لگ گئیں۔  شروع میں اس مینار کا مقصد بحری راستوں پر نظر  رکھنا تھا  تاکہ بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے کی  بر وقت تیاری کی جا سکے۔ وقتاً فوقتاً اس کی بلندی  بڑھائی جاتی رہی اور اب یہ  98.6 میٹر  اونچا ہے۔ بارہویں صدی میں  پہلی بار  اس میں گھنٹیاں نصب کی گئیں۔  سولہویں صدی میں اس مینار کے اوپر جبرئیل کا مجسمہ نصب کیا گیا  جس پر اب  سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔  سترہویں صدی میں اس ہی مینار پر گیلیلیو گیلیلی نے اپنی دوربین کا مظاہرہ کیا تھا۔  جس کے تین دن بعد وہ دوربین اس وقت کے حاکم ڈوجے لیونارڈو -  ڈوناٹو کی نذر کر دی گئی۔

 

اس مینار پر کم از کم پانچ گھنٹیاں نصب تھی  جو کہ الگ، الگ مواقع پر بجائی جاتی تھیں۔ سب سے بڑی گھنٹی (Marangona)  طلوع اور غروب آفتاب پر بجائی جاتی تھی۔ (Trottiera)  بجنے کا مطلب  ارکانِ حکومت کو   فوری طور پر چیمبر  میں پہنچنے کا اشارہ تھا۔ (Nona) دن کے درمیان میں بجائی جاتی تھی۔ (Mezza Terza)  بجانے کا مطلب سینیٹ کے اجلاس کا اعلان تھا۔ اور سب سے چھوٹی گھنٹی (Maleficio)   اس وقت بجائی جاتی تھی جب کسی کی سزائے موت پر عملدرآمد  ہو رہا ہو۔


سان مارکو گھنٹہ گھر سے شہر اور سمندر کا نظارہ
سان مارکو پر اچھا خاصا وقت گزارنے کے بعد وہیں پر بنے آثار قدیمہ کے عجائب گھر (Museo Archeologico) کے سامنے بنے باغ (Giardini Reali) میں بیٹھ گئے۔ اس باغ میں داخلہ مفت ہے اور یہاں بہت ساری بنچ لگی  ہوئی ہیں۔ اچھا خاصا گھومنے پھرنے کے بعد اس باغ میں بیٹھنا بہت فرحت انگیز لگا۔ اندازہ ہوا کہ  گرم موسم میں بھی درختوں سے ڈھکے باغ میں درجہ حرارت کتنا  خوشگوار ہوتا ہے۔ وہاں تھوڑا  سا آرام کیا۔ کچھ تصویریں بنائیں۔ گوگل پر  ایسا حلال ریسٹورینٹ ڈھونڈا جو کہ ’پیازالے روما ‘کے راستے میں  ہو اور وہ راستہ اکیڈیمیا پل سے ہو کر جاتا ہو۔  اور پھر کھانا کھانے نکل پڑے۔


فنکاروں کا پل 


نہرِ  عظیم پر آخری پل اکیڈیمیا  (Ponte Dell’Accademia) ہے۔ پہلی بار اس پل کا خیال 1488 ؑ میں پیش کیا گیا لیکن  کونسل نے اس قرارداد پر  ووٹنگ کی زحمت بھی نہیں کی اور مذاق اڑاتے ہوئے اس خیال کو رد کردیا۔  پھر تقریباً چار سو سال بعد 1854 ؑ میں  یہاں ایک لوہے  کا پل بنایا گیا۔   1933 ؑ میں لوہے کا پل کو توڑ کر  ایک اور پل بنایا گیا۔ زیادہ تر لوگوں کو امید تھی کہ فیروویا اور ریالٹو کی طرح یہاں بھی ماربل کا پل بنے گا ۔ لیکن توقعات کے برعکس یہاں لکڑی کا پل بنایا گیا جو کہ اسے  بقیہ تین  پلوں سے منفرد بناتا ہے۔ آج بھی اس پل پر قدم رکھتے ہی سیاح   اپنے آپ کو صدیوں پرانے وینس میں  محسوس کرنے لگتا ہے۔  اس پل کے سامنے وینس کی مشہور   مصوروں اور مجسمہ سازوں کی اکیڈمی ہے جس کے نام پر اس پل کا نام رکھا گیا۔


دِلوں کے تالے

وینس کے پلوں اور تالوں کا  بہت پرانا رشتہ ہے۔   ایک روایت کے مطابق جوڑے، خاندان، دوستوں کا  گروپ  ایک تالے پر اپنے نام لکھتے ہیں۔ انہیں اپنے پسندیدہ پل پر لٹکا دیتے ہیں۔ اور  چابی یا تو دریا میں پھینک دیتے ہیں یا  اپنے پاس محفوظ  کر  لیتے ہیں۔   ان کے خیال میں   جب تک یہ تالے لگے ہوئے ہیں ان کی محبت ’لاک‘ رہے گی یعنی قائم رہے گی۔ ویسے تو یہ تالے وینس کے ہر اس پل پر لگے ہوتے ہیں جہاں تالا لگانا ممکن ہو۔ لیکن نہرِ عظیم کے چاروں پل  اس  کام کے لئے سیاحوں کی اولین پسند ہیں۔ سیاحوں کا شوق اپنی جگہ لیکن انتظامیہ کو یہ تالے زیادہ اچھے نہیں لگتے ۔ ان کے خیال میں ان سے پل پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ اور پل پر زنگ لگنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا وقتاً فوقتاً  ان تالوں کو ہٹانے کا کام جاری رہتا ہے۔ سیاح خبردار رہیں۔ شاید ان کی محبت اتنی پائیدار نہ ہو جتنی وہ سمجھ رہے ہوں۔

اکیڈیمیا پل   دیکھنے کے بعد ہم کھانا کھانے  سان ماریا گرجے کے علاقے کی طرف چلے گئے۔ وینس میں    ریسٹورینٹس، کیفے،  اور کھانے پینے کی  بے شمار دکانیں  ہیں۔ ان میں مقامی سے لے کر بین الاقو امی برانڈ  شامل ہیں  جہاں کم از کم   5€ سے لے کر  سینکڑوں €  تک کے کھانے مل سکتے ہیں۔ ریسٹورینٹ  کے بل میں عموماً  سروس چارجز شامل ہوتے ہیں جو 10 سے 20 فیصد کے درمیان ہوتے ہیں۔  شہر میں اچھے خاصے حلال ریسٹورینٹ  بھی موجود ہیں  جہاں اطالوی اور ترکیہ انداز کے کھانے مل جاتے ہیں۔  

ہم ایک حلال Take away کو چھوڑ کر   Bar ae Maraveje  کو حلال ریسٹورینٹ  سمجھ کر کھانا کھانے چلے گئے۔ وہاں ایک بنگالی  لڑکے نے ہمیں   یقین دلایا کہ وہ ہمارے لئے خصوصی طور پر حلال کھانا   بنائے   گا۔ بس تھوڑی سی گڑبڑ یہ ہوئی کہ ہم نے  چکن اور پیپرونی سے بھرپور  مہنگے   پیزا  منگوائے ۔  اور ان صاحب نے   گوشت کو مختلف قسم کی سبزیوں سے بدل کر پیزا بنا دیئے۔  لیکن ماننا پڑے گا کہ اطالوی انداز کے پیزا بہت مزے دار تھے۔  ان صاحب نے ہم سے پیسے تو  چکن اور پیپرونی پیزا ہی کے لئے  لیکن اس کی تلافی  وہاں کے   صاف ستھرے ماحول اور با اخلاق اسٹاف کی  عمدہ سروس سے ہو گئی۔  

کھانے کے بعد ہم نے  دوبارہ پیازالے روما کا رخ کیا جہاں سے ہمیں ائرپورٹ کے لئے بس ملنی تھی۔ راستے میں مختلف گرجا، خوبصورت مکانات  دیکھتے، میدانوں میں لگی بنچوں پر بیٹھ کر مقامیوں اور سیاحوں کا مشاہدہ کرتے آہستہ،  آہستہ   بس اسٹاپ کی جانب بڑھتے رہے۔ راستے میں خیال آیا کہ اٹلی آئے اور جیلاٹو  نہیں کھائی۔ لہٰذا یہ کام بھی پورا کیا۔ ایک دکان سے  اٹلی کی کچھ سوغاتیں خریدیں۔  وہاں ایک بنگالی صاحب بیٹھے تھے جن سے اچھی گفتگو ہو گئی۔ انہوں نے بغیر کہے ہی  قیمت میں تقریباً 30 فیصد رعائت بھی کر دی۔ لیکن اصل بات جو انہوں نے بتائی وہ خاصی دلچسپ تھی۔ میں نے وینس میں  مسجد کے بارے میں پوچھا تو  کہنے لگے کہ  یہاں 6 سے زیادہ مساجد ہیں۔ میں نے تھوڑا سا  اور کریدا ’ کیا اس جزیرے پر؟‘    بولے اس جزیرے پر کوئی مسجد نہیں ہے۔ ساری مساجد ماسترے اور اس سے ملحق علاقوں میں ہیں۔ تو جناب  جزیرہ وینس  جہاں ہر چند گلیوں کے بعد ایک گرجا بنا  ہوا ہے، یہودی گھیٹوز (Ghettos)  میں یہودی عبادت گاہیں ہیں لیکن ایک بھی مسجد نہیں ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں۔ ہمارے لئے تو  ساری زمین ہی مسجد ہے۔ کہیں بھی نماز پڑھ لیں گے۔


ہر تمنّائے سکونِ ساحل - الجھی الجھی رہی سیلابوں میں [9]

 ہم بہت تھوڑے وقت کے لئے وینس گئے تھے۔  یہ شہر تھوڑا سا  دیکھا۔ اور بہت سارا نہیں دیکھا۔ جو نہیں دیکھا اسے دیکھنے کی ہوس ہے سوائے  (Aqua Alta)  کے۔ نام سے بظاہر بہت خوبصورت لگنے  والی چیز دراصل وینس میں  وقتاً فوقتاً  آنے  والے سیلاب ہیں۔ Aqua  پانی کو کہتے ہیں اور  Alta  بلندی کو۔  وینس اس وقت سطحِ  سمندر سے نیچے جا چکا ہے۔ اس شہر کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے چاروں طرف مختلف طرح کی رکاوٹیں بنائی جار ہی ہیں تاکہ شہر میں پانی کی سطح قابو میں رہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی  تیز بارشوں اور  سمندر چڑھنے کے صورت میں یہ شہر کئی فیٹ پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ شہر کی عمارتیں اس کی گواہ ہیں ۔ بیشتر عمارتوں میں نچلے تین فیٹ تک پلاستر ادھڑا ہوا ملتا ہے جبکہ اس سے اوپر بہت عمدہ پلاستر اور رنگ ہوا ہوتا ہے۔ اس کی  بنیادی وجہ  پانی کا کھڑا رہنا ہے۔ اس شہر کی سیاحت کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے سیاحوں  کی تعداد کو ذہن میں رکھنا تو ضروری ہے ہی لیکن اتنا ہی ضروری صحیح موسم میں وینس آنا بھی ہے۔ ورنہ  بغیر کشتیوں کے پورے وینس میں تیرتے پھریں گے۔  


وینس کی شام  

کہتے ہیں کہ وینس کو کم از کم دو مرتبہ دیکھنا چاہئے۔ ایک  بار دن میں اور ایک دفعہ رات میں۔  رات میں یہ شہر ایک  الگ  ہی روپ دکھاتا ہے۔ دن میں جو سیاح فہرستیں ہاتھ میں لئے ایک تاریخی مقام سے دوسرے تاریخی مقام کی طرف بھاگ رہے ہوتے ہیں، شام کو نہا دھو کر ، تازہ دم ہو کر کیفے، ریستوران اور مے خانوں میں سکون سے  بیٹھے ہوتے ہیں۔ کہیں مقامی موسیقار دھنیں بجا رہے ہوتے ہیں۔ تو کہیں میوزک سسٹم پر مقامی دھنیں  بج رہی ہوتی ہیں۔ اندرونی گلیاں سرکاری کھمبوں پر لگے بلبوں سے روشن ہوتی ہیں۔ گھروں  کی کھڑکیوں  کے رنگین شیشوں سے   چھنتی روشنی    گلیوں میں خوبصورت  نقش و نگار بنا رہی ہوتی ہے۔  چھوٹی نہروں پر قطار در قطار کشتیاں ’پارک‘ ہوئی ہوتی ہیں۔ اور نہروں کو خالی  پا کر بطخیں   اپنا شوقِ تیراکی  پورا کرنے آ جاتی ہیں۔ نسبتاً بڑی نہروں میں اہلِ  دل   اب بھی  گنڈولا کی سواری سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں اور نہروں پر پڑنے والی رنگ  برنگ  ،جھلملاتی روشنیوں سے مسحور ہو ئے  جاتے ہیں۔ ایسے میں جب گنڈولا  چلانے والا اپنی پاٹ دار آواز میں  مقامی گیت گا رہا ہو   تو ایک خوابناک تاثر سیاح کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔  یہ شہر  دن میں  اگر تاریخ کا ایک باب  ہوتا ہے تو رات کو  الف لیلۃ کی  ایک حسین داستان بن جاتا ہے۔


خونِ غریباں  

لیکن ذرا رکئے۔ وینس کی شام کے کچھ اور ساتھیوں کا ذکر ابھی باقی ہے۔   وینس  حیرت انگیز طور پر صاف ستھرا شہر ہے۔ ستھری گلیاں، صاف نہریں،  قدیم طرز پر بنی خوبصورت  دکانیں اور ریسٹورینٹس۔  مقامیوں کا  معاملہ تو سمجھ آتا ہے لیکن لاکھوں سیاحوں کی صفائی پسندی انتہائی حیرت انگیز ہے۔ ہمیں اپنے پورے قیام میں دن کے وقت کوئی صفائی  کرنے والا نظر  نہیں آیا لیکن  پھر بھی کسی گلی میں کوڑا پھیلا  ہوا نہیں ملا۔  اس معاملے میں تو لندن بھی وینس کے قریب نہیں پھٹکتا۔

لیکن ۔۔۔۔ اس صفائی کے باوجود بھی  جس ریسٹورینٹس میں کھانا کھایا، اکّا دکّا مکھیاں ضرور نظر آئیں۔ اور اس سے بھی زیادہ خوفناک  تجربہ مچھروں کے ساتھ ہوا۔ وینس  کا حسن رات میں دوبالا ہو جاتا ہے۔  سو ہم بھی اس سے لطف اندوز ہونے پہنچ گئے۔ لیکن جناب وہاں جو مچھروں نے یلغار کی تو آج واپس آنے کے ایک ہفتے بعد بھی ہاتھوں اور گردن  پر بنے  دانوں  کو کھجا رہے ہیں۔ وہاں بلدیہ کی طرف سے  خودکار ’دھُونی‘ دینے کے انتظامات  ہیں لیکن جہاں  دھوئیں کا اثر نہیں پہنچتا وہاں مچھروں کے غول آپ کے سواگت کو موجود ہوتے ہیں۔

بہرحال مچھروں  کے گارڈ آف آنر کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے  بس اسٹاپ  پر پہنچے۔ ائرپورٹ کی بس لی اور 15 منٹس میں ائرپورٹ پہنچ گئے۔ ائرپورٹ پر کل والا جہاز ، کل والے عملے کے ساتھ  موجود تھا۔ ایک بار پھر W11 جیسی نشستوں والے جہاز  میں سوار ہوئے جس  میں نشستیں پیچھے جھکانے  کا نظام   لگا ہی نہ تھا  ۔ دو گھنٹے کمر سیدھی رکھنے کی ورزش کرنے کے بعد گیٹ وک ائرپورٹ پہنچ گئے۔ آگے زندگی میں سکون تھا، بہت سی خوبصورت یادیں اور کچھ یادگار تصویریں۔


وینس کے عروج کی داستان  [10]

وینس کی سیاسی حکمرانی  کے سفر کا آغاز بازنطینی سلطنت کے مقرر کردہ ڈوجے سے ہوا۔ لیکن  ایک طویل عرصے کے بعد  پہلا مقامی ڈوجے منتخب کیا گیا جو بازنطینی سلطنت کے اثر سے نکلنے کا نعرہ دے کر کامیاب ہوا تھا۔ لیکن اس طرح بازنطینی مخالف اور  بازنطینی نواز گروہوں میں ایک طویل جنگ کا آغاز ہو گیا۔ اگرچہ ریاست کے اندر خانہ جنگی کی کیفیت تھی لیکن مقامی تاجروں نے اپنے کاروبار کو ترقی دینے کا عمل جاری رکھا جس سے ریاست کی خوشحالی میں اضافہ ہوتا رہا۔ 1032 ؑ میں  پہلی بار ڈوجے کا  عوامی  انتخاب ہوا اور اس میں ڈوجے    کے انتخاب میں با اثر خاندانوں کی بالادستی  کا خاتمہ ہوا۔ ڈوجے کے اختیارات  محدود کئے گئے  اور جمہوری اقدار کو فروغ ملا۔  اس کی تفصیل یہ ہے کہ  ڈوجے کا انتخاب امراء کی کونسل کے ذریعے ہوتا تھا اور وہ تمام عمر کے لئے منتخب ہوتا تھا۔ جبکہ سینیٹ کے ارکان  کی مدت انتخاب معیّن  نہیں  ہوتی تھی ۔ ڈوجے اپنی  حاکمیت اعلیٰ کے باوجود وینس کی سینیٹ کے کنٹرول   میں ہوتا تھا۔ اس کے خطوط سینسر کئے جاتے تھے۔  وہ کسی غیر ملکی وفد سے  اکیلا ملنے کا مجاز نہیں تھا۔ اس طرح کی  پابندیوں  کا مقصد  کسی طالع آزما ڈوجے  کو جمہوریت  کو نقصان پہنچانے سے روکنا تھا۔  لیکن اس کے علاوہ  ڈوجے  تمام کونسلز  کی سربراہی کرتا اور تمام فیصلوں پر اثر انداز ہوتا۔ عام طور پر معمّر افراد ڈوجے کا  انتخاب لڑتے تھے۔  اس وجہ سے ڈوجے  کو نہ صرف اپنے عہدے کی وجہ سے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا  بلکہ اپنے تجربے اور فراست کی وجہ سے بھی اس کی قدر کی جاتی تھی۔

اس زمانے میں بازنطینی سلطنت اور کلیسائے روم میں یورپ پر غلبے کی جنگ جاری تھی۔ وینس نے  اپنے کاروباری مفادات کو سامنے رکھا اور بڑی کامیابی سے اپنے آپ کو ایک فریق بننے سے  بچایا۔  اس طرح اسے ان دونوں طاقتوں کے درمیان  ایک منڈی کا  درجہ مل گیا جہاں دونوں اطراف کے ممالک آ کر تجارت کر سکتے تھے۔   اس سے حاصل ہونے والے  منافع سے وینس نے کاروباری اداروں  کو فروغ دیا اور ان کی حفاظت کے لئے بحری قوت میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کردیا۔

گیارہویں صدی میں وینس نے  اپنی بحری طاقت کا مظاہرہ کیا جب اس نے بازنطینی  سلطنت اور نارمن قبائل کی جنگ میں بازنطینیوں  کا ساتھ دیا اور   بحیرہ روم میں نارمن قبائل کو شکست دی۔  اس کے بدلے میں بازنطینی سلطنت نے وینس کو اپنے علاقوں میں بغیر کسٹم محصولوں کے آزادانہ تجارت کی اجازت دے دی۔ اس طرح وینس کا بحیرہ روم پر غلبہ اور کاروبار بہت وسیع ہو گیا۔ اگرچہ یہ وینس کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا لیکن  انہوں نے بازنطینی بادشاہ کو ناراض کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔  بازنطینی  بادشاہ  ایمانوئیل اوّل کے  خیال میں وینس کے تاجر  مغرور اور گھمنڈی  تھے۔ اور   کاروبار میں قانون شکنی   کا ارتکاب بھی  کرتے تھے۔  اس کے علاوہ اسے   یہ بھی خطرہ تھا کہ وینس کے اعلیٰ درجے کے کاروباری ادارے ، بازنطینی سوداگروں کو  کاروبار سے باہر نہ کر دیں۔ اس لئے اس نے  وینس کے مقابلے میں اطالوی  علاقوں جینوآ  (Genoa) اور پیسا  (Pisa) کے تاجروں کی حوصلہ افزائی شروع کر دی۔ یہ بات وینس کے تجار کو پسند نہ آئی اور انہوں نے  مخالف تاجروں کے اداروں کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔  جواباً ایمانوئیل نے 1171 ؑ میں بازنطینی سلطنت میں موجود وینس کے تمام شہریوں  کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا اور ان کا تمام سامانِ تجارت ضبط کر لیا۔  اگرچہ اگلی دو دہائیوں میں بظاہر تعلقات بحال ہو گئے لیکن  اہلیانِ وینس  کے دل سے تلخی دور نہیں ہوئی۔

ان تمام ادوار میں  اہلیانِ  وینس تجارت پر اپنی توجہ مرکوز کئے رہے۔ یورپ کی مشہور تجارتی بندرگاہوں پر ان کی  کاروباری بالادستی مسلّم ہو گئی تھی۔  وینس کے تاجراپنے کاروبار کو بڑھانے کے لئے جدید طریقے استعمال  کرتے تھے۔ اس زمانے میں یورپ میں رومن ہندسوں کا رواج تھا جو کہ بڑے حساب کتاب کے لئے ناموزوں تھے۔ وینس نے بہی کھاتوں میں عربی اعداد کا استعمال شروع کیا جن میں  جمع تفریق نہایت آسان تھی۔ (ذرا رومن اعداد میں MCVI  +  XCIV جمع کر کے دیکھیں)۔ وینس کے ایک  راہب   لُوچا  پیچیولی (Luca Pacioli) نے  پہلی دفعہ ڈبل انٹری  اکاؤنٹنگ    کا تصور  پیش کیا۔ جس کی وجہ سے وینس کے تجار  انتہائی درستی کے ساتھ کاروبار کے حساب رکھنے کے قابل ہو سکے۔ آج  800 سال  بعد بھی ڈبل انٹری نظام جدید اکاؤنٹنگ کی بنیاد بنا ہوا ہے۔

تجارت کے علاوہ وینس کی دیگر مصنوعات بھی شہرت پانے لگیں۔  یہاں کی شیشہ گری پوری دنیا میں مشہور  ہو گئی۔ دراصل وینس  کے جزیرے سے تمام شیشہ گروں کو  نزدیکی  جزیرے مُرانو (Murano)  منتقل کر دیا گیا۔ جس کے بعد  یہ جزیرہ شیشہ گری کا مرکز بن گیا۔ یہاں کی بنی ہوئی مصنوعات یورپ اور دنیا بھر کے امراء اور سلاطین استعمال کرنے لگے۔ آج بھی Murano Glass  کی اشیاء بہت مشہور  ہیں اور مہنگے  داموں فروخت ہوتی ہیں۔

تیرھویں صدی کے آغاز میں جب چوتھی صلیبی جنگیں شروع ہوئیں تو  وینس کو بازنطینی سلطنت سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔  وینس نے بازنطینی سلطنت پر حملے میں صلیبیوں کا ساتھ دیا۔ صدر مقام قسطنطنیہ  پر قبضہ کر کے بادشاہ کو ملک بدر کر دیا اور   صلیبیوں کے ساتھ سلطنت  آپس میں بانٹ لی۔  اس کے نتیجے میں  بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کے علاقے میں وینس کی تجارت کو بے حد عروج ملا۔

1261 ؑ میں جلاوطن بازنطینی بادشاہ نے جینوآ  کی ریاست کی مدد سے وینسیوں کو  قسطنطنیہ سے مار  بھگایا۔ اور اس کے صلے میں جینوآ کو بحیرہ اسود  اور بحیرہ روم کے مشرقی علاقے میں تجارت کی آزادی دے دی۔ نتیجتاً وینس کی  اس علاقے میں تجارتی اجارہ داری پر ضرب پڑی۔  اس بار وینس نے  جنگ کے بجائے مذاکرات کا سہارا لیا اور بازنطینی سلطنت سے  اس علاقے میں تجارتی مراعات حاصل کرنا شروع کر دیں۔  لیکن جب 1291 ؑ میں صلیبیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تو  بحیرہ روم کے مشرقی علاقے  میں وینسیوں کی اجارہ داری ختم ہونے لگی اور وہ  بحیرہ روم کے شمالی علاقوں میں اپنا اثر بڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔  یہ علاقہ اس وقت جینوآ  کے تجارتی اثر میں تھا۔ نتیجتاً اگلے دو سو سال تک جینوآ اور وینس میں جنگیں ہوتی رہیں۔  صرف یہی نہیں بلکہ وینس  چند دوسری ریاستوں کے ساتھ مل کر   ویرونا (Verona) کے خلاف زمینی لڑائی میں بھی شامل ہو گیا۔ لیکن ان طویل جنگوں، اور چودھویں صدی میں پھیلنے والی  پلیگ کی وبا نے وینس کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا۔ آخر کار  وینس کا جینوآ کے ساتھ امن معاہدہ ہوا اور وینس کو بحیرہ روم اور مشرقی ممالک کے تجارتی راستوں  پر اختیار حاصل ہو گیا۔

ان جنگوں کے خاتمے کے بعد وینس کو  نیا لائحہ عمل بنانے کا موقع ملا۔ چونکہ مشرق میں ترک اپنا اثر بڑھا رہے تھے لہٰذا اس نے  مغرب میں اٹلی  کے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا اور  اس سمت  اپنی تجارت کو فروغ دینا شروع کیا۔  اس وقت کے ڈوجے ٹوماسو موچنگو  (Tommaso Mocenigo) نے فیصلہ کیا کہ اب مغرب کی طرف فوجی پیش قدمی روک دی جائے اور تجارت پر توجہ مرکوز رکھیں۔ یہ زمانہ وینس کے عروج کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔  لیکن موچنگو کے جانشین  نے اس حکمت عملی سے اختلاف کیا اور اٹلی کی دوسری ریاستوں پر حملے شروع کر دئیے۔  یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ وینس کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ ان  کی فوجی قوت اس قابل نہیں  تھی کہ اٹلی کے زمینی علاقوں میں جنگ جیت سکے۔ لہٰذا چند ہزیمتوں کے بعد انہیں اٹلی کی ریاستوں سے جنگ بندی کرنی پڑی۔

پندرویں  صدی  کے وسط میں ترکوں نے قسطنطنیہ      پر قبضہ کر لیا۔ اور اس کے  چند  برسوں بعد وینس کے زیر تسلط یوبویا (Euboea) پر قبضہ کر لیا۔ اس موقع پر وینس نے ترکوں سے امن معاہدے کر لئے تاکہ اگلی جنگوں سے بچا جا سکے۔  لیکن  وہ جلد ہی اطالوی ریاست فرارا (Ferrara) سے ایک جنگ  میں الجھ گئے۔

سولہویں صدی  کے آغاز میں اٹلی کی ریاستوں کی باہمی چپقلشوں نے  بیرون قوتوں کو شہہ دی کہ ان ریاستوں پر حملہ کر سکیں۔ 1508 ؑ میں کلیسائے روم، ہسپانوی، فرانسیسی، ہنگری اور فرارا  کی ریاستوں نے مل کر   ترکوں سے لڑنے کے لئے ایک  فوج  (League of Cambrai) ترتیب دی  لیکن اس کے بجائے وینس پر حملہ کر دیا۔  حملہ آوروں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے وینس  اپنا شہر  بچانے میں کامیاب ہو گیا لیکن  اسے اٹلی میں اپنے زیر تسلط علاقوں  سے ہاتھ دھونے پڑے۔  بری خبریں یہیں ختم نہیں ہوئیں۔  ترکی کی وجہ مشرقی علاقوں  میں اس کا تجارتی تسلط ختم ہوگیا۔ مغرب میں نئے تجارتی راستوں کی دریافت سے یورپ کا وینس پر انحصار تقریباً ختم ہو گیا۔ بحر اوقیانوس کے کنارے والے ممالک کے لئے  سمندر پار ایک نئی دنیا سے تجارت کے راستے کھلنے لگے۔  اس طرح وینس ،بحیرہ  روم اور یورپ کی سپر پاور کی حیثیت کھونے لگا  ۔ اگلی دو صدیوں میں وینس کے پاس  اپنی سابقہ شان و شوکت کو قائم رکھنے کے بہت کم  راستے بچے تھے۔ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی  وسطی اٹلی کے ساتھ مل کر کئی جنگوں کا حصہ بننا پڑا لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کے لئے فائدہ مند ثابت نہ ہو سکی۔ معاشی  مواقع کی کمی اور جنگی اخراجات میں اضافے نے ریاست کے اندرونی نظام کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔


ہر کمال کو زوال ہے 

1796ء میں فرنچ ریپبلک نے  انقلابی جنگوں کے سلسلے کو بڑھانے کے لئے نوجوان  جنرل نپولین بوناپارٹ  کو  سلطنت آسٹریا  سے مقابلے کے لئے بھیجا۔  نپولین نے اپنی افواج کو سلطنت وینس  سے گزارنے کا فیصلہ کیا جو کہ ان جنگوں میں غیر جانبدار تھا۔  وینس اس وقت  تک اپنی جنگی طاقت کھو چکا تھا اور اس قابل نہیں تھا کہ فرانس کی افواجِ قاہرہ کو انکار کر سکے۔ اس نے سوچا کہ شاید فرانس  اور آسٹریا  کی   جنگ  اسے آسٹریا کے اثر سے نکلنے میں مدد کر سکے۔

لیکن فرانس نے خفیہ طور پر وینس میں چلنے والی انقلابی تحریک (Society of the Jacobins,)  کی مدد کرنا  شروع کر دی۔ جواباً وینس کی سینیٹ نے بھی خاموشی سے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔  وینس کی کمزور افواج  انقلابیوں  کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ تھی۔ اور فرانس کی افواج کے مقابلے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مارچ 1797ء  میں  انقلابیوں نے عام انقلاب  کا اعلان کر دیا لیکن  عوام نے ان کے بجائے  حکومت کا ساتھ دیا۔ اس پر فرانسیسی افواج کھل کر  انقلابیوں  کی مدد کو آ گئیں ۔  اپریل 1797ء   میں نپولین نے  وینس کو جنگ کی دھمکی دے دی۔ وینس کی سینیٹ  نے مذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن  کامیاب نہ ہو سکی۔ آخرکار  مئی 1797ء  میں لوڈوویکو مینین (Ludovico Manin) نے آخری ڈوجے کی حیثیت سے اقتدار انقلابییوں  کے حوالے  کر دیا۔  اس طرح 1100 سال  بعد جمہوریہ وینس   کی آزادی کا خاتمہ ہو گیا۔

لیکن نپولین کی جارحیت بلاوجہ نہیں تھی۔ فرانس نے خفیہ طور پر آسٹریا سے معاہدہ کر لیا  تھا جس کے تحت وینس  کو آسٹریا کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اور  اس کے بدلے میں نیدرلینڈ میں آسٹریا کے زیر تسلط علاقے فرانس کو مل جائیں  گے۔  اس کے بعد فرانس نے وینس   میں اس معاہدے پر ریفرینڈم کروایا۔  وینس کے لوگوں نے آسٹریا کے راج کو فرانس پر ترجیح دی۔ جس کے بعد نپولین کی افواج نے وینس کو  بری طرح لوٹا۔  نوادرات  کو لوٹ کر فرانس لے جایا گیا۔ وینس کی  بحری فوج  کے جہاز  یا تو  چھین  لئے گئے یا انہیں ڈبو دیا گیا۔ اور  بڑے ہتھیار تباہ کر دئیے گئے۔ اس طرح  اپنے زمانے میں یورپ کی طاقتور ترین بحری قوت ایک ذلت آمیز انجام کو پہنچی۔

جنوری 1798ء  میں وینس، آسٹریا  کے قبضے میں چلا گیا جس کے بعد   فرانسیسی لوٹ مار کا خاتمہ ہوا۔ لیکن آسٹریا کا اقتدار زیادہ  عرصے نہ رہ سکا۔ 1805ء میں فرانس نے پھر وینس کا انتظام سنبھال لیا۔ 1815ء میں وینس ایک بار پھر آسٹریا کے قبضے میں چلا گیا۔ آخرکار 1866ء میں وینس جدید   متحدہ اٹلی کا حصہ بن گیا اور آج تک اٹلی کا حصہ ہے[11]۔  

 


[1] سودا جو تیرا حال ہے ایسا تو نہیں وہ – کیا جانئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا – مرزا رفیع سودؔا

[2] https://www.roughguides.com/italy/venice-veneto/

[3] آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں  -  تشنہ لب خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں – طارق قمر

[4] مسعود مرزا نیازی

[5] https://veneziaautentica.com/bridges-in-venice-italy/

[6] اختر سعید خان

[7] The Rough Guide to Venice & Veneto, 2019, 978-1-789-19414-2

[8] The Rough Guide to Venice & Veneto, 2019, 978-1-789-19414-2

[9] عبد العزیز فطرت

[10] Venice - History | Britannica

[11] https://en.wikipedia.org/wiki/Fall_of_the_Republic_of_Venice

 

Comments

Popular posts from this blog

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

  گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچی کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روایت ختم نہ

ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات

  ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات   بہت انتظار کے بعد ڈنکی فلم ریلیز ہو گئی۔ راج کمار ہیرانی کے پرستار بہت عرصے سے اس فلم کا انتظار کر رہے تھے۔ میری اس فلم کے انتظار کی دو وجوہات تھیں، راج کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور فلم کا غیر روایتی موضوع۔ یہاں شاہ رخ خان کا نام نہ لینے پر ان کے پرستار ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی باکس آفس پر کامیاب ترین مگر احمقانہ فلموں پٹھان اور جوان نے کم از کم میرے لئے خان کے جادو کو زائل کر دیا۔ ویسے تو شاہ رخ خان اور راج کمار ہیرانی کی جوڑی سے سب کو ایک شاہ کار کی امیدیں تھیں۔ لیکن بڑی توقعات اکثر بڑی ناکامیوں پر ہی منتج ہوتی ہیں۔   اس فلم کا موضوع بہت اچھا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کی کہانی بھی اچھی ہے۔ فلم کے پہلے حصے میں ہنستے کھیلتے جس طرح فلم کی کہانی بُنی گئی ہے وہ بہت دلکش ہے۔ فلم کے پہلے حصے کا اختتام ایک خود کشی پر ہوتا ہے جس میں ہدایت کار اور اداکار کی پرفارمنس عروج پر ہے۔ لیکن خود کشی کے فوراً بعد ساتھی کرداروں کی تقریریں اور سچویشن سراسر اوور ایکٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم کا دوسرا حصہ اگرچہ نسبتاً بوجھل ہے لیکن راج کمار ہیران

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقریب کے بعد اساتذہ کے