Skip to main content

نواز شریف حکومتوں کے کچھ اچھے کام

 



نواز شریف حکومتوں کے کچھ اچھے کام

5 فروری 2023


آج کے دور میں نواز شریف  کے بارے میں کوئی مثبت  بات کہنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ لیکن جب ہر طرف سے ایک ہی طرح کی آوازیں آ رہی ہوں تو کسی کو تو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھانا چاہئے۔ نواز شریف کو ئی دودھ سے دھلے نہیں۔ لیکن ان کے بارے میں متوازن رائے صرف اس ہی وقت قائم ہو سکتی ہے جب  ان کی موافقت اور مخالفت میں کی جانے والی باتیں سن کر فیصلہ کیا جائے۔

 

1990 ؁میں نواز شریف  کے پہلے دورِ حکومت میں عراق  نے کویت پر  قبضہ کر لیا۔  جواباً امریکہ  اور اتحادیوں نے کویت اور سعودی عرب کی حفاظت کے نام پر عراق پر چڑھائی  کر دی۔ اس وقت پاکستان میں نہایت جذباتی فضا بنی ہوئی تھی۔  عوام کی اکثریت عراق کی حمایت کر رہی تھی اور چاہتی تھی کہ پاکستان بھی عراق کے  شانہ بشانہ غیر ملکی افواج سے  مقابلہ کرے۔ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کا دور نہیں تھا بلکہ ریڈیو اور اخبارات  ہی  عوام کی رجحان سازی کیا کرتے تھے۔ اس زمانے کے  پاکستانی زبانوں کے تقریباً تمام اخبار  اس ہی رجحان کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ حتٰی کہ پاکستان کے فوجی سربراہ اسلم بیگ صاحب بھی اس ہی خیال سے متفق تھے۔ لیکن  نواز شریف حکومت نے اس کے برعکس فیصلہ کیا اور اس جنگ میں عراق کے بجائے سعودی عرب کا ساتھ  دیا۔ آج تیس بتیس سال بعد اس فیصلے کی   درستی کا احساس ہو تا ہے۔ وگرنہ سعودی عرب اور خلیجی  ممالک  سے  تعلقات میں تلخی نہ جانے کب تک ہمیں تکلیف دیتی۔

 

8 مئی ؁1998 پاکستان کی تاریخ کا یادگار دن ہے جب  انڈیا کی کج فہمی نے پاکستان کو ایک تسلیم شدہ ایٹمی قوت بنا دیا۔ اس بارے میں نواز شریف کے مخالفین کہتے ہیں کہ نواز شریف جوابی ایٹمی تجربوں  کے حق میں نہیں تھے لیکن عوامی دباؤ نے انہیں اس امر پہ مجبور کر دیا۔ ویسے تو  غیب کا علم تو صرف مالکِ کائنات کو ہی ہے۔ لیکن قیاس یہ کہتا ہے کہ اس معاملے میں نواز شریف  اور ان کی حکومت انتہائی ذہانت سے صورتحال  سے عہدہ برآ  ہوئی۔ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جب جوابی ایٹمی تجربے  کی بات آئی تو پہلا سوال یہ اٹھا کہ پاکستان نے اب تک اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ’کولڈ ٹیسٹ ‘ کئے تھے۔ لیکن کیا  یہ بات یقینی ہے کہ پاکستانی ماہرین  ’لائیو ٹیسٹ‘   کر سکیں گے؟ یہ بہت اہم سوال تھا کیونکہ  خدانخواستہ اگر پاکستان  کے ایٹمی ٹیسٹ ناکام ہو جاتے تو  پاکستان کے لئے دنیا کا سیاسی نقشہ مزید خوفناک ہو سکتا تھا۔  انڈیا کے کامیاب اور پاکستان کے ناکام ایٹمی ٹیسٹ کے بعد انڈیا کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے سے کوئ  بھی نہ روک سکتا (سلام  ہے  عبدالقدیر خان صاحب اور ٹیم کو جنہوں نے انڈیا کے عزائم خاک میں ملا دئیے)۔ اور پاکستان پر ایٹمی پروگرام ختم کرنے  کے لئے عالمی دباؤ بھی بڑھ جاتا۔    لہٰذا سب سے پہلے اس امر کی تصدیق کی گئی کہ پاکستانی  سائنسدان  ایٹمی ٹیسٹ کے لئے تیار اور پر اعتماد ہیں۔

 پھر دوسرا مسئلہ  وقت کا تھا ۔  پاکستان نے چاغی کے غاروں میں ایٹم بم تیار کر کے نہیں رکھے تھے کہ وزیر اعظم کی ایک فون کال پر دھماکے کر دئے جاتے۔ ایٹمی ہتھیاروں کو اسمبل کرنا، انہیں  ٹیسٹ سینٹر پہنچانا،  اور دوسری ضروری تیاریوں کے لئے  وقت درکار تھا۔  لیکن پوری دنیا پاکستان پر ایٹمی تجربے نہ کرنے  کے لئے  دباؤ ڈال رہی تھی۔ اس وقت نواز شریف حکومت نے انتہائی سیاسی مہارت کا ثبوت دیا۔ سب کو لگ رہا تھا کہ پاکستانی حکومت گو مگو کا شکار ہے۔لیکن  نواز شریف  حکومت  نے ایک طرف  امریکی اور یوروپی حکومتوں کو انگیج کئے  رکھا اور  ساتھ ہی ایٹمی تجربے کے لئے عوامی دباؤ  کا سامنا بھی کرتی رہی۔   مگر  اپنی فوج اور سائنسدانوں کو وہ ’وقت‘ مہیا کیا جس کی ان  تجربوں  کے لئے ضرورت تھی۔ نواز حکومت  نے یہ کام اس قدر مہارت سے کیا کہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیز پاکستانی حکومت کے ارادوں کو بھانپنے میں ناکام رہیں اور  پاکستان کے جوابی ایٹمی تجربوں سے امریکہ، یورپ اور انڈیا ششدر رہ گئے۔  میرا خیال ہے کہ یہ نواز شریف حکومت   کی  سیاسی زندگی کی بہترین  اور مثبت سیاسی   چال تھی جس  پر وہ تعریف کے مستحق ہیں۔

 

نواز شریف  نے اپنے پہلے دونوں  ادوار میں خلیجی ممالک سے تعلقات استوار رکھے۔ جس سے انہیں بعد میں فائدہ بھی ہوا جب  وہ مشرف دور میں  کافی عرصے سعودی عرب  میں مقیم رہے۔ لیکن جب  ان کے تیسرے دورِ حکومت میں ؁2015 میں سعودی  یمن جنگ کا موقع آیا تو  انہوں نے سعودیہ عرب کے احسانات کے بوجھ تلے  دبے ہونے کے باوجود پاکستان کو  اس جنگ میں  جھونکنے سے انکار کردیا۔  ایک بار پھر ان کی حکومت کا فیصلہ صحیح ثابت ہوا کیونکہ اس جنگ میں سعودی عرب کو ہزیمت  کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔

 

نواز شریف   کی اور پالیسی بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی۔ انہوں نے کسی بھی فوجی سربراہ کی مدت ِ سالاری  کی توسیع نہیں کی۔ شروع میں   بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نواز شریف کی بے جا ضد  ہے یا فوج سے  بغض ہے۔   لیکن  اب اندازہ ہو رہا ہے کہ  فوجی سربراہوں کی ملازمت میں توسیع پاکستانی فوج  کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں   کو کس قدر نقصان پہنچا رہی ہے۔  عمران خان کے دورِ حکومت میں باجوہ صاحب  کو توسیع دی گئی، جس میں مسلم لیگ ن نے بھی حسبِ توفیق  حصہ بٹایا۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ مسلم لیگ ن نے اپنی پالیسی کے برخلاف فیصلہ کیا۔ لیکن آج اس فیصلے سے براہِ راست  فیضیاب ہونے والے بھی اس غلطی پر پشیمان ہیں اور باجوہ صاحب پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ لہٰذا نواز شریف کی سپہ سالاروں  کو توسیع  نہ دینے کی پالیسی  کی افادیت کو وقت نے ثابت کر دیا۔

 

بہرحال اس مضمون کا مقصد نواز شریف کا قصیدہ لکھنا نہیں تھا  کیونکہ نواز شریف حکومت کی غلطیوں کی فہرست   بہت طویل ہے۔ ہمیں تو بس یہ سمجھنا ہے کہ کوئی بھی رہنما نہ تو شیطان ہوتا ہے نہ فرشتہ۔ وہ کچھ کام  صحیح کرتا ہے  اور کچھ  غلط۔  ہمیں انصاف سے کام لے کر  اپنے رہنماؤں کے اچھے کاموں کی تعریف کرنی چاہئے اور برے کاموں پر تنقید۔

Comments

Popular posts from this blog

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

  گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچی کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روایت ختم نہ

ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات

  ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات   بہت انتظار کے بعد ڈنکی فلم ریلیز ہو گئی۔ راج کمار ہیرانی کے پرستار بہت عرصے سے اس فلم کا انتظار کر رہے تھے۔ میری اس فلم کے انتظار کی دو وجوہات تھیں، راج کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور فلم کا غیر روایتی موضوع۔ یہاں شاہ رخ خان کا نام نہ لینے پر ان کے پرستار ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی باکس آفس پر کامیاب ترین مگر احمقانہ فلموں پٹھان اور جوان نے کم از کم میرے لئے خان کے جادو کو زائل کر دیا۔ ویسے تو شاہ رخ خان اور راج کمار ہیرانی کی جوڑی سے سب کو ایک شاہ کار کی امیدیں تھیں۔ لیکن بڑی توقعات اکثر بڑی ناکامیوں پر ہی منتج ہوتی ہیں۔   اس فلم کا موضوع بہت اچھا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کی کہانی بھی اچھی ہے۔ فلم کے پہلے حصے میں ہنستے کھیلتے جس طرح فلم کی کہانی بُنی گئی ہے وہ بہت دلکش ہے۔ فلم کے پہلے حصے کا اختتام ایک خود کشی پر ہوتا ہے جس میں ہدایت کار اور اداکار کی پرفارمنس عروج پر ہے۔ لیکن خود کشی کے فوراً بعد ساتھی کرداروں کی تقریریں اور سچویشن سراسر اوور ایکٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم کا دوسرا حصہ اگرچہ نسبتاً بوجھل ہے لیکن راج کمار ہیران

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقریب کے بعد اساتذہ کے