Skip to main content

کیا پورے پاکستان میں ایک ہی دن عید منانا ضروری ہے؟




کیا پورے پاکستان  میں ایک ہی دن عید منانا ضروری ہے؟


عید کی آمد آمد ہے۔  پاکستانی مسلمان ایک طرف خوشی سے سرشار ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کے جذبے کے ساتھ رمضان گزارنے کا موقع عطا فرمایا۔ اور انعام کے طور پر عید کی آمد کی نوِید ہے۔ لیکن دوسری طرف ایک خدشہ بھی لگا ہے کہ کیا اس بار بھی عید پر وہی تماشا ہو گا جو پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے؟ کیا اس سال بھی وطنِ عزیز  میں لوگ اس  خوشی کے موقع پر منقسم ہوں گے؟ کیا اس سال بھی ملک میں دو الگ الگ دنوں میں عید منائی جائے گی؟ لیکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا پورے ملک میں ایک ہی دن عید منانا ضروری ہے؟

 

شمسی اور قمری تقویم

اصل مسئلے  پر بات کرنے سے پہلے کچھ ’بونس‘ معلومات پیش خدمت ہیں۔  دنیا میں دو طرح کی تقویم (calendar) رائج ہیں قمری اور شمسی ۔  قمری تقویم چاند کے گھٹنے اور بڑھنے پر مہینوں کا حساب کرتی ہے۔ یہ دنیا  کی قدیم ترین تقویم سمجھی جاتی ہے۔  اس کے قدیم ترین شواہد شہر روم کے قریب البان پہاڑی (Alban Hills) پر ملے ہیں جو  کہ پتھر کے زمانے کے اواخر یعنی 10,000سال پرانے سمجھے جاتے ہیں۔  قمری تقویم آج بھی بے شمار تہذیبوں اور مذاہب میں رائج ہے۔ جن میں اسلامی، یہودی، بدھ، ہندو ،  پارسی، مذاہب کے علاوہ  قدیم چینی، مایا، بابل اور مزید کئی تہذیبیں بھی شامل ہیں۔  

 

مسلمان ہجری تقویم استعمال کرتے ہیں۔ یہ کوئی علیحدہ تقویم نہیں بلکہ وہی قمری تقویم ہے جو عرب میں قبل از اسلام بھی مستعمل تھی۔ نبی پاک حضرت محمد ﷺ نے تمام عمر اس ہی تقویم کو استعمال کیا۔ اس تقویم میں سال کی نشاندہی نمبر کے بجائے اس سال کے اہم واقعے سے کی جاتی تھی جیسے عام الفیل یا عام الحزن۔ حضرت عمرؓ کے دور میں  سلطنت وسیع ہوئی تو کچھ  صوبوں کے حکام نے شکایت کی کہ جب مدینہ سے فرامین آتے ہیں تو ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ یہ کب جاری ہوئے اور کون سا حکم نیا ہے اور کون سا پرانا۔  اس پر حضرت عمر ؓ نے اہلِ علم صحابہ کو جمع کیا اور اس کا حل طلب کیا۔ اجماع اس بات پر ہوا کہ تقویم کے مہینے اس ہی طرح برقرار رکھے جائیں۔ سال کی نشاندہی کے لئے نبی پاک حضرت محمد ﷺ  کی مدینہ  ہجرت  کا سال پہلا سال شمار کیا جائے اور اِس کے بعد اُس میں سال   جمع کئے جاتے رہیں۔ اس طرح اس تقویم کا نام ہجری تقویم پڑ گیا جو آج تک مستعمل ہے۔  اس سے ایک بات اور پتہ چلتی ہے کہ ہجری تقویم کوئی دینی شعار نہیں بلکہ اس وقت کے مسلمانوں کا ایک انتظامی فیصلہ تھا۔ جو ان کی مسائل کو منطقی انداز سے حل کرنے کی صلاحیت کا پتہ  دیتا ہے۔

 

دوسری معروف  تقویم سورج پر انحصار کرتی ہے اور شمسی تقویم کہلاتی ہے۔ اس کے قدیم ترین آثار مصر میں ملتے ہیں جب  تقریباً 5،000 سال پہلے مصریوں نے 360 دن کی شمسی تقویم اختیار کی۔ بعد میں اسے درست کرنے کے لئے اس میں 5 دن کا اضافہ کیا جو آج تک قائم ہے۔ مصریوں کا سال جولائی میں شروع ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں عام مستعملGregorian  تقویم، جو کہJulian  تقویم کی اصلاحی شکل ہے، اسے پاپائے روم گریگوری نے 1582 میں متعارف کرایا۔ تقریباً 500 سال سے مستعمل اس تقویم میں سال کا آغاز جنوری سے ہوتا ہے۔  

 

یہاں کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ موجودہ زمانے میں قمری تقویم بہت کارآمد نہیں ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ بہت سی سائنسی  calculationsآج بھی قمری تقویم کو استعمال کرتی ہیں۔ دوسری یہ کہ شمسی تقویم، قمری تقویم سے زیادہ درست ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔ قمری تقویم ایک خودکار طریقے سے  سال کی مدت کا درست  حساب کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جبکہ شمسی تقویم میں ہر چار سال بعد اس میں ایک دن بڑھا کر اسے درست کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کے باوجود بھی کچھ فرق باقی رہ جاتا ہے۔ تیسری یہ کہ قمری تقویم اب زیادہ استعمال نہیں ہوتی۔ لیکن یہ خیال بھی درست نہیں ہے۔ مسلمان، یہودی، ہندو، بدھ، چینی اور کئی اور تہذیبیں آج بھی قمری تقویم استعمال کر رہی ہیں اور ایک مربوط نظام کے تحت اس کا باقاعدہ حساب رکھتی ہیں۔ اور یہ تہذیبیں دنیا کی آبادی کے 50 فیصد سے زائد بنتی ہیں۔

 

 اسلامی تہواروں کے لئے چاند کی تاریخ کی اہمیت

اسلامی تہوار قمری تقویم کے حساب سے منائے جاتے ہیں۔ سال کا آغاز محرم سے۔ نواں مہینہ  رمضان کا۔ دسواں مہینہ عید الفطر سے شروع ہوتا ہے۔ اور بارہویں مہینے میں حج اور عیدالاضحیٰ ۔  ہر مہینہ کے آغاز کا تعین نئے چاند کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ اور پچھلا مہینہ مکمل سمجھا جاتا ہے۔ چاند اور زمین کی گردش کی وجہ سے مہینہ 29 یا 30 دن کا ہو سکتا ہے۔ ویسے تو علماء اور اہلِ ذوق ہر ماہ چاند کو دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن رمضان کا چاند دیکھنا ایک خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔  ایک ماہ کی جسمانی اور روحانی عبادت کے بعد جب شوال کا چاند نظر آتا ہے تو  تمام خصوصی پابندیوں کے خاتمے کی نوِید لاتا ہے اور جشن کا اعلان کرتا ہے۔ بزرگ اپنی عبادتوں کی تکمیل پر خوش ہوتے ہیں۔ بچے نئے کپڑوں اور عیدی کے تصور سے جھوم رہے ہوتے ہیں۔ اور نوجوان اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ عید منانے کی تیاریوں میں مگن ہو جاتے ہیں۔

 

پاکستان میں دو عیدوں کا مسئلہ

پاکستان میں بہت سے لوگ اس بات پر مضطرب   رہتے ہیں کہ ایک ہی ملک میں مسلمانوں میں شعائر دین پر اتفاق نہیں ہے۔ گرچہ اکثریت ایک ہی دن رمضان کا آغاز کرتی ہے اور ایک ساتھ ہی عید مناتی ہے۔ لیکن ایک اقلیت اس کے خلاف معاملہ کرتی ہے۔  ہر سال عید الفطر سے پہلے یہ معاملہ مزید ابھر کے سامنے آتا ہے اور اب عوام کی بحث  کا موضوع  بھی بننے لگا ہے۔ لیکن پھر وہی سوال  اٹھتا ہے کہ کیا اسلامی مملکت میں ایک ہی دن عید منانا ضروری ہے؟


یہاں ایک حدیث مبارک پیش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے سیاق و سباق واضح کر دوں۔  مدینۃ المنورہ سے دمشق، شام کا فاصلہ تقریباً 1،324 کلومیٹر ہے اور کراچی سے پشاور کا فاصلہ 1،554 کلومیٹر ہے۔

کریب سے روایت کی کہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے انھیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا ( وہ اس وقت شام کے والی تھے ) ، کہا : چنانچہ میں شام آیا اور ان کا کام کیا ، اور میں شام ہی میں تھا کہ میرے سامنے رمضان کے چاند کا شور مچا ۔ میں نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ واپس آ گیا تو مجھ سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ( حال ) پوچھا ، پھر چاند کا ذکر کرتے ہوئے کہا : تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا ؟ میں نے کہا : ہم نے اسے جمعے کی رات کو دیکھا تھا ۔ انھوں نے پوچھا : تم نے اس کو خود دیکھا ؟ میں نے کہا : ہاں ، اور لوگوں نے بھی اسے دیکھا اور انھوں نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا ۔ اس پر انھوں نے کہا : لیکن ہم نے تو اسے ہفتے کی رات دیکھا ہے ، لہذا ہم روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ ہم تیس ( دن ) پورے کر لیں یا اس ( چاند ) کو دیکھ لیں ۔ تو میں نے کہا : کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور ان کے روزے پر اکتفا نہیں کریں گے ؟ انھوں نے کہا : نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اسی طرح حکم دیا ہے ۔ (صحیح مسلم 2528  انٹرنیشنل نمبر  1087، سنن ابی داؤد 2332  ، سنن نسائی 2113)

 

اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں مختلف دنوں میں عید  ہونے میں کوئی عیب نہیں۔  ایک اور حدیث مبارکہ سے ظاہر ہوتا  ہے کہ اگر قریبی علاقے سے شہادت ملے تو مقامی رویّت ہلال نہ ہونے کے باوجود بھی عید کی جا سکتی ہے۔

ابو عمیر بن انس کہتے ہیں: مجھے میرے انصاری چچوں، جو کہ صحابہ میں سے تھے، نے بیان کیاکہ (۲۹ رمضان کو) ان کو شوال کا چاند نظر نہ آیا، اس لیے لوگوں نے صبح کو روزہ رکھ لیا، پھر دن کے پچھلے پہر ایک قافلہ آیا اور انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کے پاس یہ گواہی دی کہ انہوں نے کل شام کو چاند دیکھا تھا، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزہ توڑ دیں اور اگلے دن عید کے لیے نکلیں۔   (مسند احمد 3696،  مشکوٰۃ المصابیح 1450)

 

یعنی قریبی علاقے  ( حدیث  پاک کے مطابق ایک دن پیدل  چلنے کا فاصلہ) میں اگر کسی نے چاند دیکھ لیا ہو تو اس گواہی پر مقامی لوگ رمضان یا عید کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر عقلی دلیل استعمال کی جائے تو شریعت میں الگ دن عید کرنے کی اجازت بھی موجود ہے اور قریبی آبادیوں کے ساتھ مل کر عید منانے کی بھی۔

یہ ایک عام مسلمان کی رائے ہے جو  چند  احادیث مبارکہ کے مطالعے کے بعد قائم کی گئی ہے۔ درست اور حتمی رائے علماء کرام ہی دے سکتے ہیں جنہوں نے اس معاملے میں تحقیق کی ہو ۔

 

رویّت ہلال اور حکومت پاکستان

قمری تقویم استعمال کرنے والے کئی ممالک میں سرکاری سطح پر چاند کا مشاہدہ کر کے تقویم کا  حساب رکھا جاتا ہے۔  پاکستان میں بھی اس کے لئے بہت اعلیٰ انتظام کیا گیا ہے جہاں سائنسی اور مذہبی ادارے تمام سال رویّت ہلال کا اہتمام کرتے ہیں۔ پورے سال یہ کام خاموشی سے جاری رہتا ہے۔ لیکن جب رمضان اور شوال کا چاند دیکھنے کا اہتمام ہوتا ہے تو پورے ملک کی نگاہیں اس پر جم جاتی ہیں۔  حکومت پاکستان بھی اس ضمن میں اضافی انتظامات کرتی ہے۔  ملک کے چاروں صوبوں میں رویّت ہلال کے لئے مختلف مکاتبِ  فکر کے علماء پر مشتمل مجلس قائم ہوتی ہے ۔   جن کے اوپر ایک مرکزی مجلس ہوتی ہے جس میں ملک کے جیّد علماء  شامل ہوتے ہیں۔  ان مجالس کی معاونت کے لئے سائنسی تحقیق کے ادارے مثلاً محکمہ موسمیات، محکمہ خلائی تحقیق  وغیرہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔ جس میں سائنسی آلات سے لے کر نئے چاند کی پیدائش کے سائنسی  شواہد تک رویّت ہلال مجالس کو مہیا کئے جاتے ہیں۔ مہینے کی آخری راتوں میں رویّت ہلال کا اہتمام ہوتا ہے۔ تمام صوبائی مجالس خود بھی چاند دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور لوگوں سے گواہیاں بھی جمع کرتی ہیں۔ اس عمل کے اختتام پر  صوبائی مجالس اپنی گواہیاں مرکزی مجلس تک پہنچا دیتی ہیں۔ جس کے بعد مرکزی  مجلس، جو خود بھی رویّت ہلال کر رہی ہوتی ہے،  مشاہدات اور گواہیوں کی بنیاد پر رمضان یا شوال کے چاند  کا اعلان کر دیتی ہے۔

 

پاکستان میں اسلامی مہینوں اور تہواروں کا مدار سرکاری رویّت ہلال کے ادارے کی سفارش پر ہوتا ہے۔  پاکستان نے اپنے ابتدائی برسوں میں ہی رویّت ہلال کا ایک باقاعدہ نظام متعارف کروا دیا تھا ۔ گرچہ ہر سرکاری ادارے کی طرح اس پر بھی تنقید کی جاتی ہے لیکن پچھلے 50 برسوں میں بمشکل ہی کوئی مثال ملتی ہے جہاں اس ادارے نے چاند کی تاریخوں کا غلط اعلان کیا ہو اور لوگوں کو رمضان یا عید منانے کے سلسلے میں کفارہ دینا پڑا ہو۔  اس معاملے میں پاکستانی سرکاری رویّت ہلال ادارے نے امیر اسلامی ممالک کے اداروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہاں ایک بات مدّنظر رکھنا ضروری ہے کہ جب عوام نے ریاست کو رویّت ہلال کا حق اور ذمہ داری دے دی تو عوام رویّت ہلال کی مکلف نہیں۔ چاند خود دیکھیں تو بہت ہی اچھا وگرنہ ریاست یہ ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کر رہی ہے۔ لہٰذا اس پر اعتبار کریں۔

 

سرکاری رویّت ہلال کی احساس ذمہ داری اور راست بازی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو ایک وہم ہے کہ  دو خطبے حکمران پر بھاری ہوتے ہیں۔ یعنی اگر عید اور جمعے کے خطبے جمع ہو جائیں تو اس سال حکومت کے خاتمے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ شنید ہے کہ ایوب خان صاحب کے زمانے میں جمعے کے دن عید کو ٹالنے کی کوششیں کی گئیں جس سے سرکاری رویّت ہلال کے ادارے کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی۔ غالباً 1977 میں عید الفطر جمعے کے دن ہوئی اور بھٹو صاحب کی حکومت اس ہی سال جاتی رہی۔  ان توہمات کے باوجود اس صدی میں  پاکستان میں  تین مرتبہ  2005، 2010 اور 2021 میں جمعے کو عید ہوئی۔ سرکاری رویّت ہلال کے ادارے نے پوری ایمانداری سے اپنا فرض نبھایا ۔ بظاہر نہ تو کسی حکومت نے عید کے دن کو بدلنے کی کوشش کی اور نہ ہی رویّت ہلال کے ادارے نے کسی قسم کا سمجھوتہ کیا۔

 


رویّت ہلال   اور مذہبی جماعتیں

پاکستان میں رویّت ہلال کے ادارے کے ضوابط بہت عمدگی سے متعین کئے گئے ہیں ۔ کراچی سے پشاور تک بیشتر مذہبی مکاتبِ فکر بھی ان پر اعتبار کرتے ہیں ۔ یہ مکاتبِ فکر اپنے نمائندے رویّت ہلال اداروں میں بھیجتے ہیں اور ان فیصلوں میں مکمل حصہ دار ہوتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت سرکاری رویّت ہلال کے ادارے کے اعلان پر اعتبار کر تی ہے ۔ اور اس کے مطابق ہی رمضان و عید کا اہتمام کرتی ہے ۔  یہ  ہم آہنگی پاکستانی مسلمانوں کے لئے بہت اطمینان اور خوشی کا باعث ہے۔

 

لیکن خیبر پختونخواہ کے کچھ علماء اور عوام  کبھی اس ادارے سے اتفاق نہیں بھی کرتے۔ وہ کئی مرتبہ رمضان کا آغاز و اختتام  باقی پاکستانیوں کے ساتھ نہیں کرتے۔  اس  کی یقیناً کوئی سائنسی توجیہہ بھی ہو گی۔ کیونکہ زمین  اور چاند کی گردش کے فرق کی وجہ سے چاند زمین پر ہمیشہ ایک ہی مقام پر نظر نہیں آتا۔  تو عین ممکن ہے کہ دو ممالک کے سرحد ی علاقوں میں قمری دن کبھی ایک ملک کے ساتھ ہو کبھی دوسرے کے ساتھ۔ بہرحال  یہ ایک ٹیکنیکل معاملہ ہے جسے ماہرین فلکیات پر چھوڑنا ہی مناسب ہے۔

 

دوسرا معاملہ سیاسی بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ عموماً ان علاقوں میں رویّت ہلال کی شہادتیں پاکستان کے بجائے افغانستان کی شہادتوں سے  زیادہ مطابقت رکھتی ہیں۔ افغانستان سے ملحق  پاکستانی صوبوں میں افغانیوں کی کثیر تعداد رہتی ہے اور ان کی بڑی تعداد افغانستان کے ساتھ رمضان اور عید منانا پسند کرتی ہے۔ ان علاقوں میں الگ رمضان اور عید کی روایت کو پشاور کی مسجد قاسم علی خان کی گواہی سے بھی تقویت ملتی ہے جس کے رویّت ہلال کے اعلانات عموماً  افغانستان اور سعودی عرب سے مطابقت رکھتے ہیں۔  اگر مسجد قاسم علی خان کے چاند کے اعلانات دیکھے جائیں تو وہ صرف  اس ہی وقت پاکستان کی رویّت ہلال کے مطابق ہوتے ہیں جب پاکستان اور سعودی عرب میں ایک ساتھ رمضان اور عید ہو۔  ویسے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سال کے بقیہ حصے میں مسجد قاسم علی خان کی تقویم پراسرار طور پر پاکستان کی تقویم سے مل جاتی ہے۔ اور اس سے زیادہ مزے کی بات یہ کہ جب چند سال پہلے سعودی عرب نے ایک روزے کا کفارہ دینے کا اعلان کیا تو مسجد قاسم علی خان نے اپنی تاریخیں سعودی عرب سے مطابقت رکھنے کے باوجود بھی ایسی کوئی زحمت نہیں کی اور غلط رویّت ہلال پر کوئی معذرت بھی نہیں کی۔

  

اس معاملے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ 2023 میں  پاکستان اور سعودی عرب میں ایک ساتھ رمضان شروع  ہوا۔   مسجد قاسم علی خان نے بھی اس ہی دن رمضان کے آغاز کا اعلان کیا۔ لیکن رمضان کے اختتام پر سعودی عرب میں غیر متوقع طور پر 29ویں روزے  کے بعد عید کا اعلان کر دیا گیا۔  امید تھی کہ   مسجد قاسم علی خان  اس بار بھی سعودی عرب کی تقلید  کرے گی۔ لیکن خلافِ توقع  انہوں نے پاکستان میں 30 روزوں کے بعد عید کا اعلان کیا ۔ جس  کے بعد  تمام پاکستانی ایک ہی دن عید  منائیں گے۔ اس سے  تو لگتا ہے کہ  مسجد قاسم علی خان    کے  چاند کے شہادت کے معیار  شاید مختلف ہوں لیکن وہ آنکھ بند کر کے سعودی عرب کی تقلید نہیں کرتے۔

  

رویّت ہلال اور میڈیا

خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں بقیہ پاکستانی شہروں سے الگ رمضان اور عید منانے کا رواج نیا نہیں ہے۔ لیکن لوگوں کو اس کی اطلاع کم  ہی ملتی تھی۔ اس لئے یہ کبھی بہت بڑا مسئلہ نہیں بنا۔ ایک زمانے تک ریڈیو اور اخبارات ہی عوامی ذرائع ابلاغ تھے۔ ریڈیو سرکاری نظم کا پابند تھا۔ لہٰذا ان کے لئے رمضان یا عید کے ایام وہی ہوتے جس کا اعلان سرکاری رویّت ہلال ادارہ کرتا۔ اس طرح کبھی بھی دو عیدوں کا معاملہ اس طرح سے  نہیں اٹھا۔ اخبارات کی طاقت یا کمزوری ان کے شائع ہونے کے اوقات تھے۔ لہٰذا جب تک اخبارات پشاور میں ایک دن پہلے عید ہونے کے اطلاع دیتے  بقیہ پاکستان اگلے دن عید کی نماز ادا کر چکا ہوتا۔ اور عید کے پر مسرت موقع پر لوگوں کے پاس اس معاملے پر سر کھپانے کے لئے فالتو وقت ہی نہ ہوتا۔

 

مسئلہ اس وقت بڑھا جب پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں افغان رہنے لگے اور رمضان اور عید اپنی تقویم کے حساب سے کرنے لگے۔ اتنی بڑی تعداد کی وجہ سے یہ امر لوگوں کی توجہ مبذول کروانے لگا۔ جب شہر کے لوگ روزے سے ہوں اور ہزاروں لوگ عید کی نماز پڑھ رہے ہوں تو اس کو نظر انداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا دوسرے شہروں کے لوگوں کے لئے، جو افغان اور پاکستانی پٹھانوں میں بمشکل فرق کر سکتے ہوں، یہ چیز پریشانی کا باعث بننے لگی۔ بہرحال سرکاری ریڈیو اور ٹیلیویژن کے دور میں تو صورتحال پھر بھی قابو میں رہی۔ لیکن 24 گھنٹے چلنے والے خبروں کے  نجی چینلز کی اشتہار کی بھوک نے معاملے کو سنگین بنا دیا۔ چینلز  نے ریٹنگ کی دوڑ میں ان چیزوں کو بھی قومی مسئلہ بنا دیا جو شاید  مسئلہ تھے ہی نہیں۔  یہ چینلز پاکستان میں آخری روزے سے ہیجان خیز سرخیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں اور صبح سے خیبر پختونخواہ کے چند علاقوں میں عید کی نماز کی ویڈیوز دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ساتھ میں سوال بھی اٹھاتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں عید دو مختلف دن کیسے ہو سکتی ہے؟ ان باتوں کی تکرار سن کر لوگوں میں بھی اشتعال پیدا ہوتا ہے اور وہ ایک لسانی گروہ یا صوبے کو پاکستان میں تفرقہ بازی کا باعث سمجھنے لگتے ہیں۔  حالانکہ خیبر پختونخواہ کی اکثریت پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح سرکاری رویّت ہلال کا اتباع کرتی ہے۔ لیکن میڈیا کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے لوگوں میں اس کے مخالف تاثر جاتا ہے۔  پاکستان میں ایک بہت چھوٹی تعداد ہے جو رویّت ہلال کے فیصلے کے خلاف جاتی ہے ۔ اگر میڈیا ان باتوں کی تکرار نہ کرے، اور سرکاری رویّت ہلال کے خلاف جانے والوں کی بے جا ترویج نہ کرے تو عام لوگ بھی پریشانی سے بچ سکتے ہیں اور سرکاری رویّت ہلال کے خلاف جانے والے بھی دوسروں کی نفرت کا شکار نہ ہوں گے۔

 

رویّت ہلال اور عوام

آخر میں بات ہم جیسے لوگوں پر آ جاتی ہے یعنی عوام پر۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کرم کیا کہ ہمیں مسلمان گھر میں پیدا کیا۔ پھر ایک مسلمان مملکت میں ہماری پرورش کا سامان کیا۔  ایک ایسی مملکت جو قمری تقویم  کی دیکھ بھال کا بہترین نظام رکھتی ہے۔ لیکن ہم بلا وجہ  اس  نظام پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔  ہم میں سے بیشتر کے علم کا معیار یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ نیا چاند کس سمت میں طلوع ہوتا ہے، کتنے بجے سے اسے دیکھنا ممکن ہے اور کتنی دیر تک  دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہم ماہرین فلکیات، اور علماء دین کی معلومات کو رد کرنے میں سیکنڈ نہیں لگاتے۔ بد قسمتی سے اس معاملے میں با عمل مسلمان اور نام  نہاد روشن خیال، دونوں ہی شامل ہیں۔ با عمل اور نیک مسلمان   ’تقویٰ‘ کے اس معیار پر پہنچے ہوئے ہیں کہ وہ  بیسیوں علماء دین  کے علم اور دیانت کو پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتے۔ وہ اپنے آپ کو ایماندار اور باقی سب کو بے ایمان سمجھتے ہیں۔ اس ہی طرح نام نہاد روشن خیال یا بظاہر پڑھے لکھے افراد  بھی علماء دین کو مطعون کرتے کرتے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان علماء کے ساتھ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین فلکیات اور ماہرین موسمیات  بھی رویّت ہلال کے فیصلے کا حصہ ہوتے ہیں۔  جو  مستند  سائنسی معلومات کے ساتھ رویّت ہلال کے عمل کا حصہ بنتے ہیں۔  اب اگر کوئی یہ کہے کہ اتنے جید علماء اور اتنے  تعلیم یافتہ سائنسدان غلط کہہ رہے ہیں اور اس کی  کہی ہوئی بات فوقیت رکھتی ہے۔  تو ایسے شخص کے لئے ماہر نفسیات Narcissistic Personality Disorder یعنی نرگسیت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو کہ بد قسمتی سے ہماری قومی بیماری بن چکی ہے۔

 

اللہ تعالیٰ نے جمعیت کو قوت بخشی ہے۔ اگر  کوئی ہمیں رمضان یا عید منانے کی تاریخ دے اور ہم یک زبان  ہو کر کہیں کہ ہم تو اپنے مسلمان حاکم کے حکم پر عمل کے مکلف ہیں لہٰذا ہمارے لئے تو عید اس ہی دن ہے جب ہمارا حاکم کہے۔ تو امید ہے کہ یہ مذہبی دکانیں بند ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اور دو عیدوں والا رواج بھی ختم ہو جائے گا۔

 

آخر میں میری ذاتی رائے کہ رمضان اور عید کا تعین اجتماعی ارکانِ دین میں شامل ہے۔ اس لئے تقویم جاری کرنے کا اختیار مسلمانوں کے حاکم  یا اس کے نمائندوں کو  ہونا چاہئے ۔ وہی اسلامی احکامات کے مطابق مسلمانوں کے اجتماعی تہواروں کا فیصلہ کریں تاکہ قومی یکجہتی برقرار رہ سکے۔ کوئی بھی شخص، چاہے کتنا ہی بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو، مسلمانوں کی حکومت کے خلاف  اجتماعی فیصلوں کی مخالفت اختیار نہ کرے۔ اور عوام  کے لئے تو اللہ کا حکم ہے

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُممْۚ

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں  


 لہٰذا میرے لئے تو  سرکاری رویّت ہلال کی بات ہی  قولِ فیصل ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

  گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچی کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روایت ختم نہ

ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات

  ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات   بہت انتظار کے بعد ڈنکی فلم ریلیز ہو گئی۔ راج کمار ہیرانی کے پرستار بہت عرصے سے اس فلم کا انتظار کر رہے تھے۔ میری اس فلم کے انتظار کی دو وجوہات تھیں، راج کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور فلم کا غیر روایتی موضوع۔ یہاں شاہ رخ خان کا نام نہ لینے پر ان کے پرستار ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی باکس آفس پر کامیاب ترین مگر احمقانہ فلموں پٹھان اور جوان نے کم از کم میرے لئے خان کے جادو کو زائل کر دیا۔ ویسے تو شاہ رخ خان اور راج کمار ہیرانی کی جوڑی سے سب کو ایک شاہ کار کی امیدیں تھیں۔ لیکن بڑی توقعات اکثر بڑی ناکامیوں پر ہی منتج ہوتی ہیں۔   اس فلم کا موضوع بہت اچھا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کی کہانی بھی اچھی ہے۔ فلم کے پہلے حصے میں ہنستے کھیلتے جس طرح فلم کی کہانی بُنی گئی ہے وہ بہت دلکش ہے۔ فلم کے پہلے حصے کا اختتام ایک خود کشی پر ہوتا ہے جس میں ہدایت کار اور اداکار کی پرفارمنس عروج پر ہے۔ لیکن خود کشی کے فوراً بعد ساتھی کرداروں کی تقریریں اور سچویشن سراسر اوور ایکٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم کا دوسرا حصہ اگرچہ نسبتاً بوجھل ہے لیکن راج کمار ہیران

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقریب کے بعد اساتذہ کے