ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات
بہت انتظار کے بعد ڈنکی فلم ریلیز ہو گئی۔ راج کمار ہیرانی کے پرستار بہت عرصے
سے اس فلم کا انتظار کر رہے تھے۔ میری اس فلم کے انتظار کی دو وجوہات تھیں، راج
کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور فلم کا غیر روایتی موضوع۔ یہاں شاہ رخ خان کا نام نہ
لینے پر ان کے پرستار ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی باکس آفس پر کامیاب ترین مگر احمقانہ
فلموں پٹھان اور جوان نے کم از کم میرے لئے خان کے جادو کو زائل کر دیا۔ ویسے تو
شاہ رخ خان اور راج کمار ہیرانی کی جوڑی سے سب کو ایک شاہ کار کی امیدیں تھیں۔ لیکن
بڑی توقعات اکثر بڑی ناکامیوں پر ہی منتج ہوتی ہیں۔
اس فلم کا موضوع بہت اچھا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کی کہانی بھی اچھی ہے۔ فلم کے
پہلے حصے میں ہنستے کھیلتے جس طرح فلم کی کہانی بُنی گئی ہے وہ بہت دلکش ہے۔ فلم
کے پہلے حصے کا اختتام ایک خود کشی پر ہوتا ہے جس میں ہدایت کار اور اداکار کی
پرفارمنس عروج پر ہے۔ لیکن خود کشی کے فوراً بعد ساتھی کرداروں کی تقریریں اور سچویشن
سراسر اوور ایکٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم کا دوسرا حصہ اگرچہ نسبتاً بوجھل ہے
لیکن راج کمار ہیرانی نے بڑی خوبی سے تکلیف دہ مناظر کو دکھانے کے ساتھ ساتھ ان کو
تیزی سے گزار دیا تاکہ یہ فلم محض میلو ڈراما یا ڈاکیومینٹری بن کر نہ رہ جائے۔
فلم کا اختتامی حصہ کسی حد تک غیر متوقع ہے اور عمدگی سے فلمایا گیا ہے۔ فلم کے آخری
منظر کو احمقانہ ہی کہہ سکتے ہیں لیکن شاید ہیرانی صاحب ناظرین کو روتے ہوئے گھر
بھیجنا نہیں چاہتے تھے اس لئے ہم اس پر تنقید نہیں کرتے۔ فلم میں کئی جھول ہیں
مثلاً ایک بیمار کردار کا ۳ سیکنڈ میں بیٹھے بیٹھے خاموشی سے مر جانا بہت غیر
حقیقی ہے لیکن کسی منظر کو متاثر کن بنانے کے لئے ڈائریکٹر کو تھوڑی سی تخلیقی
آزادی دینے میں کوئی ہرج نہیں ۔
راج کمار ہیرانی نے محض پانچ فلمیں بنا کر بالی ووڈ کے لیجنڈ کا رتبہ حاصل کر
لیا۔ ان کی فلمیں طاقتور کہانیوں اور جان دار مکالموں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ وہ
اپنی فلموں میں جا بجا دقیانوسی انڈین خیالات کو مزاح کے چاشنی میں لپیٹ کر چیلنج
کرتے نظر آتے ہیں۔ فلم PK اس کی بہترین مثال ہے۔ اس چھٹی فلم میں بھی وہ
سرسری طور پر ایک گہری حقیقت بیان کر گئے ہیں جس کا ادراک کم از کم انڈین ناظرین
کو نہیں ہوا۔ ڈنکی فلم کی کہانی ان کرداروں کے گرد گھومتی ہے جو اپنی معاشی اور
جذباتی ضروریات کی وجہ سے انگلینڈ جانا چاہتے ہیں۔ لیکن مروجہ قوانین کے تقاضوں پر
پورا نہ اترنے کے باعث انہیں ویزا نہیں ملتا۔ مایوسی کے عالم میں وہ انگریزوں اور
ان کی امیگریشن پالیسی کے خلاف دھواں دار تقریریں کرتے نظر آتے ہیں۔ فلم کے ایک موڑ پر وہ غیر
قانونی طریقے سے انگلینڈ پہنچنے کے لئے ڈنکی لگانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہاں پہنچ
کر بھی انہیں مایوس کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک بار پھر انگریزوں، ان کی امیگریشن پالیسی اور سرحدوں کے خلاف بھاشن سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن یہاں ہیرانی
صاحب بڑی صفائی سے ایک سنگین حقیقت بیان کر گئے جو ناظرین اگر سمجھے بھی تو
خاموشی سے پی گئے۔ فلم کے کردار جب برطانوی شہریت حاصل کر لیتے ہیں اور برطانوی
پاسپورٹ پر انڈیا آنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں انڈیا میں بھی ویسی ہی امیگریشن
پالیسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے خلاف وہ پوری فلم میں بولتے چلے آئے ہیں۔ یہ
سچویشن ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو خود انڈیا کی ویزا اور امیگریشن
پالیسی کا حصہ ہے۔ انڈیا میں بنگلہ دیش، میانمار اور سری لنکا سے آنے والے پناہ
گیروں کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری طور پر جو سلوک ہوتا ہے اگر اس پر فلم بنائی
جائے تو شاید آنسوؤں کے سوا کچھ بھی نہ دکھایا جا سکے۔ انڈینز بڑی سادگی سے یہ سمجھتے
ہیں کہ جب وہ کسی اور ملک میں جا رہے ہوتے ہیں تو اس ملک میں روزگار کے نئے مواقع
پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور مقامیوں کی نوکریوں پر اثرانداز نہیں ہوتے۔ لیکن جب انڈیا
میں پناہ گزین آتے ہیں تو انہیں فوراً اپنی نوکریوں اور کاروبار کی فکر پڑ جاتی
ہے۔ اگر انڈین غیر منصفانہ امیگریشن پالیسی کے خلاف ہیں تو انہیں اپنی جدوجہد کا
آغاز دوسرے ملکوں سے نہیں بلکہ اپنے ہی ملک سے کرنا چاہئے۔
Comments
Post a Comment