Skip to main content

حافظ نعیم الرحمٰن کا ناکام سیاسی کرتب






حافظ نعیم الرحمٰن کا ناکام سیاسی کرتب

 

پاکستان میں ایک اور مایوس کن انتخاب اختتام کو پہنچا۔ ایسا انتخاب جس میں جیتنے والے بھی دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں اور ہارنے والے بھی۔ ویسے ہارنے پر نتائج نہ ماننا اور دھاندلی کے الزامات لگانا ایک سیاسی روایت بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان الزامات کو سنجیدگی سے لینا بند کر دیا ہے۔ لیکن ایسے میں یہ الزام ایک نئے طریقے سے سامنے آتا ہے جو سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتا ہے۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے ایک پریس کانفرنس میں انتخابی نتائج کو نہ مانتے ہوئے حلقہ پی ایس 129 میں اپنی ہی جیت کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حلقے میں ان کے جمع کئے گئے P-45 فارم کے مطابق اس حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور اس بناء پر وہ اپنی نشست سے دست بردار ہوتے ہیں۔ حافظ نعیم صاحب کے اس قدم نے اس خرابے میں مزید ہیجان پیدا کر دیا۔ بے شمار لوگ اس بیان سے بھونچکا رہ گئے۔ بہت سے لوگوں نے حافظ صاحب کی ایمان داری اور جرات مندی کی تعریف بھی کی۔ لیکن کیا یہ سیاست طور پر ایک دانشمندانہ قدم بھی  تھا؟ سب سے پہلے تو الیکشن کمیشن سے جاری ہونے والے نتائج پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ حافظ صاحب کی بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ 2024  الیکشن میں جماعت اسلامی نے 26،926، ایم کیو ایم نے 20،608، پیپلز پارٹی نے 15،014، اور پی ٹی آئی نے 11،357 ووٹ حاصل کئے۔ ان نتائج کے بعد حافظ صاحب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی پر سے چھلانگ مارتے ہوئے چوتھے نمبر کے امیدوار پر پہنچتے ہیں جس کے ووٹ ان کے حاصل کردہ ووٹوں سے آدھے سے بھی کم ہیں اور اس کی کامیابی کا اعلان کر دیتے ہیں۔

 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس بنیاد پر ایسا دعویٰ کر رہے ہیں؟ ان کے دعوے کے مطابق اس حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنز سے جمع ہونے والے  P-45 فارم کے نتائج کو مرتب کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے ووٹ زیادہ نکلے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ ان کے حساب سے پی ٹی آئی کے امیدوار نے کتنے ووٹ حاصل کئے۔ چلیں ایک لمحے کو اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دعوے کی بنیاد P-45 فارم پر رکھی ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر امیدواروں کے نمائندوں کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی کے بعد اس اسٹیشن کا پریزائیڈنگ افسر ایک غیر حتمی نتیجہ جاری کرتا ہے اور اس کی نقل ہر امیدوار کے نمائندے کو دے دیتا ہے۔ یہ نتیجہ P-45 فارم کہلاتا ہے۔ الیکشن ٹرانسمیشن کے دوران مختلف ٹیلی ویژن چینل بھی P-45 فارم کی بنیاد پر غیر حتمی نتائج مرتب کرتے ہیں اور عوام تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ حافظ صاحب نے اپنے دعوے کی بنیاد P-45 فارم پر رکھی ہے۔ یعنی وہ P-45 فارم کے نتائج کو مانتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ دھاندلی اس کے بعد والے مرحلے میں ہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بات ان کے اپنے اور اپنی جماعت کے سابقہ دعووں کے بالکل برعکس ہے۔ جماعت اسلامی کا دیرینہ موقف ہے کہ کراچی میں پولنگ منصفانہ طریقے سے نہیں ہوتی اور ایم کیو ایم کے لوگ طاقت کے زور پر جعلی ووٹ ڈال کر نتائج اپنے حق میں کر لیتے ہیں۔ لیکن 2024 کے انتخابات میں حافظ نعیم صاحب P-45 فارم کے نتائج کو مان رہے ہیں جس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ ان پولنگ اسٹیشنز پر آزادانہ پولنگ ہوئی اور  P-45 فارم منصفانہ طریقے سے جاری ہوئے۔ جماعت اسلامی کے اس دیرینہ مؤقف سے روگردانی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اور کیا حافظ نعیم صاحب اس مؤقف پر قائم رہیں گے؟

 

دوسری مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت کو پانچ صوبائی نشستوں سے ہروا کر ان کا منہ بند رکھنے کے لئے انہیں ایک نشست پر زبردستی کامیاب کروا دیا گیا۔ اگر ماضی قریب کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سندھ میں الیکشن 2018، کراچی کے پچھلے بلدیاتی الیکشن اور الیکشن 2024 کی انتخابی مہم حافظ نعیم صاحب نے ہی چلائی۔ پچھلے پانچ برسوں سے یہ کراچی اور سندھ میں جماعت اسلامی کا سیاسی چہرہ بنے ہوئے ہیں اور کراچی کے عوام ان کی ماہرانہ میڈیا مہم کی وجہ سے ان سے آشنا ہیں۔ ان کے علاوہ سندھ اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے جماعت اسلامی کے کسی بھی امیدوار کو لوگ نام یا شکل سے نہیں جانتے۔ اب جبکہ جماعت اسلامی سندھ کا امیر خود اس بات کو قبول کر رہا ہے کہ وہ انتخاب ہار چکا ہے تو بقیہ غیر معروف امیدواروں کے بارے میں کس بنیاد پر دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی انتخابی جیت کو شکست میں بدل دیا گیا ہے؟ اگر وہ اپنی انتخابی مہم کے مطابق فرمائیں کہ کراچی والوں نے ان امیدواروں کی پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں منتخب کیا اور ووٹ ڈالے۔ تو حضرت کیا آپ کی خود کی کارکردگی اس قابل نہیں تھی کہ کراچی والے آپ کو ووٹ ڈالتے؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ جماعت اسلامی سندھ کی امارت کے قابل تو نہ ہوئے۔

 

اس معاملے کی سیاسی بصیرت کا پہلو یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے قائدین اور معروف ترین رہنماؤں کو محفوظ نشستوں سے انتخاب لڑواتی ہیں۔ اس کے نفسیاتی فوائد بھی ہوتے ہیں اور انتظامی بھی۔ تصور کریں کہ نواز شریف، شہباز شریف، زرداری، بلاول اور عمران خان اپنی تمام نشستیں ہار جائیں تو ان کی جماعت کے برسرِاقتدار میں آنے کے باوجود بھی جماعت اور نظام پر ان کا کتنا اختیار ہو گا؟ اب اس مثال کو حافظ صاحب کے لئے دیکھیں تو ان کے بیان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ وہ کراچی میں جماعت اسلامی کی محفوظ ترین نشست پر تو الیکشن نہیں لڑ رہے تھے۔  اب جس جماعت کے علاقائی امیر کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم ہو اس کی بات پر کتنا یقین کیا جا سکتا ہے؟

 

اب حافظ صاحب کے دعوے کا ایک اور زاوئیے سے جائزہ لیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی میں برسوں سے جعلی ووٹنگ، زبردستی ووٹ لینے، اور مخالف امیدواروں کے ووٹرز کو ہراساں کر کے ووٹنگ سے باز رکھنے کے الزامات لگاتی رہی ہے۔ یہ سارے الزامات صحیح ہوں یا غلط لیکن انہیں عدالت میں ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی آج تک عدالتوں سے اپنے دعووں کے مطابق فیصلہ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ لیکن پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس P-45 فارم کی صورت میں ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ اگر وہ تمام اصلی P-45 فارم عدالت میں پیش کر دیں تو عدالت کے پاس ان کے دعوے کے مطابق فیصلہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔ نہ جانے کیوں حافظ صاحب نے اس سنہری موقع کو استعمال کرتے ہوئے عدالت جانے کے بجائے پریس کانفرنس کرنا پسند کیا۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اس معاملے میں حافظ صاحب کا ریکارڈ کچھ زیادہ تابناک نہیں ہے۔ ابھی پچھلے بلدیاتی انتخابات میں مئیر کے انتخاب کے موقع پر انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی تائید کرنے والے تحریک انصاف کے ارکان کو مئیر الیکشن میں آنے سے جبراً روکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے بلدیاتی اجلاس میں جب سارے اراکین موجود ہوں گے تو وہ مئیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے۔ ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے لیکن وہ تحریک عدم اعتماد آج تک نہیں آ سکی۔ اس کے علاوہ کراچی کے مسائل پر بھی وہ بہت زوردار آواز بلند کرتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، پریس کانفرنس کرتے ہیں اور پھر اس معاملے کو بیچ میں چھوڑ کر ایک نئے مسئلے پر احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ اور اس پر فخر سے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو کراچی کے مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ لیکن کراچی والوں کے لئے تو ان کی ساری محنتیں اور کاوشیں ایک مشہور کہانی کے اختتام کی طرح ہیں جس میں مرکزی کردار مظلوموں سے کہتا ہے کہ نتیجہ چھڈو بس میریاں آنیاں جانیاں ویکھو۔

 

قصہ مختصر حافظ نعیم صاحب کو پتہ تھا کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے جہاں وہ دو نشستوں کے ساتھ کوئی تیر نہیں چلا سکتے۔ ان کے لئے بہتر تھا کہ وہ بلدیاتی نظام کے اندر اپنا عہدہ برقرار رکھتے جہاں ان کو ترقیاتی فنڈز بھی ملتے ہیں اور عوام سے رابطے کا موقع بھی۔ میرے خیال میں ان کا بلدیاتی نظام میں رہنے کا فیصلہ زیادہ بہتر ہے جہاں وہ چھوٹے پیمانے پر کی گئی کارکردگی  کو اگلے انتخابات میں استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ان میں سیاسی مہارت کا شدید فقدان ہے۔ اس ناکام سیاسی کرتب سے وہ کچھ حاصل تو نہ کر پائے لیکن جماعت اسلامی کے برسوں پرانے مؤقف کو خود ہی زک پہنچا گئے۔ نجانے آئندہ کس طرح ایم کیو ایم پر انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائیں گے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

  گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچی کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روایت ختم نہ

ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات

  ڈنکی – اچھا خیال لیکن وہی احمقانہ انڈین نظریات   بہت انتظار کے بعد ڈنکی فلم ریلیز ہو گئی۔ راج کمار ہیرانی کے پرستار بہت عرصے سے اس فلم کا انتظار کر رہے تھے۔ میری اس فلم کے انتظار کی دو وجوہات تھیں، راج کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور فلم کا غیر روایتی موضوع۔ یہاں شاہ رخ خان کا نام نہ لینے پر ان کے پرستار ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی باکس آفس پر کامیاب ترین مگر احمقانہ فلموں پٹھان اور جوان نے کم از کم میرے لئے خان کے جادو کو زائل کر دیا۔ ویسے تو شاہ رخ خان اور راج کمار ہیرانی کی جوڑی سے سب کو ایک شاہ کار کی امیدیں تھیں۔ لیکن بڑی توقعات اکثر بڑی ناکامیوں پر ہی منتج ہوتی ہیں۔   اس فلم کا موضوع بہت اچھا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کی کہانی بھی اچھی ہے۔ فلم کے پہلے حصے میں ہنستے کھیلتے جس طرح فلم کی کہانی بُنی گئی ہے وہ بہت دلکش ہے۔ فلم کے پہلے حصے کا اختتام ایک خود کشی پر ہوتا ہے جس میں ہدایت کار اور اداکار کی پرفارمنس عروج پر ہے۔ لیکن خود کشی کے فوراً بعد ساتھی کرداروں کی تقریریں اور سچویشن سراسر اوور ایکٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم کا دوسرا حصہ اگرچہ نسبتاً بوجھل ہے لیکن راج کمار ہیران

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقریب کے بعد اساتذہ کے