Skip to main content

کرکٹ چیمپئنز ٹرافی - کیا پاکستان، انڈیا کی لوز بال پر چھکا مار سکتا ہے؟



 

 کرکٹ چیمپئنز ٹرافی - کیا پاکستان، انڈیا کی لوز بال پر چھکا مار سکتا ہے؟



انڈین حکومت نے کرکٹ چیمپئینز ٹرافی کے لئے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا۔ یہ بہت غیر متوقع نہیں تھا بلکہ اس کا خدشہ بہت پہلے سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔ پاکستانی قوم اس وقت بجا طور پر غصے میں ہے اور ’حب الوطنی سے سرشار‘ پاکستانی میڈیا ان کے جذبات کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ پاکستانی کرکٹ بورڈ نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری ردّعمل جاری کرنے سے گریز کیا ہے جس سے کچھ امید بندھی ہے کہ اگلا قدم مثبت اور نپا تلا ہوگا۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انڈیا کا یہ قدم پاکستانی کرکٹ کے لئے بہت بڑا دھچکا بن جائے گا یا پاکستان اس موقعے پر نہلے پر دہلا مار دے گا؟

 

پہلے ایک نظر فوری اور جذباتی ردّعمل پر ڈال لیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو احتجاجاً اس کرکٹ کپ کی میزبانی چھوڑ دینی چاہئے۔ کیوں بھائی؟ پاکستان نے کیا غلط کیا ہے جو وہ نقصان بھی اٹھائے اور اپنا حق بھی چھوڑے؟

 

بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو اس وقت ڈٹ جانا چاہئے کہ انڈیا اس میں کھیلے یا نہ کھیلے، چیمپئنز ٹرافی پاکستان ہی میں ہوگی۔ اصولی طور پر یہ بات بالکل درست ہے۔ اگرچہ پاکستان کو اس میں مالی نقصان کا خدشہ ہے لیکن بہرحال ایک اصولی مؤقف، مالی نفع نقصان پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس لئے پاکستان کے لئے اس معاملے پر ڈٹ جانے میں کوئی حرج بھی نہیں۔

 

نہلے پہ دہلا

لیکن اگر پاکستان اس موقعے سے فائدہ اٹھا سکے تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کو انڈیا کی بات مان لینی چاہئے اور چیمپئنز ٹرافی پاکستان سے باہر مثلاً دبئی میں کروا لینی چاہئے۔ لیکن ایک شرط پر۔ اس وقت پاکستان کو چاہئے کہ چیمپئنز ٹرافی کو پاکستان سے منتقل کرنے کے لئے آئی سی سی کے قوانین میں یہ بات شامل کروانے کی شرط رکھ دے کہ آئندہ کسی بھی ٹورنامنٹ میں اگر کسی ملک کی حکومت، اپنی ٹیم کو میزبان ملک میں کھیلنے کی اجازت نہ دے تو وہ ٹورنامنٹ ہر حال میں کسی غیرجانبدار ملک میں منتقل کروا دیا جائے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کل انڈیا میں کوئی آئی سی سی ٹورنامنٹ ہو اور پاکستانی حکومت اپنی ٹیم انڈیا بھیجنے سے منع کرے تو انڈیا بھی مجبور ہو کہ وہ یہ ٹورنامنٹ، اپنی ہی میزبانی میں، کسی غیر جانبدار ملک میں کروائے مثلاً سری لنکا، بنگلہ دیش، دبئی وغیرہ۔ یہ ایک اتنی مساوی اور منطقی شرط ہے جسے طاقت کے علاوہ رد کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن سوچیں اگر کسی طرح آئی سی سی کے آئین میں یہ بات شامل ہو جائے تو انڈیا میں کسی بھی آئی سی سی کے ٹورنامنٹ ہونے کے امکانات صفر ہو کے رہ جائیں گے۔ آج ہم ان کے نہ آنے پر پریشان ہیں۔ کل وہ ہر ٹورنامنٹ سے پہلے ہمارے آگے پیچھے بھاگ رہے ہوں گے کہ کہیں ہم ان کے یہاں کھیلنے سے انکار نہ کر دیں۔ وہ پاکستان میں کرکٹ ختم کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ ان کے تو اپنے ملک میں کرکٹ کے لالے پڑ جائیں گے۔  

 

انڈیا نے غلط بال کروا دی اب کیا پاکستان اس پر چھکا لگا سکتا ہے؟

 

Comments

Popular posts from this blog

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

  گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچی کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روا...

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقر...

شام شعر یاران (از مشتاق احمد یوسفی) سے انتخاب

شامِ شعرِ یاراں سے انتخاب لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کلیّتاً   تَرک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نامطبوع ضرور ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ  vocabulary  یعنی زیرِ استعمال ذخیرۂ الفاظ تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے۔ لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والیے کی مبتدیانہ ادبی سطح  کا تابع اور اس کی انتہائی محدود اور بس کام چلاؤ لفظیات کا پابند کر لیا ہے۔ اس باہمی مجبوری کو سادگی وسلاستِ بیان،  فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیا جاتا ہے!  قاری کی سہل انگاری اور لفظیاتی  کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دَور میں شرطِ نگارش اور معیارِابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اب تو یہ توقع کی جاتی ہے  کہ پھلوں سے لدا  درخت خود اپنی شاخِ ثمردار شائقین کے عین منہ تک جھُکا دے! لیکن وہ کاہل خود کو بلند کر کے یا ہاتھ بڑھا کر پھل تک پہنچنے کی کوشش ہرگز نہیں کرے گا۔      مجھے تو اندیشہ ستانے لگا ہے کہ کہیں یہ سلسلۂ سلاست و سادگی،  بالآخر تنگنائے اظہار اور عجز بیان سے گزر کر، نِری     language body  یعنی اشاروں  اور...