Skip to main content

یوم سقوط ڈھاکہ کا رونا بند کر دیں

یوم سقوط ڈھاکہ کا رونا بند کر دیں

 



16 دسمبر کی آمد آمد ہے۔ چند ہی دنوں میں ہر اخبار اور ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سقوط ڈھاکہ کی گردان شروع ہو جائے گی۔ ہر شخص جسے تاریخ کی آگہی ہو یا نہ ہو، اس موضوع پر خامہ فرسائی کرنا شروع ہو جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس سانحے سے ہماری تلخ یادیں جڑی ہیں۔ اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے تزویراتی اور معاشی زوال کی ابتدا بھی اس ہی سانحے سے ہوئی۔ لیکن اس واقعے کو جس تکلیف دہ اور یک طرفہ انداز سے بیان کیا جانے لگا ہے وہ بھی پاکستانیوں کا حوصلہ توڑنے اور تکلیف دینے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہا۔

 

دیکھیں اس دنیا میں بے شمار ملک اپنے اپنے یومِ فتح مناتے ہیں۔ لیکن کتنے ممالک یومِ شکست مناتے ہیں؟ شاید کوئی نہیں۔ تو کیا انہیں کبھی شکست نہیں ہوئی یا ان سے کوئی غلطی نہیں ہوئی؟ اب یہ بتائیں کہ کیا سقوطِ ڈھاکہ، پاکستان کی شکست کی یادگار نہیں؟ اگر بنگلہ دیشی اسے یوم فتح کے طور پر مناتے ہیں تو وہ تو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ لیکن ہم ان سے زیادہ اپنے یومِ شکست کو یاد رکھنے کا اہتمام کیوں کرتے ہیں؟ ہم کیوں اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ تمام سچی جھوٹی داستانیں جن پر بنگلہ دیش اور انڈیا کے تاریخ دان بھی متفق نہیں، اپنی نئی نسلوں کے ذہنوں میں پوری طرح اتار دیں؟ ایک بات یاد رکھیں کہ مشرقی پاکستان اپنی زندگی کے 25 سال بھی پورے نہ کر سکا تھا جب کہ بنگلہ دیش بنے 50 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ اگر پچاس سال کے اچھے سلوک کے بعد بھی کسی کے دل سے پچیس برس کی تلخی نہ جائے تو پھر یہ سوچنا پڑے گا کہ منفی ذہنیت کا مظاہرہ کس طرف سے ہو رہا ہے۔ اگر بنگلہ دیش کے  200 سال تک بنگال کو لوٹنے والے اور (انگریزوں کی تحقیق کے مطابق) لاکھوں بنگالیوں کی موت کا باعث بننے والے برطانیہ سے مثالی تعلقات ہوں اور 25 سال بانٹ کر حکومت کرنے والوں سے نفرت ہو تو  اس بات کی کوئی منطق نظر نہیں آتی۔ انصاف تو جب ہو کہ بنگلہ دیش سب سے پہلے برطانیہ سے معافی اور تلافی کا مطالبہ کرے۔ جب وہاں بات بن جائے تو پھر پاکستان پر دباؤ ڈالے۔ لیکن اگر بنگلہ دیشی سیاست دان صرف ووٹ لینے کے لئے پاکستان کو مطعون کرتے ہیں تو انہیں کرنے دیں۔ ہم پاکستانی اس منافقت کا حصہ کیوں بنیں؟

 

اب ذرا سقوط ڈھاکہ کی بات کر لیں۔ کیا مشرقی پاکستان دنیا کا پہلا اور آخری حصہ تھا جو اپنے ملک سے الگ ہوا؟ سنہ 1918 سے سنہ 1992 تک یورپ میں یوگو سلاویہ کے نام سے ایک ملک ہوتا تھا جس کے اب تک چھہ حصے ہو چکے ہیں۔ کروشیا، سلووینیا، بوسنیا اور ہرزیگوینیا، مونٹی نیگرو، سربیا، شمالی میسی ڈونیا۔ چلیں اب دوسری مثال لیتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا اور قریباً سب سے طاقت ور ملک سوویت یونین۔ سنہ 1922 میں بننے والا یہ اتحاد 70 سال سے بھی کم عرصے میں سنہ 1991 میں اپنے اختتام کو پہنچا اور 15 حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ سقوط سوویت یونین کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کی ریاستیں صرف روس کے تسلط سے آزاد ہی نہیں ہوئیں بلکہ بیشتر نے سب سے پہلے اس کی آئیڈیالوجی کو ترک کیا۔ اس ہی وجہ سے ان 15 نئی ریاستوں میں سے 6 وسیع و عریض مسلم ریاستیں منصّۂ شہود میں آئیں۔ روس ہر سال یومِ دفاعِ وطن بھی مناتا ہے اور یوم فتح بھی لیکن سقوط سوویت یونین پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ عظیم ترکی جس کی حکومت ایشیا، افریقہ، اور یورپ تک پھیلی ہوئی تھی، رقبے کے لحاظ سے ایشیا کا ایک عام سا ملک بن کے رہ گیا ہے۔ ترکی بھی ہر سال 29 اکتوبر کو یومِ جمہور پر جشن مناتا ہے سقوطِ خلافت کا غم نہیں۔ ہزار برس تک ایک رہنے والا، شام سے لے کر یمن تک، پورا عرب 15 ریاستوں میں بٹ گیا۔ ہر ریاست اپنا ’یومِ الوطنی‘ مناتی ہے سقوط عرب کا سوگ کوئی نہیں مناتا۔  برطانیہ، انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ دنیا میں کوئی اور بادشاہت یا جمہوریت ایسی نہیں آئی جس کی حکومت دنیا کے تمام براعظموں تک پھیلی ہوئی ہو۔ برطانیہ کو 14 اور 15اگست 1947کو اپنی سب سے قیمتی مقبوضہ ریاست کو چھوڑ کر نکلنا پڑتا ہے۔ لیکن میں نے آج تک یہاں کوئی سقوط دہلی قسم کا لفظ نہیں سنا۔ یہاں کے اخبارات میں ہر سال انڈیا چھوڑنے کی وجوہات یا انڈینز پر کئے گئے مظالم کی کہانیاں بھی نہیں چھپتیں۔ ایسا نہیں کہ یہ سارے ممالک الگ ہونے والی ریاستوں پر کئے جانے والے مظالم سے مکمل انکاری ہیں۔ اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور ہر حکومت اپنے خلاف ہونے والی بغاوت کو پوری طاقت سے کچلتی ہے چاہے بغاوت کتنے ہی عظیم مقصد کے لئے کی جائے۔ لیکن یہ تمام ممالک حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ کو کتابوں میں دفن کر کے آگے بڑھ گئے۔ برطانیہ آج بھی مختلف معاہدوں کے ذریعے سابقہ غلام مملکتوں سے دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ روس کے نوآزاد وسطی ایشیائی ممالک سے قریبی تعلقات ہیں۔ خلیجی ممالک تو ایک دوسرے کے شہریوں کو بغیر ویزا آمد و رفت کی سہولت بھی دیتے ہیں۔  جب یہ سارے ممالک تاریخ کی تلخیوں اور شکستوں کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھ سکتے ہیں تو پاکستانی ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

 

تو پھر کیا کریں، بھول جائیں کہ کبھی مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ تھا؟ کیا اپنے بچوں کو اپنی تاریخ نہ پڑھائیں؟  کیا تاریخ کے مجرموں کو معاف کر دیں اور پھر ویسے ہی لوگوں کو اپنے پر مسلط ہونے دیں؟ کیا اس سانحے کو بھول کر مست ملنگ ہو جائیں اور اگلے سانحے کا انتظار کریں؟ ان تمام سوالات کا جواب ہے ’نہیں‘۔ نہ تو ہمیں تاریخ بھولنی ہے اور نہ ہی ایسے حکمرانوں کو برداشت کرنا ہے۔ لیکن ہمیں تدبّر سے اس معاملے کو سلجھانا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنی منزل متعین کرنی ہو گی۔ اگر ہمیں ہر سال یوم سقوط ڈھاکہ منانا ہے تو ہمیں واضح کرنا ہو گا کہ ہم اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم مشرقی پاکستان کو دوبارہ متحدہ پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں؟ یقیناً نہ تو ایسا کوئی سرکاری منصوبہ ہے اور نہ ہی عوامی خواہش۔ تو اگر محض تاریخ کا سبق حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے پچاس سال بہت ہیں۔ ہم نے اپنی غلطیاں بھی مان لیں۔ اپنے مجرم بھی نامزد کر دئیے۔ اس موضوع پر بے شمار کتابیں لکھ دیں، کالم/مضامین چھاپے اور بے تحاشا تقریریں اور انٹرویوز بھی سوشل میڈیا پر ڈال دئیے ۔ اگر کسی کو کچھ سیکھنا ہے تو یہ مواد بہت سے بھی سِوا ہے۔ اب ہم ہر سال انہی الفاظ و واقعات کی جگالی کئے جا رہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب اس توانائی کو موجودہ مسائل کو حل کرنے اور مستقبل کی تیاری کرنے میں استعمال کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔

 

دوسری بات یہ کہ بیشتر کتابوں اور ویڈیوز میں پاکستان کے نقطۂ نظر سے دانستہ پہلو تہی کی جاتی ہے۔ بیشتر تحریریں اور تقریریں صرف پاکستانی حکمرانوں کی نا اہلی اور مشرقی پاکستانیوں کی مظلومیت کا پرچار کرتی ہیں۔ ویسے تو یہ دونوں باتیں مکمل طور پر غلط نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایمان داری سے تصویر کا دوسرا رخ دکھانا بھی ضروری ہے۔ اس وقت انگریزی کتابوں کے بل پر جو دانشوری جھاڑی جا رہی ہے اس کا تحقیقی اور تنقیدی انداز سے جواب دینا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے میں کوئی تاریخ دان یا محقق نہیں جو ان باتوں کا مدلل اور مبسوط جواب دے سکوں لیکن آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لئے اگلے مضمون میں کچھ باتوں کا ذکر کروں گا۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔۔

 

اور تیسری بات یہ کہ مشرقی پاکستان گئے اب پچاس سال سے زیادہ ہو گئے۔ جتنا عرصہ مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ رہا، اس سے دوگنا عرصہ جدا ہوئے ہو گیا۔ اب عوام کا سوگ ختم ہونے دیں۔ ہر ملک کا ایک تاریک ماضی ہوتا ہے۔لیکن ہر جگہ نئی نسل ماضی کی غلامی سے نجات پا کر اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کی تدبیر کرتی ہے۔ ہماری نئی نسل کے کندھوں پر مشرقی پاکستان میں کی گئی غلطیوں کا ملبہ مت ڈالیں۔ تاریخ کو ان کے پیروں کی بیڑیاں نہ بننے دیں۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں کوئی غلطی نہیں کی۔ وہ تو بنگلہ دیش کے لئے بہت مثبت جذبات رکھتے ہیں۔ انہیں نئے سرے سے، نئے اعتماد کے ساتھ زندگی شروع کرنے دیں۔ وہ اپنی توانائی سے پاکستان کو بہت آگے لے جائیں گے اور بنگلہ دیش سے تعلقات بھی بہتر کر لیں گے۔


Comments

Popular posts from this blog

اپوا گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول

  گورنمنٹ اپوا  بوائز سیکنڈری اسکول نیو کراچی کچھ شخصیات اداروں کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اپنی محنت، صلاحیت اور خلوص نیت سے ادارے کو کامیابی کے آسمان کا روشن ستارہ بنا دیتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ادارے میں خزاں رُت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ ان کے کِھلائے ہوئے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ اور ایک دن وہ ادارہ کامیابی کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اپنے روشن ماضی کی لکیر پیچھے چھوڑتا ہوا وقت کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہماری مادرِ علمی کے ساتھ بھی ہوا۔ آج ہم اپنے اسکول کی کہانی سنائیں گے۔ جسے سن کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی نواب زادہ لیاقت علی خان سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے قیام کے لئے وقت کر دی اور اس مقصد کے لئے آخر وقت تک قائد اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اپنی ریاست اور دولت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک غریب اور بے آسرا ملک آ گئے۔ تمام عمر اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے توانا بنانے میں گزر گئی۔ اور آخر میں اس عشق میں اپنے وطن پر جاں نثار کر گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی نیکیوں کی روا...

گورنمنٹ اپوا بوائز سیکنڈری اسکول نیوکراچی کی تصاویر

حافظ اللہ خان شیروانی صاحب حافظ اللہ خان شیروانی صاحب  کی ریٹائرمنٹ پر اعزازی تقریب کی تصویری جھلکیاں  ایچ اے خان شیروانی صاحب قاری حبیب اللّٰہ صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محب اللّٰہ صاحب سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے بلقیس قریشی صاحبہ سپاس نامہ پیش کررہی ہیں شیروانی صاحب خطاب کر رہے ہیں۔ پس منظر میں بلقیس قریشی صاحبہ تحفے میز پر رکھتے ہوئے شیروانی صاحب کا خطاب محفل میں اداسی کا رنگ نمایاں ہے خواتین اساتذہ بھی شیروانی صاحب کے جانے پر افسردہ ہیں قاری صاحب اور محب اللّٰہ صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کر رہے ہی قاری صاحب،  شیروانی صاحب کی خدمت میں منظوم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم شیروانی صاحب اساتذہ و طلبہ کا دل جیتنے کے بعد فاتح کے طرح اسکول سے رخصت ہوئے شیروانی صاحب اسکول کی ہر تقریب کے بعد کھانے کا اہتمام کرتے۔ تو ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اساتذہ اس روایت کو جاری نہ رکھتے۔ تقریب کے بعد سائنس لیب میں کھانے کا انتظام کیا گیا۔ شیروانی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے رضوان شیروانی بھی تصویر میں نمایاں ہیں تقر...

شام شعر یاران (از مشتاق احمد یوسفی) سے انتخاب

شامِ شعرِ یاراں سے انتخاب لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کلیّتاً   تَرک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نامطبوع ضرور ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ  vocabulary  یعنی زیرِ استعمال ذخیرۂ الفاظ تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے۔ لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والیے کی مبتدیانہ ادبی سطح  کا تابع اور اس کی انتہائی محدود اور بس کام چلاؤ لفظیات کا پابند کر لیا ہے۔ اس باہمی مجبوری کو سادگی وسلاستِ بیان،  فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیا جاتا ہے!  قاری کی سہل انگاری اور لفظیاتی  کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دَور میں شرطِ نگارش اور معیارِابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اب تو یہ توقع کی جاتی ہے  کہ پھلوں سے لدا  درخت خود اپنی شاخِ ثمردار شائقین کے عین منہ تک جھُکا دے! لیکن وہ کاہل خود کو بلند کر کے یا ہاتھ بڑھا کر پھل تک پہنچنے کی کوشش ہرگز نہیں کرے گا۔      مجھے تو اندیشہ ستانے لگا ہے کہ کہیں یہ سلسلۂ سلاست و سادگی،  بالآخر تنگنائے اظہار اور عجز بیان سے گزر کر، نِری     language body  یعنی اشاروں  اور...