صحافی
(Blackmailer)
بلیک
میلر
مجھے
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ہمارے
صحافی بھائی اُس کی فصل کاٹ رہے ہیں جو کل
انہوں نے بویا تھا۔ جب پاکستان بنا تھا
تو مسائل بے شمار تھے اور وسائل ندارد۔
اس کے باوجود پاکستانی سیاستدانوں نے
اپنے تئیں ان مسائل کے حل کی کوششیں کیں
اور بہت جلد پاکستان کو اقوامِ عالم میں
ایک نمایاں مقام پر پہنچانے میں کامیاب
ہو گئے۔ وہ ریاست جس کے بارے میں ہندو کہتے
تھے کہ سال بھر بھی نہ چلے گی، دس سال کے
اندر اندر اتنی طاقتور ہو گئی کہ انڈیا
کے مقابلے پر اس کا نام لیا جاتا تھا۔ گو
کہ اس وقت کے سارے سیاستدان فرشتے نہیں
تھے مگر بیشتر سیاستدان محبِ وطن اور
ایماندار تھے۔ مگر ہمارے پریس نے اس وقت
ان ایماندار لوگوں کی قدر نہ کی اور نہ ہی
لوگوں کو ان ایماندار رہنماوں کے بارے
میں بتایا۔ بلکہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے
ہانکتے ہوئے بے ایمان قرار دے ڈالا۔
پاکستان کو اس وقت کا گورنر جنرل اور صدر
اسکندر مرزا جب اپنے عہدے سے علیحدہ کیا
گیا تو اس کو گزارا کرنے کے لئے لندن میں
ایک ہوٹل میں ملازمت کرنی پڑی۔ یہی حال
پاکستان کے پہلے مارشل لاء سے پہلے کے
بیشتر سیاستدانوں کا تھا۔ مگر صحافیوں
نے ہمیں یہ بات بتانے کی کوئی شعوری کوشش
نہیں کی۔
یہی
حال نوکر شاہی کا کیا گیا۔ پاکستان کی
بیوروکریسی میں بے شمار ایماندار اور با
صلاحیت افسران گزرے مگر پریس میں ہمیشہ
بیوروکریسی کی بے ایمانی کی داستانیں ہی
چھپیں۔ پولیس کی بے ایمانیاں زبان زدِ
عام ہیں مگر کیا کبھی صحافیوں نے ایماندار
پولیس افسران کا ہم سے تعارف کرانے کی
کوشش کی جنہوں نے بے شمار مواقع پر نہ صرف
بے ایمانی سے پرہیز کیا بلکہ وقت آنے پر
اپنی جانیں بھی وطن پر نثار کر دیں۔
کیا
آج بھی یہ صحافی ہمیں بتاتے ہیں کہ آصف
زرداری کی بدنام ترین حکومت بھی کئی ایسے
کام کر گئی جو ہمارے وطن کو تا دیر فائدہ
پہنچاتے رہیں گے؟ کیا انہوں نے ہمیں بتایا
کہ مشرف جیسے غیر آئینی حکمران نے بھی کئی
جگہ ملکی مفادات پر سمجھوتہ کرنے سے انکار
کر دیا؟ بے نظیر جیسی وطن کے لئے سیکوریٹی
رسک اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر میزائل
کے نمونے لا کر اپنے وطن کے سائنسدانوں
کے قدموں میں ڈال دیتی ہیں؟ بھٹو کی
برائیاں تو ہم سب کو بتاتے رہے مگر یہ نہ
بتایا کہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی ابتدا
بھی اس ہی شخص نے کی ؟
نہیں
آپ نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔ آپ نے تو سیاست
کے نام کو گالی بنا ڈالا اور سرکاری ملازمت
کو حرام کی کمائی کا دوسرا نام۔ اللّٰہ
تعالٰی نے آپ کے ہاتھ میں قلم تھما کر آپ
کو ہماری زبان بنایا اور آپ نے ہمیشہ منفی
باتیں ہی ہمارے کانوں میں انڈیلیں۔ آپ نے
ہمارے سامنے معاشرے کی تمام غلاظتیں اس
طرح لا کر جمع کردیں کہ معاشرے کی خوبیاں
دیکھنے کی جگہ ہی نہ چھوڑی۔ اور اب جب ہمیں
یہ وہم ہو چلا ہے کہ ہم کوڑے کے ایک ایسے
ڈھیر میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی چیز صاف ہو
ہی نہیں سکتی ، تو اب آپ خود شکوہ کناں ہیں
کہ ہماری اجلی قبا پر پڑے چند چھینٹوں پر
قوم مائل بہ ماتم ہے اور ہماری نیکیوں
کا کوئی قدر دان دور تک نظر نہیں آتا۔
جناب مسئلہ یہی تو ہے کہ آپ نے 65
سال
تک اپنے قلم کی قوت سے ہمیں یہی سکھا یا
کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور جب ہم نے
اس سبق کو حرزِ جاں بنا لیا تو آپ ہی ہم سے
خفا ہیں۔
مجھے
امّید نہیں بلکہ سو فیصد یقین ہے کہ پاکستان
کے بیشتر صحافی سفید پوشی کی زندگی گزار
رہے ہیں۔ اور ان میں سے بے شمار ایسے بھی
ہیں جو نہایت ایمانداری سے اپنے فرائض
انجام دے رہے ہیں۔ مگر جناب اب شکوہ کرنے
سے کام نہیں چلے گا۔ قلم آپ کے ہاتھ میں
ہے اور معاشرے کی ترجمانی کا عہدہ جلیلہ
بھی آپ کے پاس۔ پہلے تو آپ کو ان لکھ پتی،
کروڑ پتی صحافیوں کو بے نقاب کرنا پڑے گا
جو معاشرے پر ہمارے اعتبار کو روز بروز
کمزور کر رہے ہیں۔ پھر آپ کو ہی ہمیں معاشرے
کی اچھائیاں دکھانی ہوں گی تاکہ ہمارا اس
وطن اور اس کے لوگوں پر اعتبار بحال ہو
سکے۔ اور آخر میں ہم سے یہی سوال دوبارہ
کیجئے گا۔
یقین
کیجئے اس بار ہمارا جواب مختلف ہوگا۔
24-11-2012
Comments
Post a Comment